تنوع پسندی انسان کی فطرت کا حصہ بنائی گئی ہے۔ ایک طرح کے کھانے کھانے‘ ایک ہی جگہ مسلسل رہنے‘ ایک ہی نوعیت کا کام کرتے کرتے اور ایک ہی طرز کی اشیا کو دیکھتے دیکھتے وہ تھک جاتا ہے‘ اُکتا جاتا ہے۔ نئے تجربوں‘ نئی جگہوں اور اگر حالات اجازت دیں تو سیر و تفریح کی خواہش سانس کے تسلسل کی مانند رکتی نہیں‘ یہ خواہش باقی رہتی ہے‘ جب تک سانسوں کا سلسلہ ختم نہ ہوجائے۔ زندگی گزارنے کے سب رخ اور سب کیفیتیں وسائل‘ تعلیم‘ مقام اور رتبے کی محتاج نہیں۔ آپ کیسے جیتے ہیں اور جینے کا انداز کیا اپناتے ہیں‘ یہ معاملات قریبی ماحول‘ خانگی تعلیم و تربیت اور وسعتِ تجربہ سے جوڑے جا سکتے ہیں۔ جن ابتدائی اور روایتی معاشروں میں کام اور تجربہ صرف مقامی نوعیت کا ہوتا ہے‘ وہ متنوع زندگی کے علاوہ دنیا کے ان گنت علوم اور جدید آسودگیوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔ وہاں لوگ کنوئیں کے مینڈک کی طرح تنگ سی جگہ پہ زندگی کے سب مراحل طے کرتے رہتے ہیں۔ وہ محدود دنیا ہی ان کے لئے سب کچھ ہوتی ہے۔ خوش قسمتی ہے کہ کتاب‘ علم اور ترقی کی حیران کن منازل‘ جو انسان نے گزشتہ چند صدیوں میں طے کی ہیں‘ سب ایک مٹھی میں بند کر دی گئی ہیں۔ آنکھ اور ذہن کو کھولنے اور حروف کو پڑھنے اور سمجھنے سے انسان اور ماضی و حال کی دنیا کے درمیان سب پردے گرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ وسائل‘ تعلیم اور دنیا کے تیزی سے ہمارے قریب سے قریب تر آنے کے باوجود زیادہ تر لوگ اپنی خود ساختہ تنگ کوٹھڑیوں میں محبوس رہ کر سانسیں پوری کرتے رہتے ہیں۔
آج کل ہم جس کیفیت میں ہیں‘ اس میں نہ ہماری مرضی شامل ہے‘ نہ ہم سے کسی جرم کا ارتکاب ہوا ہے‘ اور نہ ہی اکثر لوگ خوش نظر آتے ہیں۔ اور وطنِ عزیز میں تو کچھ لوگ اوردھڑے بغاوت پر اترتے نظر آتے ہیں۔ اکثر ان میں سے وہی ہیں جو زندگی ایک ہی جگہ گزارتے ہیں ‘ دکان‘ کارخانے کی چاردیواری یا کسی اور شعبے سے وابستہ ‘ جہاں روزگار کا بندوبست ہے۔ کام اور ایک ہی جگہ کام۔ قابل فہم ہے کہ جدید دور کی معیشت اور انسان کی زندگی کا محور پہیہ گھومنے سے جڑا ہوا ہے۔ جونہی یہ پہیہ جام ہوا‘ پوری دنیا میں ایک فطری بے چینی اور ہمارے جیسے ممالک میں مزید غربت اور بھوک کا خطرہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ کام سے تو انسان کی ذہنی صحت بڑھتی ہے‘ تروتازگی پیدا ہوتی ہے‘ تخلیقی عمل آگے بڑھتا ہے‘ اس کی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور اظہار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ بیکار لوگ تو مختلف نوعیت کی فکر مندی‘ احساس کمتری‘ ناکامی کے خوف اور دوسروں پر بوجھ بننے جیسی الجھنوں میں دبے رہ کر کسی روشنی کے انتظار میں مضطرب دن گزارتے ہیں۔ بیکاری سے نکلنا بھی ایک ہنر ہے‘ جو کم از کم مغرب کے متمول گھرانوں میں بھی سکول جاتے بچوں تک کو سکھایا جاتا ہے۔ اس میں منطق یہ ہے کہ خود کامیابی حاصل کرنے کی خواہش ان میں پیدا کی جائے اور خود انحصاری کا ان کو خوگر بنایا جائے۔ وہاں فالتو وقت میں بچے اخبارات اور رسائل گھروں میں جا کر بیچتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک مثال مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں اور میرے اہل خانہ کولمبیا یونیورسٹی میں تدریس کے زمانے میں نیو جرسی کے مضافات میں مقیم تھے۔ وہاں ہر سال موسم گرما کی چھٹیوں میں ایک بچہ کسی روز دروازے پر دستک دیتا اور پوچھتا کہ موسم آنے پر کیا ہم اس سے ایک باکس یا اس سے زیادہ فلوریڈا ریاست کے مالٹے خریدنا پسند کریں گے؟ وہ آرڈر لے کر چلا جاتا اور اس کے بعد کئی مہینے بیت جاتے۔ پھر موسم سرما آنے پر کسی روز وہ آرڈرکے مطابق مالٹے کے باکس لے کر پہنچ جاتا۔ آج ہمارے نوجوان ہاتھ پر ہاتھ دھرے سرکاری نوکریوں کی تلاش میں بیٹھے رہتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کی کاروں کی گرد چاٹتے ہیں اور ان کے ڈیروں کے ارد گرد بھنبھناتے تھکتے نہیں۔ میں بحیثیت ایک استاد اپنے طلبہ سے ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ اپنا رزق آپ خود تلاش کریں‘ ناکامی کے خوف سے کبھی نہ ڈریں‘ نئے تجربے ضروری ہوں تو کریں۔ دو چار بنیادی سوالوں کا جواب صرف آپ ہی خود کو دے سکتے ہیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ کو کیا کرنا پسند ہے؟ اور‘ کہاں پہ اس کی گنجائش ہے؟
ہمارے جیسے پدرانہ معاشرے میں تعلیم اور شادی بیاہ سے لے کر پیشے تک کا انتخاب ہمارے علاوہ کوئی اور کرتا ہے۔ آپ کے اندر کی حقیقی آواز اور آپ کے اپنے دیرینہ خواب کسی اور کی خواہش اور پسند کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ہر نوعیت کا بگاڑ‘ جو جبری معاشرت سے پیدا ہوا ہے‘ آپ کے سامنے ہے‘ اس وقت صرف یہ بات کرنا مقصود ہے کہ پیشہ جو بھی ہو‘ اگر اپنی ذاتی طبع کے مطابق ہے تو یہ مشغلہ ہے ‘ اور اگر یہ جبری ہے تو یہ گلے میں پڑا ہوا ایک بھاری پتھر ہے جو انسان ساری زندگی اٹھائے پھرتا ہے۔ مارکس نے صنعتی مزدوروں کی اس کیفیت کو اپنے فلسفے کا بہت بڑا موضوع بنایا ہے۔ دورِ جدید میں بھی یہ موضوع مزدوروں سے نکل کر ہر انسان کی کیفیت بیان کرتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ سب لوگوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے اور ہمارے ملک کی اکثریت تو اپنے طور پر کچھ کر گزرنے اور کچھ بننے کے علاوہ اپنی پسند کا طرزِ زندگی اختیار کرنے کی بھی وہ آزادی نہیں رکھتی‘ جو کم از کم اس خاکسار اور میرے جیسے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو حاصل ہے۔ یہ بات دھرانے کی ضرورت نہیں‘ مگر ضروری بھی ہے کہ انسان کی اصل اور حقیقی آزادی معاشی خود کفالت اور آسودگی سے مربوط ہے۔
یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ آسودگی معروضی نہیں‘ ٹھہرائو اور قناعت کی ایسی کیفیت جس میں انسان دوسرے سے مقابلے کی بیکار دوڑ سے باہر نکل کر اپنی جنت خود بنا لے۔ مسابقت نے ہی آج کے انسان کو مضمحل‘ مضطرب اور ذہنی بیمار بنا رکھا ہے۔ یہ فرصت کے دن ہیں۔ خاکسار کو یہ فرصت کئی برسوں کے بعد نصیب ہوئی ہے۔ مگر مصروفیت کبھی بھی نہ بے رنگ‘ نہ یک رنگی تھی۔ سفر تجربہ اور علم دنیا کے سب رنگوں کے دروازے‘ کھڑکیاں اور روشن دان کھولتے رہتے ہیں۔ سب کچھ ہمارے ارد گرد‘ ہر ماحول اور ہر کیفیت ‘ شہر ہو یا گائوں‘ سامنے ہے۔ کاش ہم میں سے بہت سارے لوگوں کو یہ فرصت بھی کبھی نصیب ہو کہ جو کچھ ہے‘ یہ منفرد ہے۔ اس کی اپنی خوبصورتی ہے‘ اس کے اپنے فطری اور ہماری گزری ہوئی نسلوں کے محنت و شفقت سے تراشے نقش و نگار ہیں۔ بے رنگ زندگی نے مشاہدے کی آنکھ نہیں کھولی‘ اپنی قریب کی نعمت اور فطری دولت و رعنائی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ میں تو دیہاتی ہوں اور رہوں گا۔ شہروں میں رہتے ہوئے دیہات کے خواب نہیں‘ بلکہ زندگی کا وہی طور طریقہ۔ دیہاتی آج کل کی پابندیوں کا اسیر نہیں‘ اور نہ رہ سکتا ہے۔ اگر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں حائل نہ ہوتیں تو سندھ کے کنارے ہی یہ سارا وقت گزار ڈالتا۔ پاکستان کا کون سا گائوں کون سا دیہہ ایسا ہے جو کئی رنگوں سے دیدہ زیب نہیں ‘ بس نظارے دیکھتے جائیں۔ رنگ‘ زمین آسمان کا تعلق‘ موسموں کے حالات اور لوگوں کی بھاشا‘ یہ سب تبدیل ہوتے معلوم اور محسوس ہوں گے۔ صبح اور شام کا لطف تو ہر جگہ ہر ایک کو نصیب ہے‘ مگر یہ سب ان لوگوں کو بیکار معلوم ہو گاجو فطرت کے اس انعام سے خود محروم رہنا پسند کرتے ہیں۔
پاکستان میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ شہروں میں آپ جہاں بھی ہوں ‘ یہ بھی کم نہیں۔ شرط یہ ہے کہ اپنے ہی شہر کی صدیوں کی متاع کو پھر سے‘ ایک اور نظر سے دیکھنے والی آنکھ کھل جائے ۔ دنیا بھر میں سیر وتفریح کا موقع ملے تو کیا بات ہے‘ مگر جو اپنے اور جو اپنی ہی تاریخی اور فطری وراثت ہے‘ کیا ایک زندگی کے لئے کم ہے۔ دریا ‘ سمندر‘ لہریں‘ کھیت‘ صحرا‘ پہاڑ اور پاکستان کے ہر شہر میں بھی بہت کچھ دیکھنے کو بہت کچھ جینے کو اور بہت کچھ آسودہ رہنے کو ہے‘ بشرطیکہ انسان محرومیت کے پردے چاک کر دے۔