"RBC" (space) message & send to 7575

ہم کون ہیں؟

عمران خان صاحب نے پاکستانیت اور منفرد قوم بننے کا پیغام دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ سوال اکثر سماجی‘ سیاسی اور فکری حلقوں میں اٹھایا جاتا رہا ہے کہ بطور پاکستان ہمارا تشخص‘ پہچان اور اجتماعی شناخت کیا ہے؟ کچھ دانشور حلقے یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ پاکستانیوں کو اپنی ''پہچان کے بحران‘‘ کا سامنا ہے۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران بھی اس نوعیت کے مباحث میں ہم الجھے ہوئے تھے۔ دو نقطہ ہائے نظر غالب اور نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ مسلمان قومیت کا تصور اور ہندوستانی یک قومی نظریہ۔ ہندوستانی قومیت پرست مسلمان زعما اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین اور سماجی تحریکوں میں شامل اعلیٰ درجے کے دانشور کہتے تھے کہ انڈیا کے کناروں پر واقع مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک نئی ریاست بن گئی تو اس کا مقصد اور نظریہ کیا ہو گا‘ اور وہ اپنی اپنی لسانی اور علاقائی شناختوں کے حامل خطوں کو ایک قوم میں جوڑنے کیلئے کیا کرے گی؟ یہ صرف برصغیر کا مسئلہ نہیں‘ عالمی مسئلہ ہے کہ کثیرالمذاہب معاشروں میں قومیت اور قومی شناخت کو کیسے ابھارا جائے۔ ایک ثقافت‘ ایک زبان اور ایک قومیت کے پیمانے کو استعمال کرکے دنیا کی تمام موجودہ ریاستوں کو پرکھیں تو اس معیار پر دس‘ گیارہ سے زیادہ نہیں اتریں گی۔ مغرب کی کئی ریاستیں‘ جو یک رنگی ثقافتی قومیت پر فخر کرتی تھیں‘ اب ان کا اندرونی سماج کثیر تعداد میں تارکینِ وطن کی آمد سے متنوع ہو چکا ہے۔ تکثیریت‘ فکری اور جمہوری آزادیوں کی فطری پیداوار ہے‘ اگرچہ قدامت پرست اکثر مغربی ممالک میں اس سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اپنی مستند ثقافت اور قومی شناخت پر حملہ قرار دے کر نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
شناخت بشری اور سیاسی علوم میں کلیدی فلسفوں اور مباحث میں سے ہے۔ یہ المیہ ہے کہ جب میڈیا اور سماجی چوکڑیوں میں اس پر بات کرتے لوگوں کو سنا اور سیاست کے گرم بازاروں میں بھی تو محسوس ہوا کہ دھواں زیادہ اور روشنی کم ہے۔ جب ہم فرانس‘ روس‘ چین اور جاپان کا نام لیتے ہیں تو ایک مبہم سا تشخص ان ملکوں کے بارے میں سامنے آتا ہے۔ ان خیالی دھندلکوں میں اپنی اپنی علمی وسعت اور کسی حد تک پہلے سے ذہن میں راسخ تعصب کی بنیاد پر کچھ تصورات ابھرتے ہیں‘ ان کی ثقافت‘ نسل‘ سیاسی زندگی‘ معاشی ترقی اور معاشرت کے بارے میں۔ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے بارے میں بھی باہر کی دنیا میں ان جزئیات کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں نقش ابھرتے ہیں۔ اس بارے میں دو اہم باتوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ کہ شناخت ملکوں کی ہو یا قوموں کی‘ خود بنائی جاتی ہے۔ یہ کوئی فطری عمل نہیں۔ مفروضے گھڑے جاتے ہیں۔ متھ بنائے جاتے ہیں۔ تاریخ اپنی مرضی کی لکھی جاتی ہے۔ اجلے ثقافتی رنگ‘ کھیل تماشے‘ موسیقی‘ آرٹ اور سب سے بڑھ کر تاریخی ورثے اور آثارِ قدیمہ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ زبان و کلام‘ بیانیے اور نمائشی جادوگری کا سحر ہوتا ہے کہ ملک اور قومیں اپنی شناخت اجاگر کرتی ہیں‘ ایسی کہ دنیا ان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائے‘ ترسنا شروع ہو جائے کہ 'اگر اہرامِ مصر نہیں دیکھے تو دنیا نہیں دیکھی‘ 'تاج محل نہیں دیکھا تو زندگی بیکار گئی‘۔ بذاتِ خود تاج محل میں دیکھ چکا اور اب تک خیال یہی ہے کہ کوئی اس کے معیار کی جگہ دنیا میں نہیں؛ البتہ اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع ابھی تک نہیں ملا۔
دوسری بات یہ ہے کہ شناخت سازی اور حقیقت میں سچائی کا تعلق قریبی اور گہرا ہونا چاہئے۔ آپ دنیا کو زیادہ دیر تک دھوکا نہیں دے سکتے۔ نئی دنیا میں مَیں نے بہت وقت گزارا ہے۔ لوگ وہاں تمام تر آسائشوں کے باوجود اس کی یکسانیت اور روزمرہ کی مشینی زندگی سے تنگ آ جاتے ہیں۔ اکثر تو سرد اور سرمائی موسموں کی طوالت سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ کسی ایسے ملک اور خطے میں بھاگنا چاہتے ہیں‘ جہاں وہ پرانی دنیا‘ تہذیبیں‘ وہ لوگ اور ثقافتیں جو جدیدیت کی یک رنگی میں ابھی تک نہیں رنگے گئے‘ دیکھ سکیں۔ ان میں سے اکثر ان علاقوں اور ملکوں میں جانا چاہتے ہیں‘ جہاں کم لوگ جاتے ہیں‘ اور جن جگہوں کے بارے میں افسانوی باتیں سن رکھی ہوں۔ پینتیس سال پہلے جب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں ایک سال گزارا تو کہیں پہ ایک لیکچر پاکستان پر دیا۔ سامعین میں دو گورے شلوار قمیص اور چترالی ٹوپی میں ملبوس تھے۔ تقریب ختم ہوئی تو گرم جوشی سے ملے اور اردو میں بات کرنا شروع کر دی۔ ایک کا نام ولسن تھا‘ مگر کہتا تھا کہ میرا پاکستانی نام ''ولی خان‘‘ ہے۔ ولی خان سے کئی دہائیوں تک دوستی رہی۔ وہ تقریباً ہر سال گلگت بلتستان میں کوہ پیمائی کرنے اور وادیاں ناپنے آیا کرتے تھے۔ یقین مانیں‘ اس علاقے میں میری رغبت اور وہاں دو مرتبہ ٹریکنگ کیلئے جانے میں ان کی مثال اور معلومات نے اثر دکھایا تھا۔ بات کچھ دوسری سمت چلی گئی‘ مگر یہ بھی قومی شناخت کو ابھارنے کا طریقہ ہے۔ مصری اہرام کی تشہیر کرتے ہیں‘ بھارتی تاج محل کی‘ اطالوی روم کے آثارِ قدیمہ کی اور یونانی اپنے کلاسیکی دور کے کھنڈرات کی۔ عمران خان صاحب درست کہتے ہیں‘ ہم تو چار تہذیبوں کا مرکب ہیں‘ اور بے شک اس وقت اسلامی تہذیب اور اس کے رنگ غالب ہیں۔ میں ایسے امریکی سکالرز کو جانتا ہوں جنہوں نے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیبوں کے مطالعے اور جانکاری میں زندگیاں کھپا دیں۔ جان مارشل کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے گندھارا تہذیب کو تلاش کرکے ہمارے کھنڈروں میں دبے تہذیبی ورثے کو جلا بخشی۔ نجانے اپنے کئی بھارتی دوروں کے دوران کتنے لوگوں سے ملا ہوں جو اپنی زندگی میں ٹیکسلا کو ایک دفعہ ضرور دیکھنا چاہتے ہیں۔ کئی بھارتی دوست یہاں آئے تو ان کی فرمائش تھی کہ میں انہیں ٹیکسلا ضرور لے جائوں۔ بدھ مت اور گندھارا کے حیران کن آثارِ قدیمہ کاسلسلہ خیبر پختونخوا سے بھی آگے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے قدیم شہروں کی اپنی پہچان ہے‘ جن میں پشاور‘ لاہور اور ملتان صفِ اول میں ہیں۔ جو بات میں یہاں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘ یہ ہے کہ تشخص کا تعلق تاریخ اور اس کے زمینی اور ظاہر قدیمی حوالوں سے ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر سندھ کے صحرائوں تک کتنے قدیمی قلعے‘ جو کبھی شاہی محلات بھی تھے‘ ابھی تک اصلی عظمت کے ساتھ موجود ہیں کہ اگر انہیں ہی دنیا کے سامنے پیش کریں تو ہمارے اوپر ڈالی گئی گردو غبار کی کئی تہیں اڑ جائیں گی۔ مغلوں کا چھوڑا ہوا ورثہ یا ان سے پہلے کے حکمرانوں کا‘ دونوں وطنِ عزیز کو تہذیبی لحاظ سے امیر ترین ملکوں کی صف میں شامل کرتے ہیں۔ تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو عمران خان نے کمال کی بات کی ہے ۔
میرے نزدیک وادیٔ سندھ کی سب تہذیبیں قوسِ قزح کی رنگا رنگی پیدا کرتی ہیں۔ یہ متنوع رنگوں کی بہار علاقائی ثقافتوں‘ زبانوں‘ موسموں اور جغرافیائی ساخت کی انفرادیت میں بھی نمایاں ہے۔ یہ سب کچھ پاکستانیت ہے‘ جس کا مطلب اپنی روایات‘ ثقافت‘ رہن سہن‘ رسوم و رواج اور تہذیبی ورثہ کی حفاظت اور ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اس کا شعور ہے۔ انگریزی دور ہو یا آج کا عالمی زندگی کا بڑھتا ہوا سایہ‘ اس کے اثرات سب معاشروں نے قبول کئے ہیں۔ عادات و اطوار بھی بدلے ہیں۔ یہ ہماری بات نہیں‘ ہر جگہ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے‘ لیکن حقیقی شناخت کی بنیاد آپ کا تہذیبی ورثہ ہے۔ میرے نزدیک پاکستانیت مختلف علاقوں‘ تہذیبوں‘ ثقافتوں اور کئی تاریخی ادوار کے اثرات سے بنا گلدستہ ہے۔ پہلی کوشش تو ان رنگوں کو وقت کے گردوغبار سے صاف کرکے اجلا کرنا ہونی چاہئے۔ دوسرا یہ کہ دنیا کے سامنے ہم اسے کیسے نمایاں کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں