جنوبی پنجاب کا میرا آبائی علاقہ ریگستانی ہے۔ دریائے سندھ کے ایک جانب بھارت کی سرحد تک چولستان کی صحرائی آبادیاں ہیں جہاں کسی زمانے میں کہیں کہیں کوئی درخت نظرآتا تھا‘ زیادہ تر طول و عرض میں پھیلی چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ہوتی تھیں۔ یہ ہزارہا اونٹوں کے لئے چراگاہیں تھیں۔ گائیں‘ بکریاں اور بھیڑیں بھی انہی قدرتی چراگاہوں پہ گزارہ کرتیں۔ گرمیوں کی بارشیں برکتیں پھیلاتیں تو باجرہ‘ جوار اور کئی دوسری فصلیں جاڑے کا موسم شروع ہوتے ہی پک کر تیار ہو جاتیں۔ لوگ اسی غلے پر سردیاں گزارتے۔ مال مویشیوں کو فصلوں کا بچا خشک ٹانڈا گھاس کترنے والی مشین پر باریک کر کے کھلاتے۔ جوار کی روٹی اتنی میٹھی اور لذیذ ہوتی کہ آج بھی خیال ان برسوں کی طرف پلٹتا ہے تو منہ میں شیرینی سی بھر جاتی ہے۔ جوار کے ٹانڈے ہم اس طرح کھاتے تھے‘ جیسے پنجاب اور دیگر علاقوں میں گنا۔ سندھ کے مغربی علاقے بلوچستان کی سرحد تک خشک اور بارانی ہوا کرتے تھے۔ ان علاقوں میں آج بھی برسات ختم ہوتے ہی ہم جوار کاشت کرتے ہیں۔ آبپاشی کے وہاں نہ وسائل ہیں‘ نہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہی علاقے ہیں جہاں خلیجی ممالک کے شہزادے تلور کے شکار کیلئے ان دنوں قافلے لے کر پہنچتے رہے ہیں۔ مقامی زبان میں اس علاقے کو پٹی کہا جاتا ہے۔ آپ اسے دامن کوہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر بلوچستان کے ننگ دھڑنگ مٹیالے پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں میں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ہوں بھی تو سیلاب کی صورت ڈھلوانی علاقوں میں پانی مشرق کا رخ کر کے کہیں کہیں دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ جس سال بارش ہو جائے‘ جس جانب بھی جائیں جوار کے لہلہاتے کھیت حدِ نظر تک‘ آپ کا استقبال کرتے تھیں۔
گزشتہ نصف صدی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ دریا کے دونوں جانب نہریں ہیں اور دور دور تک ریگستان آباد ہو چکا ہے۔ نہری نظام تو گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں انگریز سرکار نے بنایا تھا لیکن اس سے پہلے بھی مقامی لوگوں نے دریا سے نہریں کھود رکھی تھیں اور کچے کے علاقے موسم سرما میں آباد رہتے تھے۔ اب بھی کہیں کہیں پُرانا نظام قائم ہے‘ مگر اس کی کمی ٹیوب ویلوں نے پوری کر دی ہے۔ اسی طرح پٹی کے علاقہ میں بھی ٹیوب ویل شمسی توانائی سے چلا کر گندم اور سرسوں کی فصلیں کاشت ہو رہی ہیں۔ صحرائوں میں جاڑوں کے رنگوں میں جدید فصلوں نے اضافہ کر دیا ہے۔ اب بھی یہ ٹکڑوں کی صورت میں ٹیلوں اور لق و دق میدان کے درمیان کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ بس ہماری بھوک ہے جو ختم نہیں ہوتی۔ جہاں ہاتھ پڑتا ہے کچھ اگانے کی تگ و دو میں ہیں۔ کوئی ترقی یافتہ امیر ملک ہوتا تو پٹی اور چولستان کو ایک قومی پارک بنا دیتا کہ ہم اور آئندہ نسلیں ہر نوع کے پرندوں کو دیکھتے۔ ہرن ہمارے سامنے چوکڑیاں بھرتے اور پاڑے ریوڑوں کی صورت میں نظر آتے۔ چولستان میں سنا ہے کوئی لال سہانڑا پارک ہے‘ جہاں ہرنوں کی کچھ نسلوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے حکمران طبقوں سے تعلق رکھنے والے‘ رکھوالوں کی مدد سے نہ جانے ہر سال کتنے ہرن شکار کر کے دعوتوں میں اڑاتے ہیں۔ پٹی میں تو آج ہرن دیکھنے کو لوگ ترس گئے ہیں‘ مکمل نسل کشی کی جا چکی ہے۔
ویسے تو ہر موسم میں اہلِ دل اور صاحبِ ذوق فطرت پسند صحرائوں کا رخ کرتے ہیں‘ مگر جاڑوں کی بات کچھ اور ہے۔ دسمبر میں مجھے اور میرے ہم پیشہ استادوں کو فرصت کے چند ہفتے نصیب ہوتے ہیں تو صحرا کی طرف قدم خود بخود اٹھ پڑتے ہیں۔ اس مرتبہ کورونا کا خوف غالب ہے۔ دیکھتے ہیں کون حدیں پھلانگ کر اس جانب نکلتا ہے۔ یہ وبا تو شہروں میں ہے‘ صحرائی لوگوں سے اس کا کیا واسطہ کہ ہم رہتے ہی دور دور ہیں۔ زندگی تو بس موسموں کی رونقوں سے ہے‘ اور جو کچھ ہمارے حصے میں قدرت نے رکھا ہے‘ اور ایک خالص انعام لطیف جاڑوں کا‘ ہم تو اسے کسی صورت نہیں گنوائیں گے۔ ہم سب خوش قسمت ہیں کہ وقت نکال کر باہر دالان میں‘ ڈیرے پر یا گلی کوچوں کے کسی حصے میں کرسی‘ پھٹہ یا چارپائی ڈال کر دھوپ سینک لیتے ہیں۔ ہمارے بزرگ چارپائی ڈالے‘ حقہ تازہ رکھتے اور ایک اونی کمبل اوڑھ کر لیٹ جاتے۔ چند کش لینے کی آوازیں آتیں‘ جو آہستہ آہستہ مدہم ہو جاتیں‘ اور ان کی جگہ خراٹوں کی آوازیں ابھرنا شروع ہو جاتیں۔ ہمارے دیہات میں پُرانی وضع کے لوگ کمبل‘ کھیس یا دہسہ اوڑھے پھرتے ہیں۔ گرم اور آرام دہ۔ یہ سب مقامی اون سے مقامی جولاہوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں۔ گھر کی عورتیں بھیڑوں کی اون منگواتی‘ صاف کر کے اور دُھنک کر چرخے پہ دھاگہ کاتتی ہیں۔ اس کے بعد جولاہے کا کام شروع ہو جاتا، وہی دھاگہ رنگتا اور کھڈی پر چڑھاتا۔ کئی دنوں کی مشقت کا ثمر ایک خوبصورت کمبل یا کھیس کی شکل میں سامنے آ جاتا۔ کئی سال پہلے تک کچھ دوست فرمائش کرتے کہ دیسی کمبل کہیں سے لا دیں۔ نہ جانے ہم اپنے ماہروں‘ ہنر مندوں کی قدر کیوں نہیں کرتے۔ ولایتی کی چمک کے شوق میں ہم نے انہیں فاقوں پر مجبور کر دیا ہے۔ اب تو وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ اس مرتبہ ضرور تلاش کروں گا‘ اور اگر فرصت ملی تو ان کی حالتِ زار آپ کے سامنے رکھوں گا۔
جاڑوں میں دیہاتی لوگ‘ جن میں خاکسار بھی شامل ہے‘ سحر خیز ہوتے ہیں‘ جلدی سونے اور سویرے اٹھنے کے عادی۔ عام گھروں میں صبح کا آغاز لکڑیوں کی آگ جلا کر ہوتا ہے۔ چولہے کے گرد چھوٹے بڑے اپنی مخصوص نشستیں سنبھال لیتے ہیں۔ قابلِ رشک جگہ خاتونِ خانہ کی ہوتی ہے کہ ساتھ ساتھ ناشتہ بھی بنا رہی ہوتی ہے۔ ہمارے بچپن میں تو ایسا نہ تھا‘ مگر آج کل ہر گھر میں سب سے پہلے چائے تیار ہوتی ہے جس میں گائے یا بکری کا تازہ دودھ مکس کیا جاتا ہے۔ جب ہم چولہے کے گرد پیڑھی ڈالتے تھے‘ تب سفید چینی کا نام بھی نہیں سنا تھا‘ نہ اس چیز کو کبھی دیکھا تھا۔ گڑ یا شکر استعمال کرتے تھے۔ جس تازہ چائے کی میں بات کر رہا ہوں‘ اس میں چائے کم اور چینی کہیں زیادہ ڈالی جاتی ہے۔ سب چھوٹے بڑے چسکیاں لے کر اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انڈے‘ پراٹھے‘ رات کا بچا ہوا سالن اور اگر مویشی گھر میں ہیں تو دھی اور لسی سے ناشتے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ مشینوں نے تو ناشتے میں گنے اور گاجر کا جوس بھی شامل کرا دیا ہے۔ جاڑوں میں دیہات میں ہم تین بار نہیں‘ دو بار کھانا کھاتے ہیں۔ لنچ ہم نے شہری بابوئوں کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ عام موسموں میں بھی ہمارے ہاں دو کھانوں کا رواج رہا ہے‘ صبح اور شام۔
جاڑوں میں کام کرنے والے تو کاموں میں مصروف رہتے ہیں‘ ہم جیسے نکمے فرصت کے دنوں میں صحرا میں کھوئے رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں پیدل کئی میل چلتے تھے۔ راستے میں چرتے ہوئے سینکڑوں اونٹ نظر آتے۔ انہیں اکٹھا اور رواں رکھنے والوں کے مخصوص انداز مشاہدے میں آتے اور آوازیں بھی سنائی دیتیں۔ کچھ دیر ان کے ساتھ حال احوال کرنا ہمیں خیالی بلندیوں سے سطح زمین پر لے آتا ہے۔ اب بھی ان سے دوستی قائم ہے۔ ہم کہیں یا نہ کہیں‘ شام تک اونٹنی کا دودھ گھر پہنچ جاتا ہے۔ روایتی رشتے باہمی محبت کے قائم ہیں۔ دوست لاہور سے آتے ہیں تو ان کا تقاضا ہوتا ہے کہ اونٹ دیکھنے ضرور جانا ہے۔ صدیوں سے لوگ اسی طرح کچے گھر بناتے ہیں اور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
جاڑوں کی لمبی راتوں میں آگ جلانا‘ اس کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھنا‘ دوہے‘ کافیاں اور قصے کہانیاں تو روایتی ہیں‘ ساز بجانے والے اور گانے والے بھی تقریباً ہر گائوں میں آباد تھے‘ مگر اب کہیں کہیں لوک فنکار سندھی‘ بلوچ اور سرائیکی گانے والے‘ درخواست کریں تو آگ کے شعلوں کی تپش اور رنگوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔