زراعت کا شعبہ ملک کی ترقی‘ دیہی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور شہروں تک خوراک کی رسد میں مسلسل کلیدی کردار ادا کر رہا ہے؛ اگرچہ اس شعبے کا قومی آمدنی میں حصہ دیگر شعبوں کی نسبت بتدریج کم ہوا ہے‘ مگر آج سے چالیس سال قبل زراعت سے پچاس فیصد کے قریب قومی پیداوار حاصل ہوتی تھی۔ پھر اس کی جگہ صنعت اور خدمات کے شعبوں کے فروغ نے لے لی۔ اس وقت زرعی وسائل سے ہم تقریباً اٹھارہ فیصد قومی آمدنی میں ڈالتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ موسمی اثرات‘ پانی کے وسائل پر آبادی کے دبائو اور کچھ دوسرے عوامل کی وجہ سے فصلوں‘ پھلوں اور سبزیوں کے اگائو میں اتار چڑھائو کا فرق معمول سے بڑھ گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس ملک کے سبھی علاقے موسمی اثرات سے یکساں متاثر نہیں ہوتے؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم یا زیادہ اثرات مرتب ہوتے ضرور ہیں‘ کوئی فصل‘ کوئی کونہ‘ کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ بعض دفعہ نا مساعد ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پورے باغ اور ساری فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کاربن گیسوں کی فی کس پیداوار میں بہت کم ذمہ دار ہے۔ یہ سب کیا دھرا مغرب کے صنعتی ممالک کی بے لگام ترقی کا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے پڑوس میں چین اور بھارت نے بھی توانائی کے آلودگی پھیلانے والے ذرائع استعمال کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ اب شہروں اور قریبی دیہات میں صاف ہوا تک میسر نہیں۔ ہر سال کثافت‘ گندگی اور آلودگی میں اضافے کی وجہ سے زرعی شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ تقریباً ساٹھ فیصد آبادی براہ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت سے روزگار حاصل کرتی ہے۔ فصلیں خراب ہونے کی صورت میں ناصرف حکومت اور معاشرہ اجتماعی طور پر نقصان اٹھاتا ہے بلکہ چھوٹے اور بڑے سب زمیندار اور کاشت کار قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ پاکستان کے ہر علاقے میں غیر رسمی سودی نظام ایک وبا کی صورت میں پھیل چکا ہے۔ کچھ دیہات میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آبادی کا ایک حصہ سود خور اور دوسرا قرض دار ہے۔ شرح سود‘ میری معلومات کے مطابق دس فیصد تک ماہانہ ہے‘ یعنی بینک کاری نظام کے مطابق ایک سو بیس فیصد سالانہ۔ فقط زمین پر گزارہ کرنے والے چھوٹے کاشتکار اگر وقت پر قرض کی رقم مع سود واپس نہ کر سکیں تو اصل زر اور سود جمع ہو کر نئے اور بھاری قرضے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مشاہدے میں آتا رہتا ہے کہ اگر کوئی سود در سود کے استحصالی چکر میں پھنس گیا تو پھر اس میں سے نکلنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ کئی بار نوبت زمین اسی سود خور کو بیچنے تک آ جاتی ہے۔ صرف پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے کاشتکار اسی چکر میں پھنس کر کنگال ہو چکے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے پاکستان میں اس حوالے سے صورتحال کیا ہو گی۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی اس خطے میں سودی کاروبار اسی طرح چلتا تھا۔ اکثر غیر رسمی 'بینک کار‘ سیٹھ‘ آڑھتی اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی تھے۔ اس زمانے میں صرف چھوٹے کاشتکار ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے زمیندار بھی قرض میں بری طرح جکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ تب وسیع پیمانے پر زمینیں کاشتکاروں سے غیر کاشت کار کاروباریوں اور دکان داروں کو منتقل ہونے لگیں تو کچھ شور اٹھا۔ اس وقت سر چھوٹو رام متحدہ پنجاب کے وزیرِ مالیات تھے۔ انہوں نے زور لگایا اور زمیندار طبقہ قانون ساز اسمبلی میں بڑی تعداد میں موجود ہونے کے سبب وہ ایک ایسا قانون بنوانے میں کامیاب ہو گئے‘ جس میں قرار دیا گیا تھا کہ قرض اور سود کے بدلے غیر کاشتکار اقوام کو زمین منتقل نہیں ہو سکتی۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں کاشت کاروں اور زمینداروں کی آبائی زمینیں‘ جن پر ان کے روزگار اور پورے ملک کی خوراک کا انحصار تھا‘ بچ رہیں۔
آج سود خور وطن عزیز کے ہر چھوٹے بڑے شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں چھوٹے کاشتکاروں کی زمینیں ہتھیائے جا رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کاش سر چھوٹو رام پھر آ جائیں اور ان کاشتکاروں کیلئے کچھ کریں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ کبھی کسی نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر سود خوروں کی لوٹ مار کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ مشاہدے میں آیا ہے اور آپ کو بھی دعوتِ تحقیق ہے کہ طاقتور لوگ‘ سیاسی کارندے اور کچھ عوامی نمائندے بھی سود خوری کی لوٹ مار میں حصہ دار ہیں۔ یہ پس منظر میں رہتے ہیں‘ سامنے نہیں آتے‘ نہ ہی براہ راست سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پولیس اور قانون کا ہاتھ پڑے تو وہ آڑے آ جاتے ہیں۔ پشت پناہی اور کاروبار کے تحفظ کا معاوضہ طے شدہ شرح کے ساتھ مل جاتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہر جگہ سود خور کون ہیں‘ لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ عام کاشتکار کیوں مقروض اور بدحالی کا شکار ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں کیونکہ کئی وجوہات ہیں۔ سب وجوہات قابل غور ہیں اور سب کا حل سب کو معلوم ہے۔ مگر ہم زراعت کے شعبے میں ایسے استحصالی چکر میں پھنس چکے ہیں‘ جس سے نکلنا دشوار نظر آتا ہے۔ غیر رسمی ذرائع سے قرضے اس لئے لیے جاتے ہیں کہ مالدار گلی کی نکڑ پر بیٹھا ہوا ہے‘ چند قدم کے فاصلے پر‘ اور چند منٹوں میں رقم دستیاب ہو جاتی ہے؛ اگرچہ بھاری شرح سود پر۔ بینک کاری نظام سے عام کاشتکار نہ قرض لینے کی زحمت کرتا ہے‘ نہ یہ اتنا آسان ہے۔ کاغذی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرد ملکیت‘ پٹواری کے چکر اور پھر بینک کار آسانی اور سہولت کے ساتھ کچھ نہیں دیتا۔ ہمارے قومی زرعی بینک کے بارے میں تو نہ ہی پوچھیں۔ قرضے صرف بڑے سیاسی زمینداروں کے لئے ہیں‘ جو اربوں ہونے کے باوجود بعد ازاں معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ قرضوں کی اصل ضرورت چھوٹے کاشتکاروں کو ہے‘ مگر بڑے مگرمچھوں نے سرکاری بینک کے سرمائے کو سیاسی زور پر اپنے استعمال میں رکھا ہے۔ اقتصادی ماہرین کی تحقیق کے مطابق چھوٹے کاشتکاروں کی فی ایکڑ پیداوار بڑے زمینداروں کی فی ایکڑ پیداوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پھر زراعت ہر نوعیت کی اور بلحاظ رقبہ و ملکیت سرمائے کی محتاج ہے۔ آج پاکستان کی زراعت خود کفالت کی نہیں‘ سرمایہ دارانہ رنگ اختیار کر چکی ہے۔ کھاد‘ بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں آسمان کو باتیں کر رہی ہیں۔ اکثر کاشتکار‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مالی لحاظ سے ایک فصل سے دوسری فصل تک زندہ رہتا ہے۔ بہت کم ہیں جن کے پاس اتنی جمع پونجی رہ جائے کہ وہ آئندہ بوئی جانے والی فصل میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ سرمایہ کاری کے بعد محنت‘ لگن کے باوجود بچت اتنی کم ہے کہ محض گزارہ ہی ہو سکتا ہے۔ محنت سے پیدا کی گئی فصل کا منڈی میں وہ معاوضہ نہیں ملتا‘ جو کاشتکار کا حق ہے۔ کسی نہ کسی طرح فصل تیار ہو جائے تو آڑھتی‘ دکاندار اور کمیشن ایجنٹ درمیان میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ کم قیمت پر فصل خرید کر بھاری نرخ پر آگے فروخت کرتے ہیں۔ وہ سرمائے کی طاقت سے غلہ‘ کپاس اور دیگر اجناس کچھ عرصہ اپنے پاس ذخیرہ رکھ کر آگے فروخت کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس کاشتکار مجبور ہوتا ہے کہ پیدا کی گئی فصل کے بدلے فوری طور پر نقد حاصل کرے کیونکہ جس طرح گدھ مردہ جانور کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں‘ اسی طرح سود خور فصل پکنے پر کاشتکاروں کے گھروں کے ارد گرد منڈلانا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ تو پکا ڈیرہ بھی ڈال دیتے ہیں۔ ان کیلئے خورونوش کا انتظام و اہتمام کرنا قرض دار کے ذمے ہوتا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکاروں کے مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ منڈیوں کے علاوہ ان کیلئے تمام راستے مسدود ہیں۔ عام صارف تک ان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ منڈی میں بولی لگتی ہے اور رسد اور طلب کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبزی‘ خصوصاً پیاز‘ ٹماٹر اور گوبھی کی فروخت سے کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ خبر تب بنتی ہے جب قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور اس کی وجہ کاشتکار کی مالی تنگی‘ مسلسل نقصان اور منڈی کی غیریقینی صورتحال ہے۔ وہ کاشت کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ سیاست چمکانے کیلئے حکومتیں بازار میں ہر چیز سستی دستیاب کرنا چاہتی ہیں‘ مگر کاشتکار کا نقصان کرکے۔ شاید نئی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے براہ راست صارف تک پھل اور سبزیاں فروخت کرنے کی کوئی راہ نکل آئے۔ تاحال تو جو بھی حکومت آئی‘ اس نے زرعی شعبے کو نظر انداز ہی کیا ہے۔