"RBC" (space) message & send to 7575

بازار گرم ہے!

اسلام آباد کی سیٹ پر سینیٹ کے انتخاب کے لئے مقابلہ دلچسپ ہے۔ حفیظ شیخ‘ جو پاکستان پیپلز پارٹی کے بھلے وقتوں میں محترم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے رکن تھے‘ گیلانی صاحب کے مقابل ہیں۔ اب بھی وہ تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر خزانہ کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے بند گلی میں پہنچنے کے بعد کم از کم ایک فیصلہ تو بجا طور پر درست کیا ہے کہ وہ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں متفقہ امیدوار میدان میں اتار رہی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے‘ ایک دوسرے کے سہارے ووٹوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے۔ امیدوار زیادہ ہوں تو ظاہر ہے جماعتوں کے ووٹ یک جا ہونے کے بجائے تقسیم ہو جائیں گے۔ متناسب نمائندگی اور قابل تبدیل رائے دہی سے اتحادوں کو فائدہ پہنچے گا‘ مگر ہم قومی اسمبلی کے اراکین کو حکومتی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں تقسیم کریں تو تحریکِ انصاف کے امیدوار حفیظ شیخ کو اندازاً بیس ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ اس وقت ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ تمام اراکین اپنی اپنی پارٹی کی قیادت کی ہدایات پر عمل کریں گے‘ اور صرف ان کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار کے حق میں تین مارچ کے روز ووٹ ڈال کر اپنی جماعت کے ساتھ وابستگی کا ثبوت دیں گے۔
اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کی روح برقرار رکھنے اور اس نظام میں بہتری لانے کے لئے سینیٹ کے انتخابات میں اراکین اسمبلی کا صوبوں میں اور مرکز میں اپنی سیاسی جماعت کے فیصلے کا پابند رہنا ضروری ہے۔ پارلیمانی نظام پارٹی ڈسپلن کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ہمارے آئین میں وزیر اعظم اور سپیکر کے انتخاب کے علاوہ بجٹ پر پارٹی کی ہدایت پر عمل کی شق موجود ہے۔ یہ بات نا قابلِ فہم ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماضی میں سینیٹ کے انتخابات کے لئے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی رہی‘ اٹھارہویں ترمیم کرتے وقت اس بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ کوئی بھی جمہوری نظام ہو‘ ہر بات آئین میں نہ لکھی جاتی ہے‘ اور نہ ایسا ممکن ہے۔ برطانوی آئین‘ جو کبھی ایک دستوری دستاویز کے طور پر لکھا نہیں گیا‘ زیادہ تر روایات پر مبنی ہے۔ سیاسی مزاج قوموں کا رہن سہن‘ چال چلن اور طور طریقے مرتب کرتے ہیں۔ پارلیمان‘ اراکین اور حکومتیں ماضی میں مسلسل جو کرتی آئی ہیں‘ وہ نظیر کا کام دیتا ہے‘ اور آنے والی نسلوں نے ان پر سختی سے عمل کیا ہے۔ امریکہ کا آئین تحریر شدہ ہے‘ مگر ہر لحاظ سے مختصر۔ اس کی تشریح کی جب ضرورت پڑی یا کوئی تنازع پیدا ہوا تو عدالت عالیہ نے کی۔ کانگریس یعنی مقننہ نے جو روایات عملی سیاست میں قائم کیں‘ اس سے سیاسی نظام کے خدوخال نمایاں ہوئے۔ وہاں کے صدارتی نظام میں مقننہ کے اراکین اپنی رائے رکھتے ہیں‘ اس کے مطابق اظہار کرنے ہیں اور کسی بھی قانونی مسودے پر ووٹ ڈالنے میں آزاد ہیں مگر ایوانِ نمائندگان کے سپیکر کے انتخاب کے لئے وہ پارٹی کی ہدایات کے پابند ہیں۔ اس کا ذکر آئین میں کہیں نہیں ہے۔ یہ سیاسی روایت ہے۔ ہم ذرا اپنی تاریخ پر غور کریں تو ہماری روایت بھی یہی ہے کہ اراکین اپنی سیاسی جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے‘ چاہے وہ حکومت میں رہی ہو یا حزبِ اختلاف کی صفوں میں‘ اپنے اراکین کو کھلا‘ آزاد نہیں چھوڑا کہ وہ جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں۔
میری دلیل یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ ڈالا جائے۔ ایسا نہ کرنے پر کچھ پارٹیوں نے منحرف اراکین کو پارٹی سے نکال باہر کیا‘ اور کچھ نے سرزنش کرنے اور آئندہ پارٹی ٹکٹ نہ دینے پر اکتفا کر لیا۔ ہماری دو بڑی قومی‘ سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں‘ جنہوں نے ماضی میں حکومتیں گرانے اور بنانے کے لئے سیاسی گھوڑوں کی منڈیاں لگائیں‘ وہ بھی آخر اس نتیجے پر پہنچیں کہ سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ یہ کاروبار بند کیا جائے۔ سینیٹ کے انتخابات میں شفافیت پیدا کرنے کے لئے انہوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں خفیہ کے بجائے کھلی رائے دہی پر اتفاق کیا تھا۔ اس چارٹر کا مطلب ہی یہ تھا کہ اس پر متفق ہونے والے آئین اور قانون میں ایسی تبدیلی کریں گے کہ اراکینِ اسمبلی کی منڈی نہ لگے۔ اس کے بعد دونوں جماعتیں باری باری دس سال اقتدار میں رہیں‘ مگر اس بارے میں کچھ نہ کیا گیا۔ جب تحریکِ انصاف کی حکومت بنی تو سینیٹ کے اندر ہی ایک کمیٹی اس معاملے پر تشکیل دی گئی‘ جس میں ہر جماعت کے نمائندے موجود تھے۔ اس کمیٹی نے بھی اتفاق رائے سے ایک رپورٹ تیار کی کہ سینیٹ کے انتخابات کے لئے کھلی رائے دہی کے حوالے سے ضروری ترامیم لائی جانی چاہئیں۔
اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے کہ وہ آئین کی ان شقوں کی تشریح کرے جو سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں ہیں کہ آیا کھلی رائے دہی کے لئے انتخابی قوانین میں ترمیم کی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس سے پہلے کہ عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ صادر کرتی‘ حکومت اس بارے میں ایک صدارتی آرڈیننس لا چکی ہے۔ ہو گا وہی جو عدالت کا فیصلہ ہو گا‘ مگر سیاسی جماعتوں میں وہی پُرانی دھڑے بندی نظر آتی ہے۔ ایک طرف حکومت کا اصرار ہے کہ کھلی رائے دہی ہو‘ دوسری طرف حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیاسی پھرکی کہ خفیہ رائے دہی رہے۔ اس پلٹے کی وجہ ظاہراً تو معلوم ہوتی ہے کہ بازار میں زر پھیلا کر گرمی اتنی بڑھائی جائے کہ اراکین کی مطلوبہ تعداد کو پگھلایا جا سکے۔ ماضی میں یہ کاروبار منافع بخش ثابت ہوا تھا تو اب اس میں کیا حرج ہے؟ پھرکیاں اور پھرتیاں تو سیاست کے کھیل کا حصہ ہیں‘ اور عوام میں وہ طاقت یا آواز کہاں‘ جو ان سے کسی بھی معاملے میں کوئی حساب مانگ سکیں؟ نتائج آنے پر ہی معلوم ہو سکے گا کہ ضمیر کی آوازیں تھیں یا سکوں کی گھن گرج۔ خفیہ رائے دہی میں بہت کچھ پردے ہی میں رہ جائے گا۔ اس سے پہلے کپتان کی طرف سے اس قانون کی بات کی گئی کہ پارٹی سربراہ شک گزرنے پر کسی بھی ووٹ سے پردہ اٹھا سکیں گے۔ یہ رعایت سب کے لئے ہے‘ تو پھر پُرانے نظام پر موروثیوں کا اصرار کیوں ہے؟ شاید اس لئے کہ انہیں امید کی کچھ کرنیں نظر آنے لگی ہیں کہ جس طرح گزشتہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کے بیس اراکین صوبائی اسمبلی بکے تھے‘ اب بھی کئی بازار کی زینت بن سکتے ہیں۔ جو کچھ بولیوں کے بارے میں ہم سن رہے ہیں‘ یقین تو نہیں آتا‘ مگر جب لین دین کی ایسی پیٹیاں چل رہی ہوں‘ جہاں اراکین نوٹوں کے ڈھیر میں دھنسے جا رہے ہوں‘ تو بازار لگنے کے بارے میں یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہماری سیاست کے ویسے تو کئی معاملات عجوبوں میں شمار ہوتے ہیں‘ مگر یہ کہ فروخت ہونے والوں کے چہرے اور نام تو سرِ عام آتے ہیں‘ مگر خریداروں کے بارے میں ہمارا میڈیا کوئی بات کرنے سے کنی کتراتا ہے۔ یہ تو ہماری آزادیوں اور اظہارِ رائے کے احاطے سے بالکل باہر ہے کہ ہم سوال کر سکیں کہ ووٹ کی خریدوفروخت میں جس دھن کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے‘ وہ کہاں سے آیا؟ ذرائع کیا ہیں؟ اور یہ بھی کہ اس سرمائے کا اصل مالک یا مالکان کون تھے۔ احتساب اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ہم جمہوریت چلائیں گے‘ تو یہی ہو گا‘ جو اس وقت ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں گیلانی صاحب اور شیخ صاحب کے مابین مقابلہ بہت کچھ کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں