نظریۂ سازش سیاست کے طالب علموں کے لیے کوئی مفروضہ نہیں‘ ایک سماجی حقیقت ہے۔ ہمارے جیسے کئی ممالک میں سیاسی حالات و واقعات‘ قومی اور عالمی امور‘ امن سمجھوتے‘ جنگیں اور حکومتوں کا بدلنا ایک سازش کا نتیجہ تصور کئے جاتے ہیں۔ جب عمران خان صاحب‘ سابق وزیر اعظم‘ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک حسبِ ضابطہ ایوان میں لائی گئی‘ اتحادیوں نے ساتھ چھوڑنا شروع کیا اور اپنی ہی جماعت کے کچھ اراکین منحرف ہونے کا اعلان برملا کرنے لگے‘ تو مداخلت اور سازش کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اب تو ایسا طوفان اٹھا ہوا ہے کہ ہر طرف صرف ایک ہی سیاسی آواز کی گونج سنائی دیتی ہے‘ ''سازش‘‘۔ ماحول بھی ایسا بنتا نظرآ رہا ہے کہ کسی سے اس موضوع پر بحث تو دور کی بات‘ خالصتاً علمی مکالمہ بھی اپنے لیے خواہ مخواہ کی مصیبت پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ ویسے ہم سیاسی گفتگو کے بارے میں لاہور اور راولپنڈی کی بہت پُرانی کھانے پینے کی جگہوں والا فارمولا استعمال کرتے ہیں۔ اب شاید ایسا نہ ہوتا ہو‘ لیکن ہم جس زمانے میں آوارہ گردی کے ابتدائی گُر سیکھ رہے تھے‘ اور گھر سے باہر عام جگہوں پر دوستوں کے ساتھ وقت گزاری ہوا کرتی تھی‘ تو اندر کی دیوار پر اور لال اور کہیں کالی سیاہی سے نمایاں طور پر لکھا ہوتا تھا ''یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔ آپ میں سے جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اب ضرورت سے زیادہ سیاسی بن چکا ہے‘ وہ یہ خیال دل سے نکال کر دور کہیں صحرا میں پھینک آئیں۔ پچاس سال قبل بھی ہر جگہ گرما گرم سیاسی گفتگو ہوتی تھی‘ اور نوبت لڑائی جھگڑے کی آ جاتی۔ ہوٹلوں والے کراکری اور اپنی جانوں کے تحفظ کے پیشِ نظر سیاسی گفتگو کو اپنی چار دیواری کے اندر مداخلت نہیں کرنے دیتے تھے۔ ہمارا بھی یہی اصول ہے‘ مگر چونکہ ہم سیاست کے ''غیر سیاسی‘‘ تماش بینوں میں سے ہیں‘ اس لیے کم از کم نظریۂ سازش کے بارے میں کچھ گفتگو کرنے کا خطرہ مول لے ہی لیتے ہیں۔
یہ آج سے تقریباً تیس سال پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک امریکی دوست‘ جو افغانستان اور پاکستان کی سیاست کے بارے میں ساری عمر لکھتے رہے ‘ اور ابھی تک ایسا ہی کر رہے ہیں‘ پوچھنے لگے کہ پاکستان میں عام طور پر لوگ سیاست بلکہ ہر چیز کو سازش کے نقطۂ نظر سے کیوں دیکھتے ہیں؟ جو سمجھ میں آیا انہیں بتا دیا۔ مارون وائن بام میرے اس ساتھی کا نام ہے۔ انہیں خفیہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے نظریۂ سازش پر ایک تحقیقی مجلے میں اپنا مضمون شائع کرایا۔ ایک بات تو طے ہے کہ آپ اپنے ملک کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں‘ جس شہر یا گائوں میں بیٹھک لگائیں‘ تو گفتگو سے آپ جتنا بھی بچنا چاہیں‘ سیاست اور حالاتِ حاضرہ کو چھوئے بغیر رہ نہیں سکتی‘ بے شک آپ منع کرنے کی تختی جلی حروف میں دیوار پر لگا کر بھی رکھیں۔ دوسرے یہ کہ ہر بات میں سازش کا پہلو نہ نکلے تو گفتگو میں چاشنی رہتی ہی نہیں۔ ہمارا تو روزمرہ کا معاملہ ہے‘ جہاں جائیں‘ سازش کی بات سننا پڑتی ہے‘ اور نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اب یہ لفظ ہمارے دماغ اور حافظے کی زمین میں جذب ہو چکا ہے۔ میری ان سے طویل گفتگو اور ان کے مضمون میں نظریۂ سازش کے تجزیے کے خدوخال ابھی تک واضح ہیں کہ اکثر اپنے درس و تدریس میں اسی نوعیت کے موضوع پر سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے۔ 'سیاست کیونکر ہمارا پسندیدہ اور ہردلعزیز سماجی موضوع ہے‘ اس وقت میں اس موضوع پر بات نہیںکرنا چاہتا‘ پھر کبھی سہی۔ نظریۂ سازش کیوں ہمارے افکار و خیالات اور ذہنوں پہ مستقل طور پر سوار رہتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا حتمی جواب تو میرے پاس موجود نہیں‘ مگر جو سمجھ میں آتا ہے‘ وہ عرض کر دیتا ہوں۔ ہم سنی سنائی باتوں پر توجہ رکھتے ہیں‘ اپنے طور پر کھوج لگانے کی نہ تربیت ہے‘ نہ تعلیم اور نہ ہی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کرنے کی صلاحیت اور وقت ہمارے پاس ہے۔ بیٹھکوں میں اور تھڑوں پر جو 'عالم و فاضل‘ لوگ باتیں کرتے ہیں‘ ہم ان سے اثر لینے کے عادی ہیں۔ موجودہ دور میں اب ''آزاد‘‘ میڈیا نے انہی روایات کو جاری رکھا ہوا ہے۔ فرق صرف سکرین اور وہاں پر موجود ماہرین کا ہے‘ جن کی کوئی کمی نہیں۔ جتنا کوئی معتبر ہے اور جتنا کوئی ہمارے دل کی بات کرتا ہے‘ اتنا ہی ہم اس کو سننا‘ دیکھنا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی پسند‘ ناپسند میں ''زمیں جنبد‘ آسماں جنبد‘ نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق اپنی پوزیشن سے ایک انچ پیچھے ہونے والے نہیں۔ اسی لیے تو معاشرے میں سیاسی تقسیم پُرانی بھی ہے‘ بڑھی ہے اور اب اس میں آگ جیسی تپش بھی محسوس ہوتی ہے۔
ویسے تو ہر معاشرے میں نظریہ سازش کسی نہ کسی صورت میں لوگوں کو مسحور رکھتا ہے‘ مگر ہمارے جیسے سماج میں اس کے لیے زمین زیادہ ہموار رہی ہے اور اب تو زرخیزی میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حقائق روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے عیاں بھی ہوں تو ہم ماننے والے نہیں۔ سماجی اور سیاسی حرکیات‘ ان کے تجزیے اورادراک کی زحمت ہمیں گوارا نہیں۔ ہم ہمیشہ خفیہ ہاتھوں کو تلاش کرتے ہیں‘ نہ بھی ملیں‘ تب بھی یقین سے کہیں گے: بالکل جو کچھ ہوا‘ یا نہیں ہوا‘ اس کے پس منظر میں کوئی طاقت یا طاقتیں ملوث ضرور ہیں۔ ایسی سوچ ماضی کے نوآبادیاتی ممالک میں پُرانے وقتوں سے پروان چڑھی ہے۔ لوگ دنیا میں طاقت کے توازن میں تبدیلی اور سامراجیت کو‘ اور اپنی اپنی سلطنتوں کے خاتمے کو سازش قرار دیتے رہے۔ ضروری تھا‘ اور اب بھی لازم ہے کہ طاقت کسی ملک اور افراد کے گروہوں‘ یا اداروں میں مرکوز ہو جائے تو اس سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے پھر جو کچھ سامنے دکھائی دیتا ہے‘ اور جو حقیقتیں پیدا کی جاتی رہی ہیں‘ تو ایک لحاظ سے لوگوں کے ذہن کا سازش کی طرف جانا فطری بات ہے۔ نوآبادیاتی نظاموں سے لے کر مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم اور ہمارے ہاں کی سیاسی تاریخ کے کئی بحرانوں تک آپ ''سازش‘‘ کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس کی بڑی وجہ ہماری بندوبستی جمہوریت ہے۔ یہ نہ عوامی تھی اور نہ ابھی ہے۔ کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں‘ فیصلے بند کمروں میں چند لوگ کرتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کہاں‘ اندر یا باہر۔ قومی مزاج تو پھر ایسا بننا ہی تھا۔
یاد ہے‘ بھٹو صاحب نے کیسے بھارت کے ساتھ تاشقند معاہدے کو ''سازش‘‘ قرار دے کر پنجاب میں زبردست مقبولیت حاصل کی تھی۔ وہ خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘ صدر اور وزیر اعظم رہے‘ مگر وہ مشہور بلی ان کے تھیلے سے باہر نہ آئی۔ ہوتی تو آتی۔ اب عمران خان صاحب نے ''سازش‘‘ کا ایسا طوفان برپا کر دیا ہے کہ ان کے حامی کوئی دوسری بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے عوام‘ ہمارا ذہن اور ہماری سیاسی ثقافت تو نہ جانے کب سے نظریہ سازش کی اسیر ہے‘ خان کیوں نہ اپنی سیاست اس سکۂ رائج الوقت کی طاقت سے چمکائیں گے۔ درویش کی کہاں جرأت کہ یہ کہہ سکے کہ آپ کی تبدیلی کے محرکات ملک کے اندر حکمران ٹولوں کی مفاد پرستانہ سیاست اور ان سے بوقتِ ضرورت اور حسبِ منشا کام لینے والوں سے منسلک ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ ان کے بھی اوپر کچھ ہوں اور سرپرستیاں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہوں۔ ہم ایسی باتوں کو چھیڑ کر رسک لینے کے عادی نہیں۔ اب تو بات 'آزادی‘ کی ہو رہی ہے۔ دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔