"RBC" (space) message & send to 7575

نئی دنیاؤں کی تمنا

آج کل ساری دنیا کا کاروبار بند ہے‘ لوگ گھروں میں محبوس ہیں‘ حکومتی ادارے‘ سوائے صحت اور سلامتی کے اداروں کے غیر فعال ہیں اور بڑی بڑی صنعتیں تالا بندی کا شکار ہیں۔ یقیناً چند ہفتوں میں ہماری روزمرہ زندگی کا ڈھب ہی بدل گیا ہے۔ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ کھانا پینا‘ چلنا پھرنا‘ خریدو فروخت‘ ملنا ملانا‘ کہیں آنا جانا‘ مہمان نوازی اور دفاتر کے امور‘ کچھ بھی تو پہلے جیسا نہیں رہا۔ حتیٰ کہ معاشی معاملات تک تبدیلی کی زد میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کرنسی نوٹ بھی وائرس پھیلانے کا باعث ہوتے ہیں۔ بازاروں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں اور سڑکیں اور راستے ویران نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک ایسے دھچکے کے ساتھ رکا ہے‘ جیسے دنیا کے سب ممالک ایک ہی کشتی میں سوار ہوں اور وہ ہچکولے کھا کر کسی نا معلوم جزیرے کے کنارے کسی چٹان کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ سب ایک ایسے ماحول میں اتر چکے ہیں جس سے نکلنے کا راستہ سب کے لیے ایک ہے‘ مگر اس راستے کی تلاش میں سب سرگرداں ہیں۔ یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی۔ راستہ انشااللہ ضرور ملے گا اور ہم سب اسی ایک ہی کشتی میں سوار ہو کر اپنی اپنی ریاست کی حدوں میں جا کر دم لیں گے۔ اپنی اپنی منزلوں کو پہنچیں گے۔ بستیاں اور شہر پھر سے آباد ہوں گے۔ صنعتوں‘ گاڑیوں اور ریل کا پہیہ پھر سے رواں ہو گا‘ سڑکوں پر موٹر گاڑیوں کی روانی کا نظارہ پھر سے کیا جا سکے گا۔ بازاروں میں بھیڑ پھر بڑھے گی اور میلوں ٹھیلوں کا انعقاد بھی پھر سے شروع ہو جائے گا۔ جلد ہی ہم دوبارہ اپنے اپنے کاموں‘ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور روزانہ کے کام کاج میں ایک بار پھر مصروف ہو جائیں گے۔ ترقی کا سفر پہلے والی ڈگر پر جاری رہے گا۔زندگی ایک بار پھر اعتدال پر آ جائے گی اور جس خوف میں اس وقت پوری نسلِ انسانی مبتلا ہے‘ وہ ختم ہو جائے گا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ وہی ہو گا جو انسان ماضی سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ سانحہ یہ ہے کہ اس دوران لاکھوں لوگ اپنی زندگیاں گنوا بیٹھیں گے‘ کروڑوں نہیں‘ لیکن لاکھوں گھر برباد ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ ہر جگہ کوشش یہی ہے کہ انسانی زندگیوں کو محفوظ کیا جائے۔ جو اس مہلک وبا کا شکار ہو رہے ہیں‘ ان کے علاج معالجے کا انتظام موثر طریقے سے کیا جائے اور اس کے پھیلائو کے خلاف جو ممکنہ بند باندھے جا سکتے ہیں‘ ان میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ نہ ہی اس سلسلے میں کوئی تاخیر ہو۔ مغرب ہو یا مشرق‘ ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیر‘ کروڑوں کی تعداد میں مزدور‘ کارکن اور پیشہ ور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں لاکھوں ایسے ہی جو دیہاڑی دار ہیں۔ جو روزانہ کماتے اور روزانہ کھاتے ہیں۔ کچھ بچت نہیں اور کنبے بھی نسبتاً بڑے ہیں۔ وہ گھروں میں بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔ عام دکان دار سے لے کر بڑے سے بڑے تاجر اور صنعت کار تک سب پریشان ہیں۔ سیاست دانوں‘ حکمرانوں اور طاقت ور سے طاقت ور‘ کسی کو کوئی پتہ نہیں چل رہا کہ اس وبا سے مؤثر طریقے سے کیسے نمٹا جائے۔ بس بچائو کی تدبیر ایک ہی سامنے آتی ہے کہ گھر میں رہو اور کسی سے نہ ملو‘ انتہائی ضرورت ہو تو باہر قدم دھرو‘ اور ملنا ناگزیر ہو تو مناسب فاصلہ رکھو۔ سب معاشرے اور ریاستیں فی الحال بے بس مگر علاج ڈھونڈنے اور ویکسین کی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم اس وبا پر قابو پا لینے میں کامیاب ہو جائیں گے تو کیا ہم اسی پُرانی دنیا میں رہیں گے‘ یا وہ ایک نئی دنیا ہو گی جو ہمارے سامنے ابھر کر آئے گی؟
کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ ہمارے پیشوں‘ صنعتوں‘ ایجادات اور طرزِ زندگی میں ایک بڑی اور کسی حد تک خوشگوار تبدیلی ممکن ہے۔ کچھ ممالک میں گھر میں رہ کر دفتر کے لیے کام کرنے کا رواج پہلے سے ہی زور پکڑ چکا ہے۔ اس وبا کے بعد مزید ایسے شعبے کھلیں گے‘ جہاں دفتر یا کسی ادارے میں روزانہ حاضری ضروری نہیں ہو گی۔ میرے شعبے یعنی تدریس کے بارے میں کبھی خیال بھی نہ تھا کہ بغیر بذاتِ خود حاضر یا موجود ہوئے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی ممکن ہو سکتی ہے۔ آج تقریباً ہر ملک میں تعلیم و تدریس کا کام گھر بیٹھے جاری ہے۔ پاکستان میں کم از کم جامعات کی حد تک یہ کام ضرور ہو رہا ہے۔ زوم ایک پروگرام ہے‘ جس نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ اس وبا سے پہلے اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ تھی۔ اب بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ استاد اور شاگرد اپنے اپنے گھروں میں ایک ہی سکرین پہ نظر آتے ہیں۔ ایک کلاس روم کا سا ماحول بن جاتا ہے۔ ہاتھ کھڑا کرنے کی اجازت کا بٹن‘ مائیک کو فعال اور غیر فعال کرنے کی سہولت کے ساتھ‘ آپ اپنا لیکچر ریکارڈ بھی کرتے جاتے ہیں۔ اس کے لیے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی سہولت لازمی ہے۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کچھ طلبہ گلگت بلتستان‘ بلوچستان اور اندرونِ سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں مقیم ہیں‘ جہاں یہ سہولت کم دستیاب ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کانفرنسیں‘ لیکچرز اور ہر نوع کے رہنمائوں کے اجلاس بھی زوم یا اسی طرح کی دوسری سہولت کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ ہم مستقبل میں ایک ایسی دنیا دیکھیں گے‘ جہاں ریاستوں کو ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کرنا پڑے گی اور اس سے کہیں زیادہ صحت کے شعبے میں۔ ایبولہ اور سارس وائرس جب ایک دھائی پہلے آئے تھے تو خیال تھا کہ ریاستیں مستقبل میں ایسی وبائوں کے پھوٹنے سے پہلے ان کے لیے تیار رہیں گی‘ لیکن شاید ایسا نہ ہو سکا‘ تاہم اب امید ہے کہ تیاریاں بہتر ہوں گی۔ 
زیاددہ تر توجہ اس بات پہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان مسابقت کے حوالے سے کون زیادہ طاقت ور بن کر ابھرے گا اور کون اس وبا کے اقتصادیات کے ملبے تلے دب کر رہ جائے گا۔ سب قیاس آرائیاں‘ اندازے اور تجزیے چین اور امریکہ کے مستقبل پہ مرکوز ہیں۔ کچھ رجحانات تو اس وبا سے پہلے متعین ہو چکے تھے۔ اول یہ کہ امریکہ ایران اور افغانستان کی جنگوں کو سمیٹنا چاہتا ہے اور اپنے وسائل داخلی احیا‘ بحالی اور ترقی کے لیے استعمال کرنے کی فکر میں ہے۔ دنیا کی رہبری اور قیادت سے آہستہ آہستہ دست بردار ہو کر اپنے روایتی خول میں زندگی بسر کرنے کے اس کے ارادے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ بھی ہے کہ وہ چین پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ چین سے نکل کر دوبارہ امریکہ میں سرمایہ کاری کریں۔ ساتھ ہی ساتھ تجارتی جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے کہ تجارتی خسارے کو کم کیا جائے اور چین نے جو دولت سمیٹ رکھی ہے‘ اس میں مزید اضافہ نہ ہو۔ اس طرح امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کا قصد کر رکھا ہے۔ یہ اتحادی بھی امریکہ کی دفاعی چھتری کے محتاج نہیں رہنا چاہیے۔ ان کے اندر بھی اختلافات نمایاں ہیں۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اس اتحاد کے مستقبل کے بارے میں سوالیہ نشان زیادہ موٹا نظر آتا ہے۔ 
چین نے اس وبا کے دوران ثابت کر دیا ہے کہ وہ ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ اس کی اڑان میں مزید اضافہ ہو گا‘ اثر و رسوخ وسیع اور گہرا ہو جائے گا۔ اس نے ووہان میں وبا پر قابو پا کر نہ صرف اس شہر کو تقریباً دوبارہ رواں دواں کر دیا ہے بلکہ اشیا کی فراہمی اور پیداوار میں اضافہ بھی جاری ہے۔ ساری دنیا اس وقت وبا کے اثرات سے بچنے کے لیے چین کے تجربے اور وہاں تیار شدہ حفاظتی لباس‘ دستانے‘ ماسک اور وینٹی لیٹرز سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہم اسی ڈگر پر رہیں گے‘ جس کی بازگشت ہمیں شام کو ٹیلی ویژن کی سکرینوں پہ دکھائی دیتی ہے‘ افراتفری‘ شوروغل‘ لڑائی جھگڑا اور سب سب کے خلاف‘ سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ جو قیادت اور لوگ اس وبا سے محنت‘ دیانت‘ خدمت اور انسانیت کا سبق لے سکے‘ وہی کامیاب‘ بہتر اور روشنیوں کے سفر پر بلا رکاوٹ رواں رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں