کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ کپتان نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ اگر وہ میدانِ سیاست میں ایسے ہی گرجتے چمکتے رہے تو نظام تباہ ہو جائے گا۔ سب کو معلوم ہے کہ نظام کون سا ہے‘ کون اسے چلاتا ہے اور اس کی فیوض و برکات کن طبقات کے حصے میں آتی ہیں۔ کوئی بھی ملک نظام کے بغیر نہیں چلتا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ نظام وہی معتبر ہوتا ہے جو غالب طبقات کو راس آئے‘ ان کی سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی حیثیت کو برقرار اور مستحکم رکھے۔ ہر مروجہ نظام‘ ہر ملک میں کچھ حلقوں کی ضروریات اور مفادات کے تابع ہوتا ہے اور وہ اسے ایسے ہی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان کے حق میں ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دو قسم کے نظام ہیں۔ ایک وہ جو تاریخی‘ سماجی‘ ثقافتی اور نظریاتی طور پر عوامی امنگوں سے ترتیب پاتے ہیں لیکن ان جمہوری نظاموں میں بھی معاشی طاقت سرمایہ داروں کے ہاتھوں مرکوز رہتی ہے۔ صرف وہ اپنا ہاتھ ڈھیلا رکھتے ہیں تاکہ دیگر طبقات مطمئن رہیں‘ انہیں بھی اپنا صلہ ملتا رہے تاکہ ان کے دلوں اور ذہنوں میں نظام کے جائز ہونے کا تاثر قائم رہے اور وہ بغاوت پر نہ اتر آئیں۔ تمام مغربی نظام تقریباً ایسے ہی ہیں۔ اقتدار کی جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ معاملہ عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے اور وہ اپنا فیصلہ دیتے ہیں۔ نئی قیادت ابھر کر آتی ہے۔ نظام خود کو تازہ رکھتا ہے کیونکہ اس پر سیاسی کھلاڑیوں کا اتفاق ہے اور عوام اس نظام کے سہارے اپنے مطالبات منوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ موروثیت‘ جمود اور مافیاز نہ ہوں تو نظام کو کسی سے خطرہ نہیں ہوتا۔ تاریخ اور وقت کے دھارے کے ساتھ یہ ترقی‘ تبدیلی اور اصلاح کی صورت اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس لیے بحران پیدا نہیں ہوتے‘ سیاسی لڑائیاں معمول نہیں بنتیں‘ نظریاتی اور سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں نہیں بدلتے۔ عوامی تائید اور حمایت سے نئی قیادت ابھرتی ہے۔ وہ جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھیں‘ دوسروں کو راستہ دے کر اپنی دنیا میں بس جاتے ہیں۔ ایسی روایتیں پختہ ہوں تو معاشروں پر زوال نہیں آتے‘ خانہ جنگیاں نہیں ہوتیں۔
دوسری نوعیت کے نظاموں میں وہ کچھ ہوتا ہے جو آپ آج کل مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ کہنے کو جی تو نہیں چاہتا کہ یہ کون سا نظام ہے۔ اسے نام دے بھی دیں تو نام میں کیا رکھا ہے۔ اتنا کہہ دیتا ہوں کہ یہ جو بھی ہے‘ خطرے میں ضرور ہے کہ اس کی مدتِ میعادختم ہوچکی ہے ۔ اشارے کے طور پر ہم زرعی شعبے کی مثال پیش کرتے ہیں کہ اس شعبے سے دلی لگائو ہے۔ آج کل بیج خریدنے جائیں تو لوگ ہائبرڈ بیج کی بات کرتے ہیں۔ ہم جو دیسی ٹھہرے‘ گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں اصلی‘ دیسی بیج درکار ہے کیونکہ اس کا ہماری زمین‘ موسم اور ہمارے زرعی تجربے سے تعلق ہے۔ اپنی مثال ہم نے کیا دینی ہے۔ نام لینے کو بھی جی نہیں چاہتا۔
سوڈان کی بات کرتے ہیں جہاں گزشتہ کچھ روز سے دو جرنیلوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ عارضی فائر بندی تو ممکن ہوئی ہے مگر اقتدار کی جنگ ڈھائی سو سے زائد انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل کرگئی۔ ہزاروں زخمی ہسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں۔ سوڈان میں عوامی جمہوری تحریک جنرل بشیر کے تیس سالہ دور کے خلاف چلی تو نظام خطرے میں پڑ گیا۔ فوج کے جرنیل نے نظام کو بچانے کیلئے اقتدار پر قبضہ کر لیا مگر حالات کا جبر ایک عسکری دھڑے کے جرنیل کو بھی کشمکش میں کھینچ لایا۔ اگلے روز ایک غیرملکی ٹی وی چینل پر غلام رشید غنوشی کو تیونس میں گرفتار ہوتے دیکھا تو مسلمان اکثریتی ممالک کے بارے میں جو پریشانی رہتی ہے‘ وہ رنج و الم کے گہرے سایوں میں تبدیل ہو گئی۔ رشید غنوشی اس وقت عالم اسلام کے اعلیٰ اور معتبر ترین مفکرین میں صفِ اول کے مجتہد ہیں۔ ان کے افکار اور تصانیف سے ایک عرصہ سے استفادہ کرتا رہتا ہوں۔ ''اسلام‘ نظریات اور سیاست‘‘ پر ایک عرصہ پہلے ایک کورس ترتیب دیا تھا جو کئی بار پیش کر چکا ہوں۔ بنیادی تعارف تو ان سے تب ہوا تھا جب بہارِ عرب کی تحریک تیونس سے شروع ہوئی اور فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا گیا تو امیر جماعت اسلامی‘ قاضی حسین احمد مرحوم نے رشید غنوشی صاحب کے ساتھ ایک مذاکرے کے لیے وڈیو لنک کا انتظام کیا تو درویش کو بھی ان کی براہِ راست باتیں سننے کی سعادت نصیب ہو گئی۔ وہ نئے انقلاب اور نئے جذبوں کے نمائندہ ہیں۔ ان کی جماعت ایک مدت کے دوران اقتدار میں رہی‘ اگلے انتخابات میں ہار مان لی‘ نئے لوگ آگئے مگر اس جمہوری عمل سے گلے سڑے نظام کے نگران خوش نہیں تھے۔ وہاں بھی بحران پیدا کیا گیا اور نظام کے ایک پرانے پرزے کو عہدۂ صدارت پر بٹھا دیا گیا۔ نظام کو جو خطرہ تھا فی الحال وہاں ٹل گیا ہے۔ اس کو سہارا دینے اور برقرار رکھنے والی طاقتیں اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کے خلاف مقدمات کی بھرمار کررہی ہیں۔ تیونس میں نظام کو سب سے بڑا خطرہ رشید غنوشی کی اسلامی‘ عوامی تحریک سے ہے جو تیونس اور دیگر اسلامی ممالک کو دورِ جدید کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی فکر رکھتی ہے اور وہ نظام کو عوامی امنگوں کے مطابق ڈھال کر استحصالی‘ موروثی مافیاز سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔
بہارِ عرب کے سب سے گہرے اثرات مصر میں تھے کیونکہ وہاں دورِ جدید کے فرعونوں کی طاقت کے سامنے کھڑا ہونا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ اور یہ ہمت تنظیمی‘ اخلاقی اور عوامی لحاظ سے اخوان المسلمین کے پاس تھی۔ کوئی بے شک ان کے نظریات سے لاکھ اختلاف کرے‘ ان کی جدوجہد تاریخی ہے۔ خدمتِ خلق کے جذبے سے انہوں نے عوام میں جڑیں بنا رکھی ہیں۔ جب حسنی مبارک کو تخت سے اتارنا ناگزیر ہوگیا اور انتخابات ہوئے تو اخوان نے واضح اکثریت حاصل کر لی۔ ایک سال کے اندر نظام چلانے والوں نے شب خون مارا اور منتخب صدر سمیت ہزاروں سیاسی رہنمائوں کو قید میں ڈال دیا۔ صدر مرسی جیل ہی میں وفات پا گئے۔ اب وہی نظام‘ وہی نگران اور مہربان دھڑلے سے چلا رہے ہیں۔ اخوان کو رخصت کرنے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ بااثر عرب ممالک کا بھی ہاتھ تھا کیونکہ بہارِ عرب کی گھنٹیاں دور دور تک سنائی دینے لگی تھیں۔ فی الحال تو نظام کو لاحق خطرہ دور ہوگیا ہے مگر آخر کب تک یہ فرسودہ فرمائشی گماشتوں سے چلائی جانے والی سیاست اپنا وجود قائم رکھ سکے گی۔
ترکی کی ''انصاف اور ترقی‘‘ جماعت کے صدر اردوان کی جدوجہد نے اپنی تاریخ مرتب کی ہے۔ یہ جمہوری انقلاب وہاں آیا جہاں سیکولرازم کے نام پر ایک بڑی طاقت کچھ بھی کر سکتی تھی۔ وہاں بھی ایک وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھا اور نہ جانے کتنی بار نظام کو بچانے کے لیے درباری سامنے لائے گئے۔ آخری بار کوشش کی گئی تو عوام نے جس جوانمردی سے مقابلہ کیا‘ اس کی مثال اس خطے میں نہیں ملتی۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ فرسودہ نظاموں نے بالآخر ڈھے جانا ہے اور انہوں نے بھی جو ان کے گماشتے بنتے ہیں۔ یہ کب ہوگا‘ کس ملک میں پہلے ہوگا‘ یہ بات یقینی طور پر نہیں بتائی جا سکتی۔ ہمارے ہاں واقعی نظام کو اس وقت عمران خان سے خطرہ ہے۔ وہ نظام جو اس ملک کی معیشت‘ عوامی امنگوں اور پاکستان کے خواب کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا خان بھی اس نظام کا حصہ بن جائیں گے یا جو آزادی کا اعلان کر رکھا ہے‘ اس کے مطابق کچھ کر گزریں گے۔ ہماری تو عید اُسی روز ہوگی۔