"RBC" (space) message & send to 7575

سیاست اور نظریاتی کشمکش

یاددہانی کے طور پرعرض کرتا چلوں کہ سیاست کسی بھی جائزو ناجائز طریقے سے اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کا کھیل نہیں ، اور نہ ہی یہ ذاتی مقاصد حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتی ہے۔ اس دوران یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے لیے سیاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی کمزور ریاست ہو یا طاقتور ،یا غیر ریاستی قبائلی معاشرہ، سیاست کی ہر جگہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیاست اچھی بھی ہوتی اور بری بھی۔ میں اچھی یابری سیاست کا تصور شہریوںکے نقطہ ٔ نظر سے دیکھتا ہوں۔ 
اگر اقتدار کے حصول کے حوالے سے سیاست کو دیکھیں توملکی سکیورٹی، استحکام، عوامی فلاح، سماج اور معاشی ترقی کے لیے سیاست ایک ذریعہ ثابت ہوتی ہے ۔ اس کے ذریعے ایک ایسے معاشرے کا قیام ممکن ہوسکتا ہے جس میں افراد اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کرتے ہوئے زندگی میں بلند مقام تک پہنچ سکیں۔ اس طرح سیاست ایک اچھی چیز ثابت ہوتی ہے۔ جہاںتک بری سیاست کا تعلق ہے تو بقول انگلش مفکر تھامس ہوبز (1588-1679ء) یہ افراد کو دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے ان پر حکمران طبقے کی اجارہ داری مسلط کردیتی ہے۔ ان کے لیے زندگی سوہان ِروح بن جاتی ہے، سماجی اور معاشی قدریں غیر متحرک اور چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو زندہ معاشرے اس سے نجات کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاست ہی اُنہیں جدوجہد کی راہ دکھاتی ہے۔ دراصل جمہوری معاشروں میں آنے والی تبدیلی کو نرم انقلاب کی اک طے شدہ شکل قرار دیا جاسکتا ہے۔ 
آج پاکستانی سیاست کو نظریاتی اور طبقاتی تنازعات سے لبریز برطانوی سیاسی تاریخ سے کوئی مناسبت نہیں اور نہ ہی ہم مغربی سیاسی روح اپنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم ہمارے ہاں شہریوں کے مختلف طبقات کی زندگی، آرزو، شکست ِ آرزو اورامکانات کے حوالے سے کشیدگی، تصادم اور کشمکش کا عروج وزوال ضروردکھائی دیتا ہے۔ یہ طاقت کوتحفظ دینے یا اس کے حصول، اور اس مقصد کے لیے عوام کو محدود مفاد کی روشنی دکھاتے ہوئے اپنے ہم قدم کرنے کی کشمکش ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ وسائل اور زندگی کی آسائش حاصل کرنے کا نام ہے تو خواص کے لیے اقتدار کا۔ اس طرح ہم نظریاتی سیاست کی طرف قدم نہیں بڑھاپائے اور آج چھ عشروں کے بعد نہ ہی اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باجود دیگر اسلامی معاشروں کے برعکس ہمارے ہاں سیاسی عمل جاری ہے اوراسے مکمل طور پر برا یا بوسیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
اچھی سیاست کے لیے کچھ چیزوں کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو ریاست کی فعالیت ہے کہ وہ آگے بڑھ کر شہریوں کی ذمہ داری اٹھائے اور دوسرے شہریوں کو دی جانے والی آزادی ہے۔ اس ذمہ داری کے بغیر ریاست اپنا جواز کھو دیتی ہے۔ ہوبز کے مطابق آزادی کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، بلکہ یوںسمجھ لیں کہ طاقت اور تصورات کی کشمکش میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہوبز نے حتیٰ کہ آمریت اور بادشاہت کا بھی دفاع کیا کیونکہ اُسے معاشرے میں انتشار کا خدشہ تھا۔ اگر کوئی طاقت ور اتھارٹی معاشرے کو ایک سیدھ میں رکھ سکے بشرطیکہ عوامی فلاح اور ترقی کا عمل متاثر نہ ہو، تو وہ بھی قابل ِ قبول ہوسکتی ہے۔ یونانی دور کے بہت سے مفکرین کی طرح ،ہوبز کو بھی عام آدمی کی ذہانت اور دانائی پر بھروسہ نہ تھا۔دنیا کے بہت سے مشہور مفکرین اور آمریت کے خطوط پر چلنے والی دانائی، جیسا کہ ہمارے ہاںفوجی حکومت کے پالے ہوئے نام نہاد دانشور اور سیاست دان، آج عام آدمی کی دانائی اور اقتدار کے کھیل میں اس کے حصے کے بار ے میں بہت منفی رائے رکھتے ہیں۔ آج یہ بیانیہ پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مقتدر اداروںکے مقتدر افراد ہی بہتر قومی سوچ اور فعالیت رکھتے ہیں۔ ہمارے عظیم شاعر کو بھی کہناپڑگیا تھا۔۔۔ ''بھروسہ کرنہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر‘‘۔ تاہم یقین رکھنا چاہیے کہ علامہ صاحب کے نزدیک عام آدمی، عام ہوتے ہیں، غلام نہیں۔ 
ان تصورات کے برعکس شخصی آزادی کا جان لاک (1632-1704ء)کا تصور اور اس کے کام کا گہرا اثر تاریخ کے دھارے کو بہت متاثر کرتا ہے۔ لاک کے نظریات نے بعد میں آنے والے روشن خیال مفکرین اور جدید دور کے جمہوریت پسندوں کی فکری آبیاری کی ۔ امریکی انقلابی اُس سے اتنے متاثر ہوئے کہ اُنھوں نے اپنے آزادی کے اعلامیے میں اس کے نظریات کو ہلکی سے تبدیلی کے ساتھ ''زندگی،آزادی اور خوشی کا حصول‘‘شامل کرلیا۔ لاک کے الفاظ میں خوشی کی جگہ جائیداد ہے، لیکن سچی بات یہ کہ خوشی زیادہ جامع اور پرتاثیر ہے اور پھر لفظ جائیداد سے مغالطہ بھی ہوسکتا ہے۔ 
پاکستان طاقت کے مراکز کے درمیان کشمکش سے گزررہا ہے۔ ہمارے آئینی نظام میںسکیورٹی اور آزادی، دونوں کو اہمیت حاصل ہے۔ اب تک بری سیاست آشکار ہوتی جارہی ہے۔ لوگ سمجھنے لگ گئے ہیںکہ اُن کے نام پر بری سیاست کرتے ہوئے کچھ طبقات نے ملک کو لوٹا۔ ان کی وجہ سے معاشرے کو حرص نے اپنی گرفت میں لے کر انتشارزدہ کردیا، یہاں تک کہ بدعنوانی معمول کی سرگرمی قرار پائی۔ جب کسی معاشرے میں نوبت یہاںتک آن پہنچے تو عام آدمی کی قوت انتخاب جواب دے جاتی ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کا ووٹ بدعنوانی کا احتساب کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورت میں عدم تحفظ کا احساس شدید تر ہوجاتا ہے یہاںتک کہ انسان جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ تاہم ، ہمیں اس سے پہلے خود کو سنبھالنا ہوگاکیونکہ بہت سے صحافی دوست اس بابت فعال ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں