اس سوال پر میرا فوری اور دوٹوک جواب نفی میں ہے۔ پاکستانی عوام کی ایک معقول اکثریت میرے جواب کی تصدیق کرے گی۔ اب تک شریف خاندان نے تیسری مرتبہ اقتدار سنبھال کرزیادہ تر پاکستانیوں کو مایوس کیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی غلطیوںسے کچھ نہیں سیکھا، کچھ افراد یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی سطحی ذہنی استعداد پاکستان کو درپیش گمبھیر مسائل حل کرنے کے قابل نہیں۔ اُن کے موجودہ اقتدار کی نصف آئینی مدت وقتی اقدامات(ایڈہاک ازم)، سستی اور فوری شہرت حاصل کرنے والے بے کار منصوبے بنانے، ذرا سا دبائو پڑنے پر موم کی طرح مڑ جانے یا تنکوں کی طرح دہرا ہوجانے اورپورے طمطراق سے، کسی سے مشورے کیے بغیر ایسی پالیسیاں بنانے جن سے ملک کے عوام کی بجائے اُن کا ذاتی فائدہ دکھائی دے، میں گزر گئی ، چنانچہ مجھے باقی مدت میں کوئی مثبت تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کے سوا کچھ اور کرنے پر قادر ہی نہیں، لہٰذا ہمیں ان کی طرز ِحکمرانی کے مزید گھائو برداشت کرنے پڑیں گے اور اس دوران پاکستان درکار اصلاحات اور تبدیلی کے عمل سے نہیں گزرے گا حالانکہ اس کے سامنے ترقی کے بہت سے مواقع آئیں گے اور گزر جائیں گے۔
یقینا شریف خاندان اور اس کے حلیفوں اور معاون افراد کواس ملک کی تمام خرابیوں پر مورد ِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ گزشتہ کئی عشروںسے ہمارا قومی خاصا رہا ہے کہ بسا اوقات ہماری معیشت ٹیک آف کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن پھر یک دم سرکے بل زمین پر گر جاتی ہے۔ جیسے ہی اس میں تھوڑی سے بہتری آتی ہے ، بدعنوانی، انتہا پسندانہ گروہ، ناقص گورننس اور عوامی وسائل کی لوٹ مار بلیک ہول کی طرح ترقی کے تمام امکانات کو اپنے اندر کھینچ کر تباہ کردیتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورت ِحال کی ذمہ داری بہت سے ایسے عوامل پر عائد ہوتی ہے ، لیکن اس میں حکمران بالخصوص ذمہ دارہیں کیونکہ وہ ملک میں درکار اصلاحی عمل کا آغا ز نہ کرسکے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی ایک سیاسی حکومت ملک میں اصلاحات نہیں لاسکتی کیونکہ اس کے راستے میں بہت سے گروہ کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن جب کوئی جماعت پی ایم ایل (ن) جیسا بھاری مینڈیٹ لے کر ایوانوں میں آئے تو پھر عوام کو امیدہوتی ہے کہ اب یہ کچھ کرے گی اور ملک پسماندگی کی زنجیروںسے نجات پائے گا۔ سچی بات یہ ہے موجودہ حکمران جماعت سے اس مرتبہ عوام کو حقیقی معنوں میں بہت سی امیدیں تھیں کیونکہ اب ملک کو درپیش چیلنج مختلف قسم کے ہیں، ماضی کی طرح دفاعی ادارے سیاست سے دور ہیں اور خطے میں ترقی کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ امید تھی کہ طویل سیاست اور حکمرانی کا تجربہ رکھنے والی قیادت ملک کی درست سمت میں رہنمائی کرے گی، لیکن آج عوام پہلے سے بھی زیادہ مایوس ہیں۔
سب سے پہلے پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں میں اصلاحات درکار ہیں۔ اس وقت تمام دنیا ان شعبوں میں اصلاحات کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہے ، اور یہ شعبے پاکستانی معیشت کے لیے سفید ہاتھی، ایک بہت بڑا بوجھ ، ثابت ہورہے ہیں۔ درحقیقت ان اداروں پر جی ڈی پی کا چار سے پانچ فیصد تک ضائع ہوجاتاہے۔ یہ رقم دفاع پر اٹھنے والے اخراجات کے مساوی ہے۔ ان پر بھاری رقوم خرچ کرنے کا فائدہ کیا ہورہا ہے؟ بالکل صفر، کیونکہ یہ اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ ان پر جتنی بھی رقم جھونک دی جائے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا تیس فیصد چوری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح قدرتی گیس کی بھی خاطر خواہ مقدار چوری ہوجاتی ہے۔ اس دوران ایماندار صارفین کو یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے نہ صرف بھاری بل ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ طویل اوقات کے لیے لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی جھیلتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن یہ چور نہ کبھی پکڑے گئے اور نہ کسی کو سزا ہوئی۔
حکومت کی طرف سے ہونے والا انتہائی حیران کن اعلان چند دن پہلے سننے میں آیا۔ کہا گیا کہ پی آئی اے کی نج کاری کوموخر کیا جارہا ہے ۔ اس سے ایسا تاثر ملا جیسے حکومت طاقتور یونینز کے سامنے ہتھیارڈ ال رہی ہے۔ اب اس مسئلے کو نہایت بے ڈھنگے انداز میں سلجھانے کی کوشش کررہی ہے۔ دراصل جب حکمران اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر فیصلے کریں تو وہ قومی معاملات کوالجھا دیتے ہیں ۔اس کی وجہ سے یہ ہے کہ عوام کو ان کی نیت پر شک ہوتا ہے کہ دکھائی دینے والی پالیسی کی آڑ میں شاید خود کو اپنے کسی من پسند ٹولے کوفائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی اینٹرپرائزز پر ٹیکس دہندگان کی بھاری رقم ضائع کی جاتی اوران کو نجی شعبے کے حوالے کردینا وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے حکومت کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے۔
اس سے پہلے بھی حکومت نے کم ازکم دو معاملات پر طاقتور کاروباری حلقوںکے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ پہلا دکانیں آٹھ بجے بند کرانے ، اور دوسرا معیشت کو ڈاکومنٹ کرتے ہوئے ٹیکس کے دائرے میں لانے کے اعلانات۔ ان دونوں معاملات پر جس طرح حکومت نے قدم پیچھا ہٹایا،ا س کے بعد کوئی بھی گروہ حکومت کو چیلنج کرکے اس کی عملداری کو مفلوج بنانے کی شہ پائے گا۔ تاجروں نے دھمکی دی کی وہ شٹرڈائو ن ہڑتال کردیں گے اور موروثی سیاست لرزاٹھی۔ دنیابھر میں شام آٹھ بجے بازار بند کردیے جاتے ہیں، ہم کوئی انوکھا کام نہیں کرنے جارہے تھے ، اور پھر ہمیں بجلی کی شدید قلت کا سامنا تھا، لیکن حکومت اپنے فیصلے پر ثابت قدم نہ رہ سکی۔ موجودہ حکمران پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کا وعدہ کیا کرتے تھے ، اب یہ لفظ اُن سے ایک مخالف سیاسی جماعت نے چھین لیا ہے۔ اب ان کے پاس عوام سے کہنے کے لیے شاید الفاظ ختم ہوتے جارہے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اب عوام کو الفاظ کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔