"RBC" (space) message & send to 7575

شہر وہ نہیں رہے

بزرگی کے درجے پر تو ہم کبھی نہیں پہنچیں گے مگر اس حصے میں آہستہ آہستہ داخل ہورہے ہیں جب لوگ خواہ مخواہ ایسے القاب سے نواز دیتے ہیں۔ ہم خوش تو ہوتے ہیں لیکن خیال فوراً گزرے دنوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس میں کھوجانے کا بھی ایک اپنا ہی مزہ ہے‘ بس عمر رسیدہ افراد سے پوچھ کر دیکھیں۔ ہم ان میں سے نہیں مگر بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ زندگی کے وہ ایا م جو کالج کی تعلیم سے شروع ہوکر نوکری اور ریٹائرمنٹ کے مراحل سے گزرنے تھے‘ گزار دیے۔ ڈیرہ غازی خان میں چار سال گزارے۔ نہایت ہی صاف ستھرا اور منصوبہ بندی سے بنا ہوا شہر تھا۔پرانے شہر کو دریائے سندھ کھا گیا تو انگریزوں نے موجودہ جگہ پر عین لائل پور کے نقشے پر تعمیر کیا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس شہر کے درمیان میں ٹائون ہال تھا‘ نہایت ہی خوبصورت‘ بالکل کسی بنگلے کی مانند۔ اس سے پانچ کشادہ بازار نکلتے تھے۔ پھر کچھ فاصلے پر ایک گول چوک تھا جس سے تین چار مزید سڑکیں نکالی گئی تھیں۔ شہر بلاکوں میں تقسیم تھا۔ پانی کا اچھا انتظام تھا۔ سول لائنزکا علاقہ جو انگریز نوکر شاہی کے دور میں تعمیر ہوا تھا انتہائی خوبصورت‘ باغوں جیسا علاقہ تھا۔ ہم سالانہ امتحان کی تیاری کے لیے ان باغات کی طرف نکل جاتے۔ دن بھر درختوں کے سائے میں کتابیں پڑھتے‘ مضامین لکھتے اور شام ڈھلتے واپس کالج آ جاتے۔ شہر کے آخری کنارے پر کمپنی باغ تھا۔پنجاب کے تقریباً ہر شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز صاحب بہادروں کے لیے بنائے گئے یہ باغات بہت وسیع اور خوبصورت تھے۔ وہاں پھولوں کی رنگت اور موتیے کی مہک نصف صدی کے بعد بھی سوچ کی وادی کو معطر کردیتی ہے۔
جب انگریزی کالم لکھتے تھے تو ''ایک شہر کی موت‘‘ کے عنوان سے اس شہر کی نوحہ خوانی کی تھی۔ دن کا ایک حصہ شہر کی گلیوں‘ سڑکوں اور بازاروں میں گھومتا رہا۔ جب کمپنی باغ کی طرف گیا تو لاری اڈے کا منظر سامنے تھا۔ایک دو مرتبہ اس کے بعد بھی گیا مگر ہر مرتبہ مایوسی‘ بے بسی اور افسر دگی بڑھتی گئی۔ شاید غلطی کی تھی‘نہیں جانا چاہیے تھا۔ کم از کم احساسِ زیاں کے گھائو سے تو محفوظ رہتا۔ ٹائون ہال کے ارد گرد کئی عشرے پہلے دکانیں بنا دی گئی تھیں تاکہ ضلعی حکومت کو کرائے کی مد میں آمدنی حاصل ہوتی رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان پر حسب ِدستور قبضہ ہوچکا ہو۔ قیاس یہ بھی ہے کہ جیسے اس ملک میں سب چلتا ہے‘ صاحبِ اقتدار لوگوں نے کچھ لے دے کر ''منصفانہ پالیسی‘‘ کے تحت الاٹ کر دی ہوں۔ ویسے بھی مقامی حکومت کی ایسی جائیداد ہتھیانا کوئی مشکل کام نہیں۔ سیاسی کاریگر راستہ نکال لیتے ہیں۔ آج اگر ڈیرہ غازی خان کے عین وسط میں اس پیلے رنگ کے ٹائون ہال کو تلاش کریں تو ہوسکتا ہے کہ ان دکانوں کے پیچھے کہیں چھپ کر رہ گیا ہو۔ شہر کے عمارتی ورثے کے ساتھ کیا یہ سلوک ہونا چاہیے تھا؟ اسے غالباًکمپنی ہال بھی کہتے تھے۔ اس کی طرزِ تعمیر ایسی تھی جو انگزیر حکومت نے یہاں کے گرم موسم کی مناسبت سے موزوں سمجھ کر اپنائی تھی‘ یعنی برآمدوں کے درمیان بڑا سا ہال۔ برطانوی دور کے ہر سرکاری بنگلے کی تعمیر میں یہی انداز دکھائی دیتا ہے۔ کچھ لوگوں سے استفسار کیا کہ آخر یہ کس کا فیصلہ تھا کہ ٹائون ہال کے گرد بازار بنا دیا جائے ؟ سب کے اشارے یہاں کے موروثی سیاسی گھرانوں کی طرف تھے کہ ضلعی ناظم بھی وہی بنتے تھے۔ سیاسی اثرورسوخ بھی ہمیشہ انہی کا رہا تھااور ان کی تائید اور ایما کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ اگر نوکر شاہی کی کارستانی ہوتی تو وہ اسے روک سکتے تھے۔
بازاروں‘ سڑکوں اور چوراہوں کو دیکھا‘جہاں سیاسی جلسے منعقد ہوا کرتے تھے اور جن میں شرکت کا ہمارا ریکارڈ آج تک قائم ہے۔ اب وہ تمام مقامات سمٹ چکے ہیں۔ دکانداروں اور عام شہریوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والا مقابلہ آج بھی دیہات اور شہر میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہر آدمی اپنی دیوار آگے کی طرف بڑھاتا رہتا ہے‘ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ اس کے نتیجے میں بازار اور گلیاں اتنی تنگ ہوچکی ہیں کہ اگر گاڑی جابھی سکے تو صرف یک طرفہ۔ ڈیرہ غازی خان کے بازار اور سڑکیں تو انتہائی وسیع تھیں اب جائیں تو پہچان نہیں سکتے۔ ہمارے شہروں میں مقامیت ہے۔ شہریت دعووں کے برعکس کمزور ہے۔ یعنی ہم رہتے تو اکٹھے محلوں میں ہیں مگر مشترکہ جگہوں کی حفاظت‘ صفائی اور ان پر قبضے کے بارے میں اجتماعی عمل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اس کا ایک پہلو قبائلی سماج بھی ہے۔ اگر آپ کسی ایک شخص کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کریں تو اس کی تمام ذات برادری اکٹھی ہوجاتی ہے۔ اس کی ذمہ داری تو ہماری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے مگر جس طرح حکمرانی میں زوال آیا ہے حریص طبقات زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں۔ ایسے تو چلتے پھرتے نہیں کہتے کہ پاکستان میں سب چلتا ہے۔ اپنی سیاست کی طرف تھوڑادھیان کرکے دیکھ لیں‘ نوکر شاہی اور دیگر اہم ریاستی اداروں کے چال چلن کا کوئی راز اگر رہ گیا ہے تو آپ پر کھل جائے گا۔
باغات‘ جنگلات اور درخت نہ ہوں تو آسودہ انسانی زندگی کا تصور ہی کیا رہ جاتا ہے ؟ دن کی تپش ہو توپرانے زمانوں میں درختوں کے گھنے سایوں تلے عافیت مل جاتی تھی۔ ہم درویشوں کی آنکھ ایسے ہی ماحول میں کھلی تھی۔ ہم پہلی جماعتوں میں مضمون لکھتے تو صرف دو ہی عنوان ہوتے : کھتی باڑی اور باغ کی سیر۔ ہمارا محدود سا مشاہدہ ان کا ہی احاطہ کر سکتا تھا۔ کمپنی باغ کی بھی کبھی کبھار سیر کرتے۔ شام کے وقت وہاں ہاکی‘فٹ بال اور والی بال کے میچ ہوا کرتے تھے۔ اب وہاں دکانوں کی طویل قطار نظر آتی ہے۔ پہلے جوسڑک تھی‘ اب بازار کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ تھوڑا آگے بسوں کا اڈا ہے۔ پیدل چلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر طرف گردو غبار اور اُڑتے ہوئے پلاسٹک کے لفافوں کے درمیان کہیں کوئی درخت تلاش کرنے کی کوشش کریں تو شاید کہیں دور دکھائی دے جائے اور اس پر کسی کوے کی آواز بھی سنائی دے۔ باغ کے اندر فائر بریگیڈ کی عمارت اور گاڑیاں ہیں۔ ایک عدد کمیونٹی سکول بھی ہے اور ایک حصے پر کوڑا کرکٹ کے انبار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اب حالات بہتر ہوں مگر اب جانے کو جی نہیں کرتا۔ ایک مرتبہ پھر اس تجربے کی اذیت سے گزرنے کی ہمت نہیں۔
یہ کہانی کسی ایک شہر کی نہیں‘ سب ضلعی شہروں کی ہے۔ بڑے شہروں کا بھی یہی حال ہے۔ آبادی کا پھیلائو اس کا ذمہ دار ہوسکتا ہے مگر اچھی منصوبہ بندی‘ قانون کی حکمرانی اور شہروں کے ورثے کی حفاظت تو ممکن تھی۔ بے قاعدگیوں کو روکنا حکومت کی ذمہ داری تو ہے مگر اسے اپنی عملداری کے لیے فعال شہریت اور اجتماعیت درکار ہے۔ یہ دونوں ہمارے معاشرے میں بھاپ بن کر تحلیل ہوچکی ہیں۔ شہر اور شہری کمزور ہوتے گئے ہیں۔ سیاسی رہنما‘ نوکر شاہی اور ان کے کارندے شہروں کو تباہ کرنے کے زیادہ ذمہ دارہیں۔ بے ہنگم پھیلائو کوئی ایسے تو نہیں ہوا۔ زرعی زمینوں پر شہروں کو پھیلانے کے لیے پالیسیاں بنائی جارہی ہیں اور اس کے لیے قانونی راستے نکالے جارہے ہیں۔ آپ اس کا مشاہدہ کسی بھی شہر میں جا کرسکتے ہیں۔ مغرب میں صدیوں پہلے بنائے ہوئے شہراپنی شناخت‘ تاریخی ورثے اور مخصوص طرزتعمیر کی حفاظت کرتے چلے آرہے ہیں اور یہاں ہم سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں