انصاف اور تبدیلی، معیشت میں بہتری جس سے عام لوگوں اور ملک کی قسمت سنور جائے، ایک خواب ہی رہا۔ مایوسی کی دبیز دھند، قنوطیت کی گہری چھاپ‘ چار دانگ اندھیرا، اور پھر ان سے راستہ نکالنے کی ان گنت تدبیریں۔ ہر دور میں سبز باغ دکھا کر اقتدار کے مزے لوٹے گئے۔ کچھ نہ کچھ سب نے کیا، مگر ڈنگ ٹپائو فارمولہ، بحران ٹالنے کے وقتی حربے، تاریکی‘ یہ سب دور نہ ہو سکے۔
ہمارے محترم کپتان تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے۔ اُنہیں عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ مخالفین کچھ بھی کہیں، وہ آج پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ ٹائم میگزین کے مطابق وہ دنیا کے ایک سو بااثر افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ نہ ہی اس فہرست کیلئے چنائو بلاجواز ہوتا ہے۔ یقین، حوصلہ، ارادے کی پختگی، عزم اور ہمت اُن کے کردار کے عناصر ہیں، جن سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ ورلڈ کپ کی فتح سے لے کر وزیرِ اعظم پاکستان تک کا سفر معمولی نہیں۔
عمران خان نے جھوٹے نہیں، بڑے خواب دیکھے، دکھائے اور اُنہیں عملی شکل دی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور اور پشاور جبکہ کراچی میں زیرِ تعمیر۔ پنجاب کے پسماندہ ضلع میانوالی میں ایک اعلیٰ معیار کی جامعہ کا قیام۔ اس میں قبائلی علاقوں سے ایک بڑی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ روایتی موروثی سیاست دانوں، جن کی طاقت، طرزِ حکمرانی اور غلبے کو عمران خان نے چیلنج کیا، کا بیانیہ یہ رہا ہے کہ خان کو صرف فلاحی کاموں پر ہی توجہ دینی چاہیے۔ کہا گیا کہ سیاست ایک اور قسم کا کھیل ہے، اُنہیں اس کا تجربہ نہیں، کبھی سیاسی میدان میں نہیں اترے، ہاں اگر اُنہیں شوق ہے تو ہمارے ساتھ مل جائیں۔ وزارت مل جائے گی۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے ابھرتے ہوئے سیاسی کارکنوں کو محدود، اور مسدود کرنے کے لیے یہ حربے استعمال کیے۔ لیکن عمران خان جھانسے میں نہ آئے۔
کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ کپتان پاکستانی سیاست کی تپش، کڑی آزمائش اور دو بڑے سیاسی خاندانوں کی چالبازیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ ان خاندانوں نے ملک کے اندر اور باہر دولت کے ایسے انبار لگائے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں اس کی مثالیں کم ہی ملیں گی؛ چنانچہ ناکامی کے بعد عمران خان واپس کرکٹ کمنٹری کی طرف چلے جائیں گے۔
کئی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن کپتان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔ ثابت قدمی اور شکست کے سامنے سپرانداز نہ ہونے کی عادت، اور ذہن میں قومی تعمیر کا جذبہ قائم رہا۔ سبھی جانتے ہیں کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ کرکٹ کے کھیل کی طرح کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک بڑا فرق ضرور ہے، جس کا ادراک کپتان کو بھی ہونا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے ہاں کھیل کی تشبیہات استعمال کی جاتی ہیں، لیکن سیاست بہرحال کھیل نہیں۔ سیاست کا تعلق پروگرام، منشور، عوام کے دلوں اور ذہنوں کو جیتنے اور اُن کی حمایت حاصل کرنے سے ہے۔ یہ سب کچھ وقت کی قید میں ہے۔ گزشتہ نصف صدی کی محرومیاں، قومی خزانے کی لوٹ مار، وسیع پیمانے پر منظم بدعنوانی، ریاستی اداروں کا مسلسل زوال، معیشت کی زبوں حالی بلکہ دیوالیہ پن، زنگ آلودہ نوکر شاہی، گویا ریاستی اور سماجی زوال کی وہ تمام خرابیاں ہیں جو کسی ملک میں ہو سکتی ہیں، ہمارے ہاں بیک وقت موجود ہیں۔ ماضی میں سیاسی لٹیرے اس لیے کچھ نہ کر سکے کہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے، یا کر نہیں سکتے تھے۔ مورثی سیاست کے چیمپئن، دو خاندان باہم دست و گریباں رہے۔ سیاست طویل عرصے تک ایک اکھاڑے کا منظر پیش کرتی رہی۔ اس کی وجہ سے ریاست کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہوا، اقتصادیات سے لے کر سماج تک، ہر شعبے میں مافیا پیدا ہو گئے۔ ان مافیاز نے جمہوریت، حقوق اور آزادی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت تبدیلی کا عمل شروع کرتی تو دوسری اُن گروہوں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی۔ مصلحت کوشی اور وقت گزارنے کی روایت اور اقتدار کے مزے لوٹنے کی عادت نے ہمارے کئی عشرے نگل لیے۔ بے پناہ دولت کمائی اور دنیا کے کونے کونے میں چھپائی گئی۔ احتساب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میڈیا میں اپنے نمائندے، وکیل اپنے، عدالتیں شاہی حاندانوں کے زیرِ اثر، چند سو سیاسی خاندان اور اُن کے چند ہزار افراد کی چاندی ہو گئی۔ ہر سال پچیس ارب روپے میڈیا اور تندوری سیاست کی نذر ہوتے رہے۔ خیر اس سرمایہ کاری سے کچھ کا بھلا بھی ہو گیا۔
یہ مختصر پسِ منظر ہے جس میں تحریکِ انصاف نے مقبولیت حاصل کی، اور عوام نے عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ میرے نزدیک اس تحریک کا ابھرنا ایک بڑے سیاسی اور سماجی انقلاب سے کم نہیں۔ اس سے امکانات کے دیے روشن ہوئے، امیدیں جاگ اُٹھیں، توقعات کی کھیتی ہری ہو گئی۔ مایوسی کا شکار قوم کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی کا جھونکا سا آ گیا۔ گزشتہ چالیس سالہ سیاست کے بنیادی کردار اندیشوں کی کالی گھٹا کی مانند تھے۔
لیکن تحریکِ انصاف کی کامیابی کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہ کردار اب ہمیشہ کے لیے ماضی کا حصہ بن چکے؟ کیا وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکتے؟ کیا وہ اپنے دولت کے انبار استعمال کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کی حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ کی سکت نہیں رکھتے؟ اگر تحریکِ انصاف یا اُس کے حامی ایسا سوچتے ہیں تو شاید اُنھوں نے پاکستان کی تاریخ نہیں پڑھی۔ یہاں کوئی چیز بھی ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ ہر ترقی پذیر اور ناپختہ جمہوریت کا آغاز ایسے ہی ہوتا ہے۔ عوام کی رائے پختہ نہیں ہوتی اور پھر پاکستانیوں کے مزاج میں جہاں بہت سی اچھائیاں ہیں، ایک خرابی دائمی ہے۔ یہ کسی کو بہت زیادہ مہلت دینے کے حق میں نہیں ہوتے۔ فوری نتائج چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک بہت سے سیاسی دھڑوں میں منقسم ہے۔ ایسا دکھائی تو دیتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حمایت بہت وسیع اور گہری ہے مگر یہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ صرف اچھے دنوں کے انتظار تک کی مہلت ہے۔ لیکن یہ انتظار لامحدود وقت کے لیے نہیں۔ ایک اور بات، مایوسی کو بھی سیاسی چال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت کے ہر اچھے کام کو کسی اور زاویے سے پیش کرکے تنقید کی جا سکتی ہے۔ خیر میں شرکا پہلو دیکھنا اور دکھانا کوئی مشکل نہیں۔ آج کل میڈیا یہ بات طے کرتا ہے کہ شام کو کس موضوع پر بات ہوگی۔
جس دن سے تحریکِ انصاف نے اقتدار سنبھالا ہے، ایک بیانیہ ترتیب دیا گیا ہے۔ عمران خان نے نااہل اور آزمائے ہوئے لوگوں کو کابینہ میں جگہ دی ہے۔ وہ یوٹرن لینے اور ارادے تبدیل کرنے کے ماہر ہیں۔ ناتجربہ کار ہیں، اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ وہ حکومت کی کوئی سمت مقرر نہیں کرسکے ہیں۔ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ جس کسی نے بھی یہ بیانیہ تراشا، اُس کی ذہانت کی داد لازم ہے۔ بادی النظر میں اس میں وزن دکھائی دیتا ہے، مسائل بہت گھمبیر ہیں، وسائل محدود؛ چنانچہ مایوسی فطری ہے۔ سیاسی مخالفین تو کمزوری کی گھات میں ہوتے ہیں۔ یہ وہ پچ ہے جو ہر قسم کی گیند بازی کے لیے سازگار ہے۔ یہاں بائونسر بھی کام دیتا ہے اور سپن بھی۔ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کا مقصد تحریکِ انصاف کو کمزور اور ناکام کرنا ہے تاکہ وہ سیاسی طور پر نااہل ثابت ہو اور آئندہ سیاسی نقشہ اُس کے حق میں نہ ہو۔ امکان ہے کہ عمران خان سب کچھ دیکھ ، سن اور سمجھ رہے ہوں گے۔
مخالفین کا بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔ تحریکِ انصاف کی صفوں میں فی الوقت سراسیمگی دکھائی دیتی ہے۔ اجتماعی سوچ اور صف بندی کا فقدان ہے۔ کابینہ میں ردوبدل کی باتیں کافی عرصہ سے ہورہی تھیں۔ حالیہ تبدیلیاں کوئی آسمانی افتاد نہیں، مگر مخالفین کے بیانیے کو تقویت ضرور ملی ہے۔ ایک بات سوچنے کی ہے کہ اگر معیشت کی سمت درست تھی، اور مالی معاملات استحکام کی طرف بڑھ رہے تھے تو اسد عمر کو کیوں تبدیل کیا گیا؟ وہ ایک لائق اور قابلِ اعتماد صلاحیتوں کے حامل انسان ہیں۔ اور پھر معیشت کے بارے میں فیصلے انفرادی تو نہیں تھے۔ ان کے بارے میں کابینہ میں مشاورت ہوتی ہوگی۔ تو کیا وہ اندرونی خلفشار اور گروہ بندی کا شکار ہوگئے ہیں؟
ہمارے مسائل بہت زیادہ اور گھمبیر ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پاس پانچ سال ضرور ہیں، لیکن ''وقت‘‘ کم ہے۔ تبدیلی کا مطلب بے ہنگم ردوبدل نہیں ہوتا۔ پالیسی سازی کے لیے بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا، مشکل فیصلے کرنے ہوںگے، اور پھر منتشر اور مضطرب قوم کو ایک سمت دکھانا ہوگی۔ محصولات میں اضافہ، دستاویزی معیشت، سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری کے لیے بیانات نہیں، عملی اقدامات درکار ہیں۔ کپتان کو مصلحت اندیشی سے نکلنا ہوگا۔ درحقیقت پاکستان میں قیادت کا امتحان جتنا آج ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔