ایسا لگتا ہے کہ مشرق ِ وسطیٰ کے صحرائوں سے اٹھنے والے مذہبی شدت پسندی کے تندوتیز بگولوں کے سامنے سیکولر قوم پرستی کے نقوش نقش بر آب ثابت ہورہے ہیں۔ معتدل مزاج درمیانی طبقے کی حدود سمٹ رہی ہیں اور اس کی جگہ مذہبی بنیادوں پر فرقہ واریت کے خونچکاں خدوخال تمام تر ہولناکیوںکے ساتھ ابھر رہے ہیں۔ اب یہ مشرق ِ وسطیٰ وہ نہیںہے جہاں جدید سوچ رکھنے والے گروہ عربی زبان بولنے والوں کی شناخت کو اجاگر کرتے ہوئے عرب قومیت کا احیاء چاہتے تھے ۔ اب ایسا کچھ بھی منظر ِ شہود پر نہیں ہے، اس کی بجائے اب عراق میں فرقہ واریت اور لسانی تعصب کے بھڑکتے ہوئے شعلے تمام مشرق ِوسطیٰ کے لیے مہیب خطرہ بن چکے ہیں۔ جب ہم خطے کے موجودہ سماجی ، مذہبی اورسیاسی خدوخال کو دیکھتے ہیں توہمیں اس بات کا گہرا جائزہ لینا چاہیے کہ یہ معاملہ کہاں، کیسے اور کیوں خراب ہوا؟درحقیقت یہ موضوع سیر حاصل جائزے، طویل تحقیق اور گہری سوچ بچار کا متقاضی ہے ۔ میرے نزدیک اس خرابی کی دو وجوہات ہیں۔۔۔ ایک وجہ یہ کہ انقلاب کے بعد فوجی حکمرانوں نے سیاسی جماعت بنا کر جابرانہ ہتھکنڈوں سے ملک کے سیاسی عمل کو یرغمال بنا لیا۔ اس سیاسی نظام میںدرحقیقت فرد ِ واحد کی ہی حکومت تھی اور اُسی کے نظریات کا پرچار ہوتا تھا۔ کسی کو اس سے اختلاف ِ رائے کی جرأت نہ تھی۔ اس نظام نے عوامی خواہشات کا گلا گھونٹتے ہوئے متمول امیر اور باوردی شہنشاہ تخلیق کیے۔ ان کے نام مقامی شہریت کی ترجمانی کرتے تھے لیکن ان کے کام ہٹلر، مسولینی اور کامریڈ سٹالن کی یاد دلاتے تھے۔ عرب دنیا میں آنے والی آمریت نے سماجی قدروں کے فروغ اورتخلیقی سرگرمیوں کی آبیاری کرنے والی عوامی سوچ کے دھاروں کو خشک کردیا۔ اس کی جابرانہ فضائوں نے سرکاری دانش وری، محدود سوچ رکھنے والے عالم اور جھوٹے مسیحائوں کی پرورش کی۔ گھٹن کے ایسے معاشرے میں سوچ تعفن زدہ ہوجاتی اور اس سے تحریک پانے والے افعال اذیت پسندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ عرب دنیا میں مروج آمریت دنیا کی دیگر آمریتوں سے اس لحاظ سے قدرے مختلف ہے کہ یہاں حکمرانوں کی طرف سے اسلامی قدروں، جیسے سخاوت، عوامی فلاح کے منصوبوں اور انصاف کو اہمیت دی گئی۔ اس کا آغاز اُس وقت ہوا جب 1953ء میں ایران کے منتخب وزیر ِ اعظم محمد مصدق کو منصب سے ہٹادیا گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کارروائی کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ عالمی واقعات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ محمد مصدق کی معزولی کے پیچھے برطانیہ کی MI-6 اور امریکہ کی سی آئی اے کا منصوبہ کارفرما تھا۔ انہوں نے ان کی جگہ ایسے بادشاہ کو تخت پر بٹھایا جس نے اس خطے میںجمہوریت سے متعلق ہر چیز کو ملیا میٹ کر دیا۔ آج کی دنیا میں ان بادشاہوں، جن کو امریکی آشیر بادحاصل رہی ہے ، کے خلاف عوامی رد ِ عمل سامنے آیا ہے۔ اس کا مظاہرہ مصر، شام اور عراق میں دیکھنے میں آیا؛چنانچہ تبدیلی کے شکار ان معاشروں میں عوامی سطح پر بھی مخالف جذ بات نمودار ہوئے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد عرب حکمرانوںنے اسرائیل سے علاقے واپس چھین لینے کے نعرے بلند کرتے ہوئے اپنی فوجی طاقت بڑھائی اور اس کے ساتھ جنگ کی۔ تاہم ان جنگوں میں ان ریاستوں کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ عرب قوم پرستانہ جذبات کو ابھارتے ہوئے آمر حکمرانوں نے علاقائی تقسیم کر لی لیکن ان کی ناکامی نے مذہبی عناصر کو معاشروں میں جگہ بنانے کا موقع دے دیا۔ اس کی واضح مثال مصر ہے۔۔۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ ناصر کے جبر کا سامنا کرتے ہوئے اسلام پسند قوتیں کس طرح اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئیں۔اس کے بعد وہ انتخابی سیاست میں اپنا وجود منوانے کے بھی قابل ہوگئیں۔ شام اور عراق میں آمریت مصر سے زیادہ سخت تھی۔ ان دونوں ریاستوں میں فرقہ وارانہ اقلیتیں موجود تھیں لیکن شخصی آزادی نہ ہونے اور زمامِ اختیار فرد ِواحد کے ہاتھ ہونے کی وجہ سے ان کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملا۔ اس کے باوجود ان معاشروں میں فرقہ واریت کی جڑیں موجود رہیں۔ اس کی وجہ وہاں دیگر فکری سرگرمیوں کا نہ ہونا تھا؛ چنانچہ جب دیگر تمام شناختیں مٹا دی گئیں یا اُن کو ابھرنے کا موقع نہ مل سکا تو شناخت کے محرکات نے فرقہ واریت میں پناہ ڈھونڈھ لی ۔ یہ قوت ساکت و جامد رہی یہاں تک کہ آمریت کا آہنی ہاتھ اٹھ گیا۔یہی وجہ ہے کہ شام اور عراق میں جب آمرحکمران اقتدار سے ہٹا دیے گئے تو فرقہ واریت کا جن پوری شدت سے منظر ِ عام پر آگیا۔ خدشہ ہے کہ کشیدگی کی یہ آگ پھیلے گی اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا عنصر ہمارے معاشرے میںبھی موجود ہے۔