ہمارے لئے یہ خبر نہیں تھی کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ جب سے یہ اعلان ہوا ہے‘ پاکستان میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ کچھ اور کریں یا نہ کریں‘ یہ ماننا پڑے گا کہ ہم باتوں کے ماہر ہیں اور اگر اس حوالے سے عالمی مقابلہ کرایا جائے تو مجھے یقین ہے کہ وطنِ عزیز کی منتخب‘ نمائندہ ٹیم ٹرافی لے کر ہی آئے گی۔ جو باتیں ہم نے سنیں‘ پڑھیں‘ ان کا آپ سب کو بھی علم ہے‘ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مکالمہ ایک لحاظ سے دل چسپ اور جاندار رہا ہے کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہئے‘ کہ لگتا ہے اسرائیل کے خلاف عربوں کی مزاحمت دم توڑ چکی ہے۔ مصر‘ جو عرب ممالک میں دانش وری‘ ثقافت اور سماجی ترقی میں سب سے آگے رہا ہے‘ نے کئی دہائیاں پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا‘ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لئے تھے اور اپنا راستہ الگ کر لیا تھا۔ اردن نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب ہمارے دانشور اصرار کر رہے تھے کہ پاکستان کو بھی اپنا راستہ خود بنانا چاہئے تو مجھے عالمی سیاست کا پہلا اور آخری سبق بار بار الارم کی گھنٹی کی طرح بیدار کر رہا تھا۔ سبق یہ ہے کہ قومی مفادات سے خارجہ پالیسی شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ مرکز و محور‘ مقصد و مقصود اور تمام قومی جدوجہد کا رخ مفادات کے حصول کی سمت میں رہتا ہے۔ کل کی بات ہو‘ آج کی یا ہم گزرے ہوئے زمانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں‘ ہر با شعور‘ ہوشیار اور دانش مند حکمران اور حکومت نے اپنے مفادات کسی اور طاقت کی خواہش کے تابع نہیں کئے۔ تابع فرمان حکمرانوں اور کمزور ریاستوں کی بات اور ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں قومی مفادات کا تعین کیسے ہو‘ اور کون سے ادارے اور حکومتی اہل کار یہ ذمہ داری بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ اگر ہم دانش وروں پہ یہ معاملہ چھوڑیں تو آپ دیکھیں گے کہ جتنے دانش ور ہوں گے‘ اتنی ہی خارجہ پالیسیاں ہوں گی۔ رائے کا احترام اپنی جگہ‘ تنقید کا حق بالکل جائز اور ضروری‘ لیکن جذبات اور خواہشات اور سیاسی وابستگی کے تناظر میں کم از کم خارجہ پالیسی کے زمرے میں تدبر اور احتیاط لازم ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا کوئی اور پالیسی‘ اس کے بارے میں ہر فیصلہ تازہ‘ بر وقت اور ٹھوس حقائق کا محتاج ہے۔ وزارتِ خارجہ ہو یا وزیر اعظم کا دفتر سب کا انحصار ایک نہیں کئی شعبوں پہ ہوتا ہے‘ کہ سب اپنی اپنی بساط اور ذرائع سے حقائق اکٹھا کرتے ہیں۔ فیصلہ سازی ہمارے ہاں بھی اور ساری دنیا میں مشترک ہوتی ہے‘ جس میں دفاع‘ وزارتِ خارجہ‘ انٹیلی جنس کے محکمے‘ وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین شامل ہوتے ہیں۔ سب کچھ عوام کے سامنے کوئی ملک نہیں رکھتا‘ لیکن فائلوں میں موجود رہتا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں تو تیس سال کا قانون ہے کہ اس کے بعد سب کچھ کھول کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ تاریخ میں جو سیاسی کردار ہیں اور جنہوں نے وہ فیصلے کئے‘ ان سب پر سے برسوں پڑی شک کی گرد اتر جائے‘ یا پارسائی اور حب الوطنی کا لبادہ چاک ہو جائے۔ بات کچھ آگے نکل گئی۔
مشرق وسطیٰ میں کچھ کھلی اور کچھ خفیہ جنگیں ایک عرصے سے لڑی جا رہی ہیں۔ ان جنگوں کے کردار نہ تو ماضی کی سرد جنگ کے ہیں‘ نہ اس خطے سے باہر کے۔ باہر کی طاقتیں علامتی حریف ایک دوسرے کے خلاف مقابلے میں توازن پیدا کرنے یا توازن کو گرانے کے لئے لے آتی ہیں‘ اور ماضی میں بھی ایسا کرتی رہی ہیں۔ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ علاقائی دھڑے بندی کی ترتیب میں مذہبی منافرت اور مسابقت کا کوئی بڑا حصہ ہے۔ ریاستوں کے مفادات میں ٹکرائو‘ تصادم اور مسابقت کا عمل زوروں پر ہے۔ اس کے پیچھے نہ تو کوئی نظریہ ہے جیسا کہ سرد جنگ کے زمانے میں تھا اور نہ ہی سرحدوں کے تعین میں کوئی جھگڑا یا تنازع۔ یہ اس سے کہیں بڑی اور خطرناک جنگ ہے۔ ایرانی انقلاب سے آج تک اس خطے میں یکے بعد دیگرے ایسی تبدیلیاں‘ کچھ بزور طاقت اور بیرونی مداخلت سے اور کچھ داخلی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں‘ رونما ہوئیں کہ سیاست‘ سلامتی اور حریف و حلیف کی سب پُرانی روشیں نئے روپ اور نئے دھاروں میں ڈھل چکی ہیں۔ ایران نے اسلامی انقلاب کا شروع میں نعرہ تو لگایا‘ مگر یہ ابھی تک اس کی سرحدوں کے اندر تک ہی محدود ہے‘ لیکن اس انقلاب کی سیاسی لہریں ابھی تک عرب سرزمینوں پر اضطراب اور ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ شاہِ ایران کو گرانا‘ پُرانے نظام کا زوال اور نئی صبحِ آزادی کی نوید تھی۔ بادشاہی ایران امریکہ کی علاقائی سلامتی کا اہم ستون تھا۔ یہ ستون گرا تو سارا نظام بگڑ گیا۔ ازالے کے طور پر امریکہ نے اپنی فوجی طاقت بڑھائی‘ کئی اڈے قائم کئے‘ دفاعی معاہدے کئے اور حلیف عرب ممالک کو سلامتی کی ضمانت فراہم کی۔ جدید اسلحہ سینکڑوں ارب ڈالرز کا فروخت کیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اور پھر زعمِ طاقت اور بڑھا جب اشتراکیت کا جنازہ نکلا اور سوویت یونین کے حصے بخرے ہو گئے۔ افغانستان‘ ایران‘ لیبیا تو براہ راست فوجی مداخلت کا شکار ہوئے‘ مگر شام کو بھی اس کے اندر پیدا ہونے والی مزاحمت کی حمایت کرکے تباہ کر دیا گیا۔ اس سارے کھیل میں امریکہ اور عرب اتحادی شامل تھے۔
ایران نے غیرریاستی عناصر کا سہارا لیاکہ بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ صرف رد عمل کی مداخلت سے ہی ممکن تھا۔ لبنان‘ یمن‘ ایران اور شام میں ایران نے متبادل عسکری دھڑے کھڑے کرنے کے علاوہ سیاسی صف بندی ایسی کی کہ اس کا اثر بڑھتا چلا گیا۔ مصر میں ایران نے اخوانوں کی حمایت اور فلسطین میں حماس کی اعانت جاری رکھی ہے۔ ایران کا بیانیہ یہ ہے کہ علاقے میں شاہی راج صرف امریکہ کی فوجی قوت کے سہارے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ عین یہی بات ایک عرب ملک کے بادشاہ کو مخاطب کرکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برخلافِ سیاسی اور سفارتی آداب ساری دنیا کے سامنے کہہ دی تھی۔ امریکہ کے سہارے کی ایک قیمت ہے‘ اس معاشرے میں شخصی سطح پر بھی اور عالمی سیاست میں تو ہرگز ''فری لنچ ‘‘ نہیں ہوتا۔ مغرب کے حلیف عرب ممالک ایران سے زیادہ خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ تہران کا اثرورسوخ عوامی سطح پر مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلمان ممالک میں بڑھا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات‘ امریکہ کا دفاعی حصار اور سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحادی علاقے میں نئے تزویراتی توازن اور صف بندی کا مظہر ہیں۔
پاکستان کو کسی کی گرد اڑاتی گاڑی کے پیچھے دوڑنے کی نہ ضرورت ہے‘ نہ ایسا کرنے کا سوچنا چاہئے۔ ابھی تک ہماری پالیسی درست رہی ہے اور اسی سمت میں چلنا لازم ہو گا کہ نہ ہم ایران کے اتحادی ہیں‘ نہ عرب اتحاد کا حصہ ہیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہوکہ ہم اس بڑھتی ہوئی تقسیم اور جنگی جنون سے پیدا ہونے والے خطرات سے قوم کو آگاہ کریں۔ پتہ نہیں ہمارے وزیر خارجہ صاحب کو کیا سوجھی کہ وہ روایتی احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر سفارتی آداب کی حد پھلانگ بیٹھے۔ بیان بازی سیاست میں بھی معیوب ہے‘ مگر سفارت کاری میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ سب کی بات حوصلے سے سنی جاتی ہے‘ دوسرے کے اقدامات کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے اور کرنا وہی ہوتا ہے‘ جو اپنے مفاد میں ہو۔ سفارت کاری میں اپنی بات منوانے کیلئے بیان نہیں دئیے جاتے‘ بات چیت کی جاتی ہے۔ پھر بھی بات نہ بنے تو مزید بات چیت‘ تند مزاجی اور جارحانہ رویے کسی کام کے نہیں۔ نہ مشرق نہ مغرب‘ بس پاکستان ہی سب کچھ ہے۔ یہ دل میں رکھ کر سفارت کاری ہو تو ہم دھڑے بندی اور نہ ہی جذبات کا شکار ہوں گے۔