"RBC" (space) message & send to 7575

بہت دیر کر دی!

کئی برس پہلے تک ہنزہ‘ نگر اور بلتستان کی بلند و بالا چوٹیوں کے دامن تک پیل سفر کرتا رہا ہوں۔ ایسی بلندی اور اتنی تعداد میں آسمان سے باتیں کرتی چوٹیاں دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں۔ وادیوں میں جا کر راتیں بسر ہوں تو وہ سکون میسر آئے جس کی تمنا شاید کسی تخیلاتی بہشت میں ممکن ہو۔ اگر گلگت بلتستان کی وادیوں‘ آسمان سے باتیں کرتے برف پوش پہاڑوں‘ جمے ہوئے اور آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے خاموش دریائوں اور آبشاروں کو آپ نہیں دیکھ پائے تو آپ کے خیالات کی بلند پرواز بھی آپ کو یہ سب کچھ بند آنکھوں میں نہ دکھا سکے گی۔ وادیوں اور بلندیوں تک تو صرف فطرت کے پجاری اور اہلِ ذوق ہی سفر کر سکتے ہیں۔ ہر سال یہ خاکسار اپنے آپ کو کوستا ہے کہ ان مناظر کی زیارت سے محرومی کیوں؟ اوائل میں تو بس سن رکھا تھا کہ دور شمال میں برف پوش پہاڑ ہیں‘ جہاں تک رسائی نا ممکن ہے۔ کچھ معلوم نہ تھا کہ یہ علاقے کہاں ہیں۔ ہماری نصابی کتب میں بھی ان کے بارے میں کچھ نہ تھا‘ نہ تاریخ میں اور نہ ہی جغرافیے میں۔ 
کیلے فورنیا یونیورسٹی برکلے میں ایک لیکچر پاکستان کی سیاست پر وہاں اپنے ایک سالہ قیام کے دوران 1984 میں دیا تو اس کے بعد دو امریکی ملے جو عوامی لباس اور چترالی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے۔ ایک نے تو اردو میں فرفر باتیں شروع کر دیں۔ معلوم ہوا کہ تقریباً ہر سال وہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ٹریکنگ کے لئے جاتے تھے۔ وہ امریکی درس گاہوں اور فطرت پسند تنظیموں میں پاکستان کے ان علاقوں کے بارے میں لیکچر بھی دیتے تھے۔ میرا ان علاقوں کے ساتھ تعارف بھی انہی کے ذریعے ہوا اور انہوں نے ہی ٹریکنگ کے سامان کی خریداری کے سلسلے میں میری رہنمائی کی تھی‘ لیکن ان ساری تیاریوں کے باوجود وہاں جانے کا کوئی موقع نصیب نہ ہو سکا؛ تاہم بیس سال قبل جب لمز میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو اس کی ایڈونچر سوسائٹی کو خاصا متحرک دیکھا۔ اس وبا سے پہلے تک اس جامعہ کے طلبا‘ طالبات اور چند اساتذہ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں ایک منظم طریقے سے ٹریکنگ کرنے کم از کم دو بار ان پہاڑی علاقوں میں جاتے تھے۔ مجھے بھی دو مرتبہ ان خوب صورت علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ آخری بار 2007 میں گیا تھا۔ ہر دفعہ ٹریکنگ کے دوران جاپان‘ جرمنی اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں سے ملاقات بس راستے کراس کرتے ہوئے ہوتی تھی۔ یہ الگ قسم کے سیاح ہوتے ہیں‘ جو شہروں کی رنگینیوں میں نہیں‘ گلگت بلتستان جیسی خوب صورت وادیوں میں کھو جانے کے لئے ہمارے ملک میں آتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اب بھی آ رہے ہیں؛ تاہم ان کے آنے اور جانے کا طریقہ منفرد ہوتا ہے۔ ہوائی اڈوں پر اترتے ہی اُدھر چلے جاتے ہیں‘ پہاڑوں اور وادیوں کی طرف اور پھر واپسی کا بھی وہی راستہ ہوتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ علاقے اب تک جدید صنعتی دور کی کثافتوں سے بچے ہوئے ہیں۔ فطرت اب بھی یہاں اپنی تمام تر معصومیت اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ خدا کرے ایسی ہی حالت میں ہم اسے اگلی نسلوں کے لئے چھوڑ سکیں‘ ان کے سپرد کر سکیں‘ مگر خدشہ یہ ہے کہ ہمارا قومی سیاح فطرت اور اس کی پاکیزگی کے بارے میں حساس نہیں‘ نہ ہی اس کو یہ تعلیم دی گئی ہے۔ جہاں کہیں رش پڑنا شروع ہو جاتا ہے‘ ہمارے معزز شہری وہاں کچرے اور گندگی کے انبار چھوڑ آتے ہیں۔ اس خاکسار کا تو ایسی جگہوں سے دل گھبراتا ہے‘ لیکن وہ جگہیں‘ جن کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ وہاں عام آدمی کا جانا مشکل ہے۔ صرف صحت مند‘ تنو مند اور روزانہ سارا دن وزن اٹھا کر پیدل چلنے کی ہمت رکھنے والے ہی وہ نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ 
فطری انفرادیت اور خوب صورتی کے علاوہ سب سے بڑا سرمایہ گلگت بلتستان کے لوگ ہیں۔ نہایت ہی سلجھے ہوئے‘ خوش اخلاق‘ مہذب اور پُر تپاک میزبان۔ میں صرف دو مرتبہ ان علاقوں میں گیا ہوں اور مجموعی طور پر تقریباً دس دن ٹھہرا ہوں گا‘ لیکن ان محدود ملاقاتوں نے جو اثر چھوڑا ابھی تک قائم ہے۔ لمز میں میرے طلبا میں سے ہر سال کچھ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ خواہش ہے کہ ان کے پاس کبھی جائوں‘ ان کے دیہات دیکھوں اور وادیوں میں کچھ دن قیام کروں۔ آج کل ہم گھر بیٹھ کر زوم کے ذریعے کورسز پڑھا رہے ہیں۔ دو ہفتے اب ہو چکے‘ ہم امریکہ کے ''اعلانِ آزادی‘‘ اور ''حقِ انقلاب‘‘ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ پہلا ہی دن تھا۔ ایک طالب علم نے ایک تیز سوال داغ دیا کہ ''ہمیں گلگت بلتستان میں حقوق نہیں مل رہے‘ ہماری کوئی نمائندگی نہیں‘ تو ہم کیا کریں؟‘‘ اس سے پہلے بھی کئی طلبا اور کئی بار ان علاقوں کی نمائندگی‘ اپنی تاریخ اور شناخت کے سوالات میرے سامنے اٹھا چکے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پرویز مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک زوروں پر تھی‘ اور میں راکا پوشی کے دامن تک طلبا کے ساتھ پہنچا تھا۔ سیاسی گرماگرمی سے دور دل نہ لگا تو واپسی کی ٹھان لی۔ سفر عام بس پر مقامی لوگوں کے ساتھ کیا‘ تو علاقے کی محرومی کے کئی قصے سنے۔ سب نے دکھ کا اظہار کیا کہ ان کے آبائواجداد نے ان علاقوں کو مہاراجہ کشمیر کے غلبے سے آزاد کرا کے پاکستان میں شمولیت اختیار کی گئی‘ لیکن انہیں نمائندگی سے اتنا عرصہ محروم رکھا گیا۔
جہاں کہیں بھی گلگت بلتستان کے طالب علموں اور دانشووروں سے بات ہوئی انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کی جداگانہ شناخت کو کشمیریوں کے ساتھ کیوں خلط ملط کیا جاتا ہے۔ ان کی اپنی تاریخ‘ اپنی زبانیں‘ اپنی تہذیب اور اپنی سلطنتیں ماضی میں رہی ہیں۔ کریم آباد میں بلتت قلعہ دیکھنے گئے تو نوجوانوں اور پُر جوش گائیڈ نے بار بار کہا کہ وہ مرکزی ایشیائی ہیں‘ کم از کم وہ اپنے آپ کو کشمیری کہلوانا اور لکھوانا پسند نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی بات اور ہے کہ وہ مہا راجہ کے تمام مقبوضہ علاقوں کو ایک ہی کشمیری سلطنت کا لازمی جزو تصور کر کے گلگت بلتستان پر اپنا دعویٰ جماتے رہے ہیں۔
بالآخر اب گلگت بلتستان پاکستان کا ایک نیا صوبہ بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؛ تاہم اس معاملے میں بہت دیر کر دی گئی ہے‘ بہت عرصہ پہلے بن جانا چاہئے تھا۔ اس خطے کے معروضی حالات بدلے ہیں تو ہمارے حکمرانوں کو خیال آیا ہے کہ اب وقت ہے‘ مزید تاخیر کی تو بیرونی طاقتیں محرومیوں کی آڑ میں حالات خراب کر سکتی ہیں۔ معدنیات‘ پانی‘ پن بجلی اور تزویراتی لحاظ سے محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو صوبہ کی صورت خود مختاری دینا لازم ہے؛ تاہم وہ یہ محسوس نہ کریں کہ مرکز‘ پنجاب اور دیگر صوبے‘ سب ان کے وسائل کی لوٹ مار کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ 
یہ مبارک کام ہماری سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہئے تھا‘ مگر اپنی محدود اپروچ اور تنگ نظری کی دلدل سے نکلیں تو کچھ سوچ کے زاویے وسیع ہوں۔ جب اٹھارہویں ترمیم کی جا رہی تھی تو وہ ایک موقع تھا کہ ایک نیا صوبہ بنا ڈالتے۔ اب گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا کوئی مخالف تو نہیں مگر حزبِ اختلاف معاملے کو وہاں نومبر میں طے شدہ انتخابات کے بعد تک التوا میں ڈالنا چاہتی ہے۔ وہی سیاست کہ کپتان بازی نہ لے جائے اور صوبہ بنے تو وہاں پہلی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کا پلڑا بھاری نہ ہو۔ سب کو معلوم ہے کہ کس نے کن کو بلوایا اور زور دے کر کہا کہ صوبے کی تشکیل میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ سب نے ہامی بھری اور بعد میں نعرے بازی شروع کر دی‘ کہ کچھ تاخیر کریں۔ بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں