گزشتہ صدی میں دنیا بلا مبالغہ نظریاتی کشمکش کا شکار رہی۔ آغاز ہی سے سرمایہ داری نظام کا پھیلائو صنعتی ترقی اور مختلف قوموں کی فوجی قوت سے ہوا تھا۔ آزاد معیشت‘ آزاد منڈیوں اور آزاد تجارت کی باتیں تو ہوتی رہیں مگر زیادہ تر غلبہ نوآبادیاتی نظام کا تھا‘ جس نے ہمیں بھی تقریباً ستر سال سے جکڑ رکھا تھا۔ محکوم کی دولت‘ وسائل‘ امدادی قوت اور معاشرتی توانائیوں سے ہر ایک یورپی سامراجی ملک نے اپنی خوشحالی اور بین الاقوامی وقار میں بے پناہ اضافہ کیا۔ لندن‘ پیرس اور دیگر بڑے شہروں کی بنیادیں ایشیا اور افریقہ کے عوام کے خون پسینے سے خالی نہیں۔ سامراجی لوٹ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مستند ہے۔ اکثر ہمارا دھیان اداروں‘ عمارتوں‘ قانون اور اس دور کی ترقی پر رہتا ہے کہ کچھ سامنے ہے‘ مگر جو ان کی راہ یہاں روکتے رہے‘ لڑتے مرتے آزادی کے چراغ روشن کرتے رہے‘ وہ تو اس خطے کی زمین کے کونے کونے میں تہِ خاک ہیں۔ دولت جو یہاں سے مغربی ممالک کو منتقل ہوئی‘ اس کے حساب کتاب اور جانکاری کے لیے عمریں درکار ہیں۔ ردِ عمل قومیت پرستی کی صورت میں ہوا‘ مگر قومیت پرستی کا زور نئی ابھرتی مغربی طاقتوں کے علاوہ جاپان میں بھی تھا۔ یہ سب اسی جرم کے ارتکاب میں فوجی سازوسامان اکٹھا کر رہے تھے‘ جو برطانیہ‘ فرانس‘ پرتگال اور ہالینڈ کر چکے تھے۔ ہمارے ملکوں میں قومی نظریہ کسی دوسرے کا ملک ہتھیانے کے لیے‘ اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے تھا۔ آج بھی قومیت پرستی عالمیت کے زمانے میں نئے اطوار میں موجود ہے۔ 'سب سے پہلے ہمارا ملک‘ کا نعرہ ہر ملک کی قیادت کبھی بلند اورکبھی دھیمے لگاتی رہتی ہے۔ حقیقتاً یہ فکری ہتھیار ہم نے مغربی ریاستوں اور قوموں کی تشکیل کی تاریخ پڑھ کر حاصل کیا تھا۔ ہمارے علاقوں کے نوجوان مغربی جامعات میں پڑھ کر لوٹے تو آزادی کا جھنڈا لہرانا شروع کردیا۔
ایک زبردست فلسفہ اور نظریہ کارل مارکس انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں متعارف کرا چکے تھے۔ ان کی ''داس کیپیٹل‘‘ 1867 میں شائع ہوئی تو مغرب کی فکری زندگی میں بھونچال سا آگیا۔ یہ کلاسک سرمایہ داری نظام کے بخیے ادھیڑتا ہے۔ سرمایہ کیوں اورکیسے اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر استوار ریاست کی پشت پر وہ کیسے کام کرتا ہے۔ اس فلسفے کو چند فقروں میں تو بیان نہیں کیا جا سکتا‘ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ ریاست اتنی خود مختار نہیں‘ بلکہ سرمایہ دار کی محتاج ہے۔ کیا کیا اور کہاں کہاں تحریکیں چلیں‘ بالشویک انقلاب روس میں 1917 میں آیا۔ چین سرخ ہوا‘ اور پھر یہی پھیلتی ہوئی سرخی اور اس کے مقابلے میں بچائو بند کی امریکی پالیسی سرد جنگ کی وجہ بنی‘ لیکن دو بڑی جنگوں کے درمیان فسطائیت اور جرمن نسل پرستی بھی عروج پر پہنچی اور اس نے توسیع پسندی اور فوجی جارحیت کا خطرناک راستہ اختیار کر لیا۔ جو اس کا انجام ہوا‘ وہ تو ہوا‘ مگر دنیا میں جو عالمی جنگ میں تباہی پھیلائی‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔
گزشتہ صدی میں دو نظریے غالب رہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور اس کے مقابلے میں اشتراکی انقلابی سوچ یا ''ترقی پسندی‘‘ جو ادب‘ سیاست اور سماجی تحریکوں پر گہری چھاپ چھوڑ گئی۔ سرد جنگ نے سابق سوویت یونین اور امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کو تو ٹھنڈا رکھا‘ مگر ہمارے تمام ترقی پذیر ملکوں میں فکری اور فوجی پراکسی جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ ہم نے بھی ''ایشیا سرخ ہے‘‘ اور ''ایشیا سبز ہے‘‘ کے نعروں میں تب جامعات میں ان نظریات اور فلسفوں سے کچھ تعاون حاصل کیا۔ اشتراکیت نے روس اور چین میں پرانے نظام کو ختم تو کیا‘ مگر نئے نظام میں عوامیت کی وہ روح نہ پھونک سکے‘ جو اس نظریے کا تقاضا تھا۔ سارا زور ''انقلاب کے دشمنوں‘‘ پر لگا رہا۔ تعمیروترقی روس میں بہت ہوئی‘ مگر وہ ولولہ اور جذبہ جاری نہ رہ سکا۔ پیداوار گرنے لگی‘ معیارِ زندگی برقرار نہ رہ سکا اور آزادیوں کے دور میں جبرنے آہستہ آہستہ اشتراکیت کی ہوا نکال دی۔ عوام کی طاقت اور تائید شامل نہ ہو تو کوئی بھی نظام زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ اس زاویہ نگاہ کا تعلق لبرل ازم یا مغربی آزاد روی سے تھا۔ سوویت یونین آخر ٹوٹ گئی‘ طالب علمی کے زمانے میں ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔ کیا تماشا تھا اور مغرب میں فتح کے کیا کیا جشن منائے گئے تھے۔ جاپانی نژاد امریکی پروفیسر فوکویاما تو خوشی کے جذبات میں آپے سے باہر ہو گئے۔ اعلان کیا کہ اب سب نظریات زمین میں دفن ہو چکے ہیں۔ لبرل ازم ہی انسانی تاریخ کا آخری اور سچا نظریہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ مارکس کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی ساری تاریخ نظریات کی کشمکش کی تاریخ ہے‘ جو بھی نظریات لبرل ازم کے خلاف ابھرے تھے‘ شکست کھا چکے ہیں۔
ہمارے ملکوں میں بھی لبرل ازم نے جمہوریت‘ سرمایہ داری اور آزادیوں کا سنہری لبادہ اوڑھے اپنی پذیرائی میں اضافہ کیا ہے۔ اقتصادیات کے شعبے میں دنیا میں اب سکہ سرمایہ داری نظام کا چلتا ہے‘ مگر جمہوریت کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ ہیں اور اس کا سحر ایسا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اپنے آپ کو غیرجمہوری کہلوانا نہیں پسند کرتا۔
جامعات میں‘ چاہے وہ مغربی دنیا کی ہوں یا ہماری‘ روایت یہ ہے کہ جب کوئی نئی بات نظام‘ فلسفے اور نظریے کے حوالے سے ہوتی ہے تو اس پر گفتگو اور تنقید و تنقیص کا طوفان اٹھتا ہے‘ کہیں زیادہ کہیں کم۔ یہ بالکل احمقانہ اورسطحی چیز لگتی ہے کہ نئے افکار کے سوتے کبھی نہیں پھوٹیں گے۔ یہ کہنا ایسا ہی ہے کہ کل صبح طلوع نہیں ہوگی‘ اور اس میں بھی کوئی وزن نہیں کہ نظریات اور افکار زندہ نہیں رہتے۔ ہم یونان سے لے کر آج تک کے فلسفوں کو اس لیے نہیں پڑھتے کہ ان کے مطابق ہم نے کوئی نئی دنیا آباد کرنی ہے بلکہ اس لیے کہ معاشرت‘ سیاست اور معیشت کے تاریخی دھاروں اور انسانی تہذیب کے ارتقا کے مراحل کا احاطہ کئے بغیر آج کی دنیا کو نہیں سمجھ سکتے۔ پُرانے نظریوں اور افکار سے ہی نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب نظریات نے اپنے رنگ بدلے۔ انیسویں صدی کا لبرل ازم آج کے دور میں قدامت پسندوں اور رجعت پسندوں کا نظریہ ہے‘ اور اشتراکیت نے کئی ممالک میں فلاحی ریاست کا روپ دھارے رکھا ہے۔
ماضی کی نسبت موجودہ دور میں نظریاتی تنوع کہیں زیادہ ہے اور ان کا بنیادی فلسفہ انسانی آزادیاں ہے‘ جو لبرل ازم کی بنیاد بھی ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کو حقوقِ نسواں‘ عورت کی آزادی‘ صنفی اور نسلی تفریق کے خلاف تحریکیں اور شناختی سماجی سیاست‘ لبرل ازم سے جڑے نظر آتے ہیں۔ مساوات اور آزادی بلحاظِ رنگ و نسل‘ عقیدہ اور قومیت کے فلسفے نے ہر نوع کیلئے فکری زاویوں کو اجاگر کیا ہے‘ جن میں جدید لبرل ازم بھی شامل ہے۔ زیادہ متحرک اور پُرجوش آزادیٔ نسواں اور نسلی تفاوت کا خاتمہ ہیں‘ مگر عالمی حدت میں اضافے اور فضائی کثافت کے پھیلائو نے تقریباً نصف صدی سے ماحولیاتی پاکیزگی کی بحالی کے لیے اہلِ فکر و نظر کو سرگرم کر رکھا ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا کہ دنیا کے مقتدر طبقات کو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کے گناہِ کبیرہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے بلکہ سب ریاستوں کو ایک لائحہ عمل پر متفق کیا جائے۔ بہت کچھ ہونا ابھی باقی ہے۔ سب نظریات ہر دور کے حالات کی پیداوار ہیں‘ وقت گزر بھی جائے تو وہ مرتے نہیں۔ میرے نزدیک نظریے اور افکار حتمی نہیں۔ ان کی سند اور بقا کا انحصار ان کے ماننے اور ان کے ساتھ زندہ رہنے والوں سے ہے۔