اگر موقع ملے تو میں ہر دفعہ یہ بات دھرانے کا قائل ہوں کہ بڑی منصوبہ بندی ضروری ہے اور اس میں ریاست کا کردار بھی کلیدی ہے مگر افراد اور معاشرہ‘ دونوں اپنے طور پر سلیقہ مندی‘ شائستگی‘ صفائی‘ تہذیب اور حسن سلوک کی روایات کی مثال تو خود بھی قائم کر سکتے ہیں۔ مغربی معاشرے ہوں یا چین اور جاپان میں جدت پسندی‘ اصلاحات اور ترقی کا عمل‘ ان میں کئی ایسے معاملات ہیں‘ جن میں پہل کاری فرد اور معاشرے کی جانب سے ہوئی۔ بسا اوقات ریاستوں نے سماجی رویوں کو ہی اپنا قانون‘ نصب العین‘ ترقی کی منزل اور نظرئیے کے طور پر اپنایا۔ ریاست‘ جس سے کہ ہم نے بے پناہ اور بے ربط توقعات باندھ رکھی ہیں‘ معاشرے کا ہی عکس ہوتی ہے۔ انقلابات کا دعویٰ کرنے اور انقلابات لانے والے بھی معاشرے کے تہذیبی ورثے کو ختم کرنے کے سب جتن کرنے کے بعد اس کی حکمت‘ طاقت اور پوشیدہ توانائیوں کے قائل ہو گئے۔ چیئرمین مائوزے تنگ ایک نیا چینی معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے اور اپنی انقلابی دھن کے ایسے پکے تھے کہ قدیم چینی روایات‘ اداروں اور ثقافت کو یکسر رد کرکے نئے سرخ رنگ میں رنگنے میں بے پناہ مظالم کا ارتکاب کر بیٹھے۔ نتیجہ تباہی‘ غربت‘ فاقے اور پسماندگی کی صورت میں نکلا۔ چین کی روایات اور تہذیب میں بھی تو ایسے گوہر پوشیدہ تھے‘ جن سے وطن کی تعمیر نو ممکن تھی‘ لیکن انقلاب کے فلسفے اور اس کی مستی میں تہذیبی رویوں کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے۔
انقلابات کے برعکس برطانیہ نے عام آدمی کے طرزِ بود و باش‘ باد و نوش‘ روزمرہ دستور‘ روایات اور اداروں پر اپنی جدت پسندی کی سماجی اساس کو استوار کیا۔ مغرب کے تمام ممالک کی نسبت برطانیہ میں آج بھی معاشرے سے لے کر قومی سیاست تک روایات کا راج نظر آتا ہے۔ فرد اور معاشرے کی روایات سے وابستگی اور ان کی بقا نظریہ افادیت پر قائم ہوتی ہے۔ فائدے کی بنیاد پر ہم اپنی ذاتی اور قومی ترجیہات کا تعین کرتے ہیں۔ ہر وہ چیز ہمارے لئے بے کار ہے‘ جو ہمارے اپنے لئے‘ اور اگر ہم اپنی ذات کے محدود دائرے سے نکل کر دیکھیں تو ہمارے ارد گرد کے ماحول‘ ہمسایوں اور دیگر شہریوں کے لئے مفید نہیں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہر شہری شعور‘ ہر فرد شہریت کی ذمہ داری سے نہ یکساں آگاہ ہے‘ نہ اس بارے میں یکساں حساس۔ اسی لئے تو اچھی اور بری روایات قائم ہوتی ہیں۔ کن کے روئیے غالب ہوں گے اور کن کے نہیں‘ اس کا انحصار عددی توازن کے علاوہ با شعور شہریوں کی بصیرت‘ خلوص اور اپنے ماحول سے قریبی تعلق سے ہے۔ میرے خیال میں مقامی سطح پر اچھی روایات اور مثبت تبدیلیاں اقلیت ہی لاتی ہے‘ مگر اس میں لگن‘ جانفشانی اور تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے عمل سے ہی ریاست اور اس کے اہلکار بھی حرکت میں آ سکتے ہیں اور دیکھا ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں شہری ہمیسہ ریاست کی طرف ہی دیکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ درست کرے‘ معیشت سے لے کر سماجی رویوں تک۔ ترقی یافتہ ملکوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے‘ جہاں ریاست کی جانب سے سب ذمہ داریوں کا ادراک رکھنا ضروری خیال کیا جاتا ہے‘ اسی طرح شہریوں کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا جانا بھی۔ میری نسل سے تعلق رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ سیاسیات کے علم کی اساس کے طور پر شہریت کا مضمون کالجوں میں لازم تھا۔ تب برطانوی نظام تعلیم کے اثرات ہمارے تعلیمی نصاب پر ابھی غالب تھے۔ آج کل کے پاکستان کے سب سے بڑے مسئلہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر ہیں‘ جو ہمیں شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ان کا گلہ تو سب کو ہے مگر شہریوں میں سے کتنے ہیں جو اس بارے میں عملی طور پر کچھ کرنے کے لئے تیار معلوم ہوتے ہیں۔ بہت کم‘ مگر ایسے مثالی شہری ہر جگہ کچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف ہیں۔ آپ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ جمع کرنا‘ گلیوں اور پارکوں کو صاف ستھرا رکھنا تو شہری حکومت کی ذمہ داری ہے‘ ہمارا اس میں کیا کام؟ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ شہری محکمے اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھا نہیں رہے۔ اس حوالے سے کراچی کا ذکر تو تواتر سے آتا ہے مگر در حقیقت دیہات کا تو بہت ہی برا حال ہے‘ اور سب سے بڑھ کر ہمارے مثالی شہر اسلام آباد اور تاریخی شہر اور ثقافت کے مرکز لاہور میں بڑی اور مشہور سڑکوں کو چھوڑ کر کہیں عام اندرونی علاقوں میں جائیں تو گندگی‘ غلاظت اور بدبو کے طوفان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے اور ہماری ذمہ داری بطور شہری کیا ہونی چاہئے؟ یہ وہ نکتہ ہے جس سے تہذیب‘ شائستگی اور سماجی پسماندگی میں فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں زور اس بات پر ہے کہ حکومت کے اہلکاروں نے صفائی کیوں نہیں کی‘ کچرا وقت پر کیوں نہیں اٹھایا اور ہمارے پارک گندگی کا ڈھیر کیوں بن چکے ہیں؟ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ شہری کیوں کچرے کو جہاں چاہیں پھینک دیتے ہیں اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال ختم کیوں نہیں کرتے‘ جو نہ صرف ہمارے ملک کے کونے کونے میں بلکہ دنیا بھر کے دریائوں اور سمندروں تک پھیل چکے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد کے لئے قانون بنایا ہے اور مشاہدے میں ہے کہ اس پر ہر جگہ نہیں تو کم از کم مشہور جگہوں پر عمل ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس کا وہ پہلو‘ جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا‘ ہماری پُرانی گم گشتہ تہذیبی روایات ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے‘ دیواروں پر لکھا نظر آتا ہے‘ زبانوں پہ بھی اس کا ورد جاری رہتا ہے‘ مگر یہ آدھا ایمان گندگی پھیلاتے وقت کیوں غائب ہو جاتا ہے؟ زیادہ تر آبادی میں پاکیزگی‘ حسن سلوک‘ ماحول کی نگہداشت اور پارکوں کی صفائی کی اہمیت بڑھانے کے لئے جہاں قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کرانے کی ضرورت ہے‘ وہاں اپنی مثال خود قائم کرنے کی بھی کہ لوگ جب دیکھیں تو ان کاموں میں شامل ہوں اور وہ جو کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں‘ وہ بھی سبق حاصل کریں۔
یہ باتیں سنی سنائی نہیں بلکہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں قیام کے دوران حسبِ معمول صبح سیر کیلئے پارک گیا تو جاگنگ کے دوران تین خواتین کو سخت سردی میں سڑک کے کنارے پھیلے کوڑا کرکٹ کو سمیٹتے دیکھا۔ ان کے ہاتھوں میں پلاسٹک اور دیگر گری پڑی چیزیں اٹھانے کے چمٹے میری توجہ کا مرکز بنے تو بات کرنے کا بہانہ تلاش کیا۔ پوچھا: کہاں سے ملتے ہیں؟ تو ایک خاتون نے جواب دیا کہ اسے اردو نہیں آتی‘ انگریزی میں بات کی جائے۔ وہ برقعہ پوش خاتون انگریز نکلیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ چمٹے کہاں سے ملتے ہیں اور ساتھ ہی مجھے اسلامی تہذیبی روایات پر ایک مختصر لیکچر بھی دیا۔ 'صفائی نصف ایمان ہے‘ کا پُرانا سبق دہرا دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو ان خواتین نے ذرہ برابر بھی کوئی چیز چلنے کے راستے پر باقی نہ رہنے دی تھی۔ اپنے اپنے لفافے بھر کر لے گئیں۔ اس سے قبل اسی علاقے میں کچھ اور شہریوں کو بھی خود کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہوئے دیکھا اور ان کے کارِ خیر میں شمولیت کا شرف بھی حاصل کیا۔ اسلام آباد میں اور بھی شہریوں کے گروہ اور حلقے ہیں‘ جو مارگلہ کی پہاڑیوں سے لے کر پارکوں تک اپنی صفائی کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ اس طرح اب اس نوع کے با شعور شہری جہاں جگہ ملے‘ شجر کاری بھی کرتے ہیں۔ میرے پڑوسی طارق حجازی صاحب نے صاف پاکستان کا حلقہ مرتب کر رکھا ہے جس کے اراکین کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ سورج طلوع ہونے سے قبل یہ لوگ فاطمہ جناح پارک‘ اسلام آباد کی صفائی میں ہر روز مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرکاری اہلکار بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ اب وہ تماشا دیکھنے کی بجائے اپنی ذمہ داری پوری کرنے لگے ہیں۔ اس طرح قریبی پارک اب کوڑا کرکٹ سے پاک نظر آنے لگا ہے۔ شہری اگر بے حس ہو کر ناامیدی اور غفلت کی نیند سو جائیں تو ریاستی ادارے فعال نہیں ہو سکتے۔ تہذیبی روایات کی بازیابی اور ان کا عملی زندگی میں نمایاں کردار ان کی اپنائیت ہی ہے۔ مثال قائم کرنے اور قدم بڑھانے سے ہی وہ تبدیلیاں رونما ہوں گی‘ جن کی ہم سب کو خواہش ہے۔ لوگ اپنی حد تک چھوٹی تبدیلیوں کی ابتدا کریں تو بڑی تبدیلیوں کی راہ خود بخود ہموار ہو جائے گی۔ پھر انتظار کس بات کا؟