اگر سیاست کی روح تک پہنچنا ہو تو ہر ذہین اور با شعور انسان بہ آسانی ایسا کر سکتا ہے۔ اس کے لئے تعلیم‘ تجربہ‘ کچھ مطالعہ اور مشاہدہ سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لئے لازم ہے۔ میرے نزدیک سیاست کے فقط تین لفظ ہمیں اس کی گہرائی میں اترنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ ہیں: طاقت‘ مفاد اور حقیقت شناسی۔ کچھ مبصرین اسے حقیقت پسندی بھی کہتے ہیں۔ سیاست کا ہزاروں برسوں سے پہلا اور آخری سبق یہ ہے کہ بس اپنے مفاد کا خیال رکھیں‘ اور جو رہنما اس سے غفلت کا مرتکب ہو گا ‘ اس کا نقصان سارے معاشرے کو برداشت کرنا پڑے گا‘ لیکن مفادات کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے طاقت کا حصول‘ اس کا بڑھاوا اور دشمن کے ساتھ توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہیں بلکہ اس سے ایک دو قدم آگے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ یونان کی ریاستوں کے درمیان جنگیں‘ ان پر لکھی گئی تاریخ طاقت‘ مفاد اور حقیقت شناسی کی مظہر ہے۔ اس کے برعکس اخلاقیات کے درس‘ ہوائی فلسفے اور دوسرے انسانوں پر بھروسہ اور اعتماد اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہو گا۔ کوئی احمق ہی ایسا کر سکتا ہے۔ تاریخ حکمرانوں کو آدابِ حکمرانی سکھانے والی کتابوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ سب یہی کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے جیسی مقتدر سلطنتوں اور اب ریاستوں کے درمیان سلامت رہنا ہے‘ تو اپنے مفاد کو پہلا اور آخری اصول سمجھنا ہو گا۔ امریکیوں کی کہاوت ہے کہ خدا پر بھروسہ ضرور رکھو مگر اپنے بارود کو خشک رکھنا بھی لازم ہے۔
جب تمام ریاستیں مقتدر ہوں‘ کم از کم اسی اصول کی بنا پر اور قانونی طور پر ایک جیسی ہوں تو ایسی صورت میں قومی سلامتی نہ تو مبہم اصولوں کی نذر کی جا سکتی ہے اور نہ ہی دوستوں پر انحصار کوئی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ سنا ہو گا‘ سیاست میں نہ مستقل دوست ہوتے ہیں‘ نہ دشمن۔ مفاد کا جڑائو قریب لاتا ہے‘ ٹکرائو دوریاں اور دشمنیاں پیدا کرتا ہے۔ اگر کوئی اصول بین الاقوامی سیاست کے لئے ابدی حیثیت رکھتا ہے‘ تو وہ صرف اور صرف طاقت ہی ہے۔ اگر یہ نہیں تو ہے تو پھر ضعیفی ہے‘ جس کی سزا 'مرگِ مفاجات‘ بھی ہو سکتی ہے۔
داخلی‘ قومی سیاست میں دوسری قسم کے اصول کارفرما ہیں۔ ہم آئین پر بہت زور دیتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ اعلیٰ قومی قانون ریاست کی طاقت کو فرد کی آزادیوں کی زنجیر سے جکڑتا ہے۔ پتہ نہیں میں کیا کہہ گیا۔ ذرا شاگردوں کو بھڑکانے کے لئے بھی اس نوعیت کی باتیں کرنا پڑتی ہیں۔ چونکہ میں اس وقت امریکہ میں ہونے والے مظاہروں کے پس منظر میں سیاہ فام لوگوں پر تشدد‘ ان کے قتلِ عام‘ ان کو غلام بنانے اور ان کے ساتھ بے انصافیوں کی ایک طویل فہرست سے دل گرفتہ ہوں تو قانون کی حکمرانی پر شک‘ جو ہمیشہ رہا ہے‘ مزید تقویت پکڑ گیا ہے۔ جب میرے شاگرد پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی آئین کے نفاذ‘ عدلیہ کی موجودگی اور جمہوری حکومتوں کے موجب ہمیں شخصی آزادیوں کے تحفظ کا یقین کر لینا چاہئے؟ تو جواب میرا کتابی سا ہے کہ ''بالکل‘‘۔ آئین کے بغیر ریاست کو لگام نہیں دی جا سکتی۔ امریکہ نے تو ریاست کے اختیارات کو ایک سلیقے سے تقسیم کیا ہے‘ اور اداروں کے درمیان توازن اور باہمی تعاون کی مثال قائم کر دی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کے بہترین آئینوں میں سے ناصرف ایک بلکہ پہلا ضبطِ تحریر میں لایا گیا آئین ہے۔ دو سو بتیس سال پہلے جب اس پر بحث ہو رہی تھی اور کچھ مسودے سامنے تھے تو کچھ اعلیٰ اخلاقیات کے حامل سیاست دانوں نے اصرار کیا کہ سیاہ فام لوگوں کی غلامی ختم کر دی جائے۔ یہ تیرہ ریاستوں میں سے شمال کی کچھ ریاستوں کی جانب سے مطالبہ تھا۔ اس وقت غلامی کا مرکز جنوبی ریاستیں تھیں۔ ان جنوبی ریاستوں نے دلیل دی کہ غلام ان کی اس طرح ملکیت ہیں‘ جیسے زمین اور مکان‘ ان کی محنت سے کپاس‘ گنا اور تمباکو کاشت ہوتے ہیں‘ ہم کیسے اپنی حیثیت کی تباہی کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں‘ اس وقت حقیقت شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیاد رکھی جائے۔ تیرہ ریاستوں کو ایک ریاست میں ضم کر کے یورپی حریفوں کا مقابلہ آسان تھا۔ علیحدہ علیحدہ رہ کر وہ سب ان کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہو رہے تھے۔ اس وقت اپنے وجود کو قائم رکھنا زیادہ ضروری ٹھہرا۔ غلامی کا خاتمہ اگلی نسلوں پر چھوڑ دیا گیا۔ تقریباً ایک سو سال بعد غلامی کے خاتمے کو منشور بنا کر ابراہام لنکن صدارتی انتخابات میں اترے‘ تو ان کی کامیابی کے ساتھ ہی جنوبی ریاستوں نے آزادی اور اپنے نئے اتحاد کا اعلان کر دیا۔ دنیا کی سب سے بڑی داخلی جنگ لڑی گئی۔ پچاس لاکھ امریکی مارے گئے‘ وفاق قائم رہا‘ علیحدگی پسند ہار گئے۔
قانونی اور آئینی طور پر غلامی ختم ہو گئی‘ مگر اس کے اثرات ختم کرنے میں ایک صدی اور بیت گئی۔ امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا‘ جو سو سال قائم رہا ہے کہ سفید‘ سیاہ اور دیگر رنگ دار لوگ قانونی طور پر برابر ہیں‘ مگر وہ ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں گے۔ ان کے پارکس میں جانے کے اوقات مختلف‘ ٹرینوں اور بسوں میں نشستیں الگ‘ عبادت گاہیں ہر ایک کے لئے مخصوص‘ اور رہائش میں بھی جدا جدا شہروں اور قصبوں کے حصے۔ سیاہ فام لوگوں کو وہ آزادیاں اپنے حقوق کی طویل جدوجہد کے بعد انیس سو سڑسٹھ میں نصیب ہوئیں۔ جو لوگ پہلی مرتبہ نیو یارک‘ لاس اینجلس‘ شکاگو یا کسی اور بڑے شہر میں جاتے ہیں‘ تو انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سیاہ فام لوگوں کی تعداد کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ یہ اندرونِ شہر کا قصہ ہے۔ غلامی ختم ہوئی تو سیاہ فاموں نے شہروں کا رخ کر لیا۔ ان کی آمد جاری رہی اور اسی رفتار سے سفید فام لوگوں نے اندرون شہر کے حصوں کو خالی کر کے دور کہیں اپنی بستیاں بسانا شروع کر دیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج کا پاکستانی نو دولتیا اپنے پُرانے علاقوں سے نکل کر نئی کالونیوں کی جانب نقل مکانی کر رہا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ سفید فام لوگوں کی اکثریت ہے‘ ان کے علاقوں میں سیاہ فام آسانی سے نہیں آ جا سکتے۔ آج بھی نسل پرستی زوروں پر ہے۔ ان پر کتے چھوڑنا‘ انہیں قتل کر دینا غیر معمولی بات نہیں۔ جارج فلائیڈ کا پولیس کے ہاتھوں دنیا کے سامنے قتل ہوا ہے تو آج دنیا کی توجہ امریکہ کی جانب ہے۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہاں میں نے بہت وقت گزارا ہے۔ بہت یادیں اور دوست آج بھی موجود ہیں۔ سیاہ فاموں کی غلامی کا مقدمہ سفید فام لوگوں نے لڑا۔ پچاس لاکھ جو خانہ جنگی میں ہلاک ہوئے سفید فام ہی تھے۔ آج بھی احتجاج میں سفید فام لوگ سیاہ فام اقلیت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ سب کی آنکھیں اشک بار ہیں‘ سب ہی دکھی ہیں اور سب اقلیت کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں‘ مگر سیاست کے تقاضے کچھ مختلف ہیں۔
میں ان امریکی مبصرین سے اتفاق کرتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان‘ سیاست اور بیانیے نے جو کیفیت پیدا کی ہے‘ سیاہ فام لوگوں کے خلاف بربریت اس کا نتیجہ ہے۔ اب کی سیاست کا محور سفید فام اکثریت ہے۔ ان کے ساتھ رہ کر وہ دوبارہ صدر منتخب ہو جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ کہاں یہ حضرات اور کہاں ابراہام لنکن کہ پچاس لاکھ کٹوا ڈالے مگر غلامی کے خاتمے کے اصول پر سمجھوتہ کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ اکثریت کے جبر کا مقابلہ وقتی مفادات سے ٹکرائو صرف جری‘ بہادر اور اعلیٰ قدروں کے رہنما ہی کر سکتے ہیں۔ انہیں کہاں ڈھونڈیں‘ کہاں تلاش کریں؟ جبر کی تاریخ میں کوئی تو چراغ ہو۔