نوآبادیاتی نظام دنیا سے آسانی کے ساتھ رخصت نہیں ہوا‘ اور پوری طرح سے تو کسی صورت نہیں۔ ستر اسّی سال کی جدوجہد‘ سماجی‘ فکری‘ مذہبی اور سیاسی تحریکیں اس تاریک دور میں شروع ہوئیں۔ ان کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا تھا کہ آخر ہماری سینکڑوں سالوں سے قائم و دائم سلطنتیں مغرب کے استعمار کے سامنے کیوں ڈھیر ہو گئیں؟ کہاں کمی تھی‘ کمزوریاں کیا تھیں؟ انگریز برصغیر میں کیوں ایک تجارتی کمپنی سے شروع ہوکر طول و عرض کا حاکم بن بیٹھا؟ زیادہ تر توجہ کا مرکز یہ نکتہ تھاکہ اب اس سے چھٹکارا کیسے ممکن ہوگا۔ قومی شعور پیدا ہوا‘ خود آگاہی کے کئی سرچشمے پھوٹے‘ سیاست کا بازار گرم ہوا‘ جماعتیں بنیں‘ منشور سامنے آئے۔ حریت پسند رہنما آزادی کا جھنڈا لے کر میدان میں اترنا شروع ہو گئے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہا۔ آزادی سے نوے سال قبل وطن کی مٹی سے پیار کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں بدترین مظالم کا شکار ہوئے۔ پتا نہیں ہمارے لوگ اپنی تاریخ کیوں مسخ کرتے ہیں‘ مزاحمت مختلف انداز میں جاری رہی‘ اس کا اظہار اسلحے سے زیادہ فکری میدان میں رہا۔ ادب‘ شاعری‘ لوک کہانیاں اور اپنے تباہ شدہ ورثے کی تحقیق اور کھوج کے لئے دانشوروں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ ہمارے ہاں کئی سیاسی دھارے سامنے آئے‘ جن میں عسکری تنظیم سازی اور انگریز حکومت کے خلاف کھلی بغاوت شامل تھے‘ لیکن یہ کمزور اقلیت تھی۔ اگرچہ ان کی نیت‘ خلوص اور وطن سے محبت کے بارے میں کوئی شک نہیں‘ یہ تدبیر کارگر نہیں ہو سکی۔ متبادل آئین اور پُرامن تحریک آزادی کا راستہ کٹھن ضرور تھا‘ مگر کھلا تھا اور یہ روایت ہر نوع کی سیاسی جماعت اور تحریک نے نظریاتی طور پر قبول کر لی تھی۔
بہت سے مسلمان عرب معاشروں نے‘ الجزائر جن میں سرِ فہرست ہے‘ صف بندی کو ترجیح دی‘ مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور لاکھوں کی قربانیوں کے بعد ملک کو فرانس کی سامراجیت سے آزاد کرالیا۔ انگریزی یا فرانسیسی اور روسی سامراجیت کا مقصد لوٹ کھسوٹ کے ساتھ مغلوب معاشروں کو اپنے تہذیبی رنگ میں ڈھالنا بھی تھا۔ ہماری تہذیب‘ ثقافت‘ تاریخ‘ ادب مغربی استعمار اور ان کے گماشتوں کے نزدیک فرسودہ تھے۔ ان کے رنگ میں رنگے لوگ ابھی تک ایسی باتیں جدت پسندی کے نام پر کرتے رہتے ہیں۔ زبان‘ تعلیم‘ انتظامی نظام اور معاشرتی ساخت یکسر بدلی گئی تھی کہ حمایتی گروہ ہر میدان میں پیدا کرنا مقصود تھا۔ ماضی کے تاریک گوشوں میں جھانکیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر نوع کی بیرونی طاقت نے یہی کچھ کیا۔ غالب نظریہ حالات کے جبر اور نئے نظام کی افادیت کو قبول کرنے کی اہمیت پر زور دینا رہا۔ دو صدیاں غلامی میں گزر جائیں تو پھر اپنے ماضی کے بارے میں کچھ یاد نہیں رہتا۔ ہمارے معاشروں کا تہذیبی ارتقا اور فطری توازن استعماری مداخلت نے بگاڑ کر رکھ دیئے۔ ان کی باقیات بھی ہمارے معاشرے اور تہذیبی دھاروں میں آہستہ آہستہ جذب ہوتی رہیں۔ افریقہ‘ مشرق وسطیٰ یا ایشیائی ممالک میں کوئی بھی نوآبادیاتی معاشرہ گم گشتہ ماضی کی طرف نہ گیا‘ نہ ہی جا سکتا ہے۔ تاریخ کا جبر ہی مان لیں لیکن قیاس ہمارے ذہنوں میں ضرور رہتا ہے کہ ہم کیا سے کیا ہو گئے۔ کیا کھویا کیا پایا۔ ہم کون تھے‘ اور اب کیا ہیں؟ ایسے سوالات ہیں جو مشرقی دانشور اٹھاتے رہتے ہیں۔
آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہمیں کس طرح کا معاشرہ‘ ریاست‘ قوم اور ملک بننا ہے۔ سب نظریاتی اور فکری تحریکیں اور ان کے متحرک رہنما اپنے اپنے نظریے کے مطابق کوشاں رہے ہیں۔ سیاسی اسلام ‘ سیکولرازم‘ سوشل ازم‘ لسانی قوم پرستی اور سیاسی قومیت سازی کے افکار ان سوالوں کا جواب دینے کی غرض سے ابھرے‘ نمایاں رہے اور کچھ اب بھی سیاست کی بنیاد ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر برصغیر تک کی تمام ریاستوں میں نظریاتی اتفاق اس طرح پیدا نہیں ہو سکا جس طرح مغربی ریاستوں میں دیکھتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ تہذیبی اور فکری ارتقا سلاست کے ساتھ ہوا‘ بیداری اور روشن خیالی کی تحریکیں ہر ملک میں اپنی اپنی رفتار سے چلتی رہیں‘ کہیں تیز تو کہیں مدہم۔ آزادیٔ فکر‘ فطری مساوات اور حاکمیتِ خلق نے کئی انقلابوں کو جنم دیا‘ اور اب فلسفۂ آزادی عالمگیریت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ ہمارے ہاں تہذیبی ارتقا نہ صرف معطل ہوا بلکہ مغربیت کی پیوند کاری نے معاشروں کی ہیئت کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ معروضی حالات تو تبدیل ہو گئے‘ ریاست کا ڈھانچہ قانون‘ آئین‘ معیشت کی ساخت اور عمومی رویے ''نئے دور‘‘ کے سانچے میں ڈھل گئے‘ مگر ثقافتی رویوں اور کھوئے ہوئے وقار‘ عظمت اور تاریخ کی تلاش نے نظریاتی ہم آہنگی کا خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ اگر موجود ہے تو آئین‘ جمہوریت کی صورت میں‘ مگر ہم نے دیکھا کہ ان دونوں کے ساتھ ہمارا رشتہ کتنا مضبوط رہا ہے۔ بنیادی نظریات اور ادارے بس اقتدار کی جنگ میں کھیل تماشا بنے رہے۔ بے چینی تمام مسلمان معاشروں میں نظریات کے حوالے سے ہے اور اس سوال کا جواب دینے میں تفریق ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں۔
یہ مشکل نہ تھا‘ اگر آئین اور جمہوریت‘ جن کا مقصد محدود حکومت اور حاکمیتِ خلق ہے‘ یہ معاشرے اختیار کر لیتے تو ستر اسّی سال کے عرصے میں موروثی حکمرانوں سے نجات مل جاتی‘ پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت جڑ پکڑ لیتی‘ لوگ یہ محسوس کرتے کہ وہ حکومت ساز اور حکمران ان کے تابع اور ان کو جوابدہ ہیں۔ ایران اور پاکستان‘ دو ممالک ہیں جنہوں نے جنگِ عظیم دوم کے بعد آئین اور جمہوریت سے ابتدا کی۔ پہلے وہاں‘ پھر یہاں جو کچھ ہوا‘ اسکے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ہماری آزادی‘ اپنے حکمرانوں کی غلامی میں تبدیل ہو گئی۔ نظام نے قومی لبادہ پہن لیا ہے‘ چہرے اور بولتی زبانیں اجنبی نہیں لگتیں‘ لیکن لوٹ کھسوٹ‘ ظلم اور نا انصافی اس قدر بڑھی ہے کہ نوآبادیاتی دور کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ۔ یہ لوٹ کھسوٹ کا مال ہر افریقی‘ عرب اور ہمارے جیسے ملکوں سے مغربی ممالک کے بینکوں‘ تجارتی کمپنیوں اور قیمتی جائیدادوں میں ہر سال کھربوں کے حساب سے منتقل ہورہا ہے۔
عرب بہار یا نوجوانوں کی بیداری کی لہر تیونس سے اٹھی کہ وہاں ایک پڑھے لکھے نوجوان نے اپنی ریڑھی اٹھا کر لے جانے پر احتجاجاً خود کو نذرِ آتش کر لیا تھا۔ کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ عرب بہار کو دبایا گیا ہے‘ یا اس کا دھارا کمزور ہوا ہے۔ یہ ایک واقعہ نہیں تھا‘ تاریخی عمل جاری ہے اور اپنے حتمی انجام کو ضرور پہنچے گا۔ اس کو دبانے کیلئے شام کے بشارالاسد نے کیا کچھ نہیں کیا؟'حاکمیتِ خلق کو چلنے دیں‘ سے مراد شفاف انتخابات کے ذریعے پُرامن انتقالِ اقتدار ہے۔ اس سے سماج میں نظم و ضبط پیدا ہوگا۔ بیداری ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کرڈالے گی۔ یہ دنیا کی تاریخ ہے‘ کوئی بھی ملک اس نظریے سے گریز کرکے آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں بڑھا سکتا۔
عرب بہار کا رنگ ہم نے نوجوانوں کی بیداری کی صورت میں پاکستان میں بھی دیکھا‘ لیکن یہ بیداری روایتی موروثی سیاسی جماعتوں سے بغاوت تھی۔ نوجوانوں نے عمران خان کو اپنا نجات دہندہ تصور کیا۔ ان کے کرپشن کے خلاف بیانیے اور نیا پاکستان بنانے کے عزم نے نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا ہے۔ میرا مطالعہ اور مشاہدہ اس کی تائید کرتا ہے‘ لیکن اس نوعیت کے جذبے‘ اتحاد اور سیاسی لگائو دائمی نہیں وقتی ہوتے ہیں‘ حالات کے تقاضوں سے پیدا ہوتے ہیں اور ان کی بقا کا انحصار خوابوں کی تعبیر پر ہے۔ میں اضطراب کی کیفیت میں اضافہ دیکھ رہا ہوں۔ ہر معاشرے میں خصوصاً وطنِ عزیز میں۔ کپتان سے نوجوان مایوس ہوا تو وہ گھر بیٹھ جائے گا‘ غیر سیاسی ہو گا‘ متحرک نہیں رہے گا‘ اور کچھ حصہ لسانی دھڑوں میں قومیت پرستی کا شکار ہو جائے گا۔