گزشتہ عام ا نتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب میں کمزور ترین کارکردگی اور حال ہی میں اس صوبے سے تعلق رکھنے والے کچھ کارکنوں اور رہنمائوں کی طرف سے اس کی صفوں سے نکل کر مخالف سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کا عمل سیاسی مبصرین کے علاوہ پی پی پی کے سیاسی مخالفین نے بھی غور سے دیکھا اور رائے قائم کی کہ پی پی پی ختم ہوگئی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ منحرفین کسی اور جماعت کی بجائے صرف پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ تمام تر سیاسی ہنگامہ آرائی کے باوجود اس جماعت کی مقبولیت کا گراف اُونچا جارہا ہے۔ سیاسی پنڈت امکان ظاہر کررہے ہیں کہ اگر اس نے کچھ غلط سیاسی فیصلے نہ کیے تو اگلے عام انتخابات میں یہ مرکز میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان تفاوت کو سنجیدہ نظریاتی پہلووں سے نہیں دیکھا جاتا ۔ ان کے درمیان اتفاق یا محاذآرائی بھی نظریاتی بنیادوں یا پالیسی معاملات پر نہیں ہوتی۔ ان معاملات کے پیچھے قوت ِ محرکہ پارٹی کا مرکزی رہنما، جو اس کا بانی ہوتا ہے یا جس کا تعلق پارٹی کے بانی گھرانے سے ہوتا ہے،کی ذاتی پسند یا ناپسند ہوتی ہے۔ دوسری طرف کم درجے کے رہنما بھی پارٹیاں بدلتے وقت نظریات وغیر ہ کو آڑے نہیں آنے دیتے اور نہ ہی ان کا کوئی اصولی موقف انہیں اس کام کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ان کے پیش نظر اقتدار میں سے حصہ حاصل کرنا یا صوبے ، ضلعے یا کم از کم اپنے حلقے میں طاقت ور رہناہوتا ہے۔ ایک پارٹی کی صفوںسے نکل کر دوسری میں شامل ہوتے وقت عوام کے سامنے ، پریس کانفرنسز کے دوران جو وجوہ بیان کی جاتی ہیںوہ عام طور پر وہی ہوتی ہیں جو طلاق لیتے وقت شادی شدہ جوڑے جواز کے طورپر عدالت کے سامنے رکھتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی ''طلاق ‘‘ میں ان الزامات کی باز گشت عمومی طور پر سنائی دیتی ہے یعنی بدعنوانی، نااہلی، نااہل قیادت، عوامی رابطے کا فقدان، کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی وغیرہ۔دوسری طرف پارٹی بھی اپنے منحرفین پر کم و بیش ایسے ہی الزام عائد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ'' چلو اچھا ہوا، گند صاف ہوا۔‘‘گویا ان نااہل افراد کے جانے کے بعد اب پارٹی دن دگنی ، رات چوگنی ترقی کرنے لگے گی۔ اس کے بعد ان کارکنوں (جو بہت دیر تک اس پارٹی میں اہم عہدوں پر رہے تھے) کو قبول کرنے والی پارٹی پر الزام لگا کر تمسخر اُڑایا جاتا ہے کہ اس نے ان ''گندے انڈوں‘‘ کو قبول کرکے اپنی اصلیت ظاہر کردی۔
حال ہی میں جن وزراء نے پی پی پی کو چھوڑا اور چھوڑتے ہوئے جو باتیں کیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ اب اُ ن کے منہ سے نہیں جچتیں۔ ایک ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگ لگاکرجان بچانے والوں پر ویسے بھی کوئی بے وفائی کی تہمت نہیں لگاتا، چنانچہ وہ جواز نہ ہی فراہم کرتے تو اچھا تھا۔ اب پارٹی کو چھوڑجانے،جب اس کا انجام صاف دکھائی دے رہاہے،کو اپنی سیاسی بصیرت، حب الوطنی (ہمارے ہاں سب مسئلوں کا ایک ہی حل)اور ضمیر کی آوازقرار دینا اچھا نہیں لگتا۔ اس رویے کی اصل وجہ ہمارا سیاسی کلچر ہے جو وفاداری تبدیل کرنے والوں کو تحریک دیتا ہے کہ اب ان کا موجودہ پارٹی میں کوئی فائدہ نہیں ، چنانچہ وہ بہتر مستقبل کی خاطر کسی طرف ہجرت جائیں۔
یہ سوال کہ کیا اب پی پی پی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرلے گی، سیر حاصل بحث کا متقاضی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کے امکانات بہت معدوم ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ پی پی پی نے پنجاب اور اس کے حلقوں میںپائی جانے والی سیاسی حمایت کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا سوچنے والے غلط نہ ہوں، لیکن اسے جواز بنا کر پارٹی چھوڑ جانا یقینا غلط ہے۔ اگر پارٹی زبوں حالی کا شکار ہے تو اسے بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنا، نہ کہ اسے چھوڑ جانا، مسئلے کا حل تھا۔ جمہوریت میں پارٹیوں کو عروج وزوال حاصل ہوتا رہتا ہے۔ کبھی وہ انتخابات جیت جاتی ہیں تو کبھی عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرپاتیں، توبعض اوقات کچھ غلط فیصلے اور موقع گنوادینا بھی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔ دراصل سیاسی اسٹیک تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہوتے ہیں اور رہنمائوںکو ان پر بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دراصل پاکستان ایک ایسا معاشرہ رکھتا ہے جہاں لگے بندھے سیاسی اصول کام نہیں دیتے۔ یہاں انتخابات لڑنے والے بہت مختلف لوگ ہوتے ہیں۔ عام آدمی ایسا نہیں کر سکتا کہ کسی جماعت میں شامل ہوکر اس کا ٹکٹ حاصل کرے اور انتخاب لڑلے۔ ان قابل ِ انتخاب افراد کے نظریات ان کے اپنے مفاد کے تابع ہوتے ہیں۔ گاہے گاہے اُن میں عوامی مفاد کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ بڑی حد تک دکھاوا ہوتا ہے۔
آج کی پی پی پی وہ نہیں جو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی۔ نہ ہی یہ ایسی جماعت ہے جسے حقیقی معنوں میں عوامی جماعت کہا جا سکے۔ درحقیقت اس نے بھٹو کے دور سے ہی اپنے خدوخال تبدیل کرنا شروع کردیئے تھے۔ 1977ء کے انتخابات نے اس کی سمت کابہت حد تک تعین کردیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ خود کو گراوٹ کی راہ سے نہیں نکال پائی۔ اس نے کامیابی کے لیے ہمیشہ طاقتور افراد پر تکیہ کیا۔ ایسے افراد جو کسی بھی طریقے سے انتخابات میں کامیاب ہوسکیں۔ اس کو دیکھ کر دیگر جماعتوں نے بھی یہی سیکھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں کامیاب ہونے والے افراد ہی سب سے اہم ہیں۔ شاید یہی ہماری سیاسی گراوٹ کا فیصلہ کن موڑہے کہ ایک طرف عوام اور دوسری طرف اہم افراد۔ اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہم پی پی پی کی صفوںسے نکل کر پی ٹی آئی میں جانے والوں کو پی ٹی آئی کی جمہوری کامیابی کہہ سکتے ہیں؟ کیا یہ بات پی ٹی آئی کے لیے سود مند ثابت ہوئی؟ کیا وہ پی پی پی کا تجربہ سامنے نہیں رکھتے؟ وفاداری تبدیل کرنے والے اہم افراد پر بھروسہ کرنے والی جماعتیں آخرکار اپنا نقصان کر بیٹھتی ہیں۔