بھارت کا فکری‘ نظریاتی اور سیاسی توازن ‘ جو اس کی تاریخی پہچان تھی‘ گزشتہ دو دہائیوں میں تحلیل ہوچکا ۔ یہ وہ بھارت نہیں‘ جس کی بنیاد جواہر لال نہرو اور اُن کے ہم خیال رہنمائوں نے رکھی تھی ۔ ان کے نزدیک جمہوری‘ تکثیریت پسند‘ وفاقی اور نظریاتی طور پر سیکولر سوچ ہی ایک متنوع اور وسیع ملک کو ہم آہنگ اور اکٹھا رکھ کر امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی تھی ۔ یہ صرف آزادی کی جنگ لڑنے والے نوآبادیاتی ممالک کا سیاسی فلسفہ نہیں تھا‘ بلکہ اس کی فکری بنیادیں انسانی تاریخ‘ تجربے اور عالمگیری اصولوں پر رکھی گئی تھیں۔ اس وقت کے ہندوستان کے معروضی حالات کے تناظر میں عملیت پسندی کا تقاضا یہی تھا کہ ایک ایسا وسیع جغرافیائی خطہ‘ جوہزا رہا برس سے داخلی اور بیرونی سلطنتوں کے زیر ِتسلط رہا تھا یا کئی ہزار چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوا ہو‘ کی ایک قومی ریاست میں نئی صورت گری صرف آئینی اور جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے ۔ ایک ایسا نظام جو مذہبی عصبیت اور عقائد کی تفریق سے بالا ترہو۔
نہر و ایک بالغ نظر سیاستدان تھے ۔ وہ عالمی تاریخ اور فلسفے پر بھی نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے جس انہماک‘ لگن اور جذبے سے آزاد بھارت کی تعمیر کی‘ اسے دیکھ کر ساری دنیا اش اش کراٹھی کہ انہوںنے کس طرح ایک مفلس‘ منقسم اور بادشاہوں‘ راجوں‘ مہاراجوں اور پھر نوآبادیاتی دور کے ہاتھوں لٹے پٹے ملک کو جمہوری سانچے میں ڈھال کر ایک جدید ریاست بننے کی راہ پر ڈال دیا ۔ جمہوریت کا مزاج ہر ملک کی تاریخ اور سماجی ساخت سے متاثر ہوتا ہے ‘یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کی جمہوریت ایک الگ رنگ رکھتی ہے ‘ تاہم بنیادی اصول سب کے ایک سے ہیں۔ نمائندہ حکومت‘ آئین کی بالا دستی‘ حق ِرائے دہی‘ اداروں کی فعالیت اور ترتیب اور سیاسی حرکیات میں قدرے فرق ہوسکتا ہے ۔ اس وقت سوچ سمجھ رکھنے والے حلقے تجزیہ کررہے ہیں کہ بھارت کی سیاست نے اپنا رخ کیوں‘ اور کیسے تبدیل کرلیا ؟ ہندو انتہا پسندی کے نظریات ملک کے فکری حاشیوں سے اٹھ کر مرکزی صورت کیسے اختیار کرگئے ؟ ان سوالوں کے جواب میں کئی تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے بھارت اور دیگر ممالک میں ان تبدیلیوں کا فکری اور عالمانہ جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس کے کئی تصورات گردش میں ہیں۔
میرے نزدیک سیاست پختہ بنیادوں پر استوار نہیں ہوتی ۔ میں سیاست کو طاقت کے حصول ‘ اسے برقرار رکھنے کی خواہش اور اقتدار کے استحکام کی صورت تشریح کررہا ہوں۔ یقینا سیاسیات ایک دلچسپ مضمون ہے ۔ اس کے حوالے ‘ تعریفیں‘ زبان و بیان اور فلسفوں کی گتھیاں سلجھانے کے لیے ایک عمر درکار ہے ۔ یہاں قارئین کی آسانی کے لیے عام فہم زبان میں عرض ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں مختلف نظریات‘ جماعتوں اور فکری حلقوں کے درمیان پرامن‘ آئینی طریقے سے اقتدار کے حصول کا مقابلہ سیاست کہلاتا ہے ۔ جمہوریت میں لوگوں کے دل اور ذہن جیتنے کی تگ و دو ہوتی ہے ۔کسی بھی قیادت کے لیے دوراستے ہوتے ہیں‘ ایک عوام کو اپنے نظریات او ر سیاسی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ۔ دوسرا کرشماتی قیادت سے عوام کے دل جیتنا ۔ اس کٹھن کام کے لیے کردار چاہیے‘ ایک شخصیت‘ کہ جس کے خلوص ‘ نیت اور ایمانداری پر شک نہ کیا جاسکے ۔ عوام اپنے اور قومی مسائل کے حل کے لیے اُس پر اعتماد رکھیں۔
لیکن ایسی قیادت کچھ مخصوص سماجی اور سیاسی حالات میں پیدا ہوتی ہے ۔ بعض اوقات بحرانوں سے شخصیات جنم لیتی ہیں‘ کردار سامنے آتے ہیں‘قوموں کو نئی راہ دکھائی دیتی ہے ۔ اقتصادی بدحالی روایتی سیاسی جماعتوں کا غلبہ توڑ دیتی ہے ‘ اور اس سے نئے سیاسی امکانات کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ بھارت میں حالیہ انتخابات سے پہلے سیاسی اور فکری رخ تبدیل کرنے کی ہوائیں ‘جو برسوں سے چل رہی تھیں‘ ایسی آندھی اور طوفان کی صورت اختیار کرگئیںکہ روایتی سیاست کی بنیادیں ہل گئیں‘ بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ نئی بنیادی ڈالی جاچکی ہیں۔عملی سیاست کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے اساسی مواد کا غور سے جائزہ لینا ہوگا۔ شروع میں بات یہ تھی کہ بنیادی اصولوں کے علاوہ سیاست کا رنگ ڈھنگ سماجی حالات کا محتاج ہے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی سماجی ساخت ایک جیسی نہیں رہتی ۔ ہر سماجی ساخت کی نوعیت‘ ترتیب اور ترویج میں ایک توازن کا ہونا ضروری ہے ‘ لیکن وقت ‘ ترقی اور معروضی ‘ اقتصادی حالات کا جبر یہ ہے کہ تواز ن دیر پاتو ہوسکتا ہے ‘یہاں تک یہ صدیوں تک قائم رہ سکتا ہے ‘ لیکن یہ بہرحال تغیر پذیر ہے ۔ سیاست کی بالائی اور نظری سطحوں پر آنے والی تبدیلی کی تہہ میں معاشرے میں آنے والی مادی تبدیلیاں کارفرما ہوتی ہیں۔
بھارت میں مادی تبدیلی اقتصادی ترقی کے نتیجے میں برپا ہوئی ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح ڈنگ سیائو پنگ کی بنیادی اصلاحات نے چین کو چالیس سال کے قلیل عرصے میں یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا‘ اسی طرح وزیراعظم نراسیما رائو اور ماہر ِ معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ کی معاشی اصلاحات نے بھارت کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔ جگدیش بھگوتی کے مطابق؛ ہندوستان کے زنجیروں میں جکڑے ہوئے ‘جن کو آزاد کردیا گیا ۔ اصلاحات کا نقطۂ آغاز نیولبرازم کا فلسفہ تھا‘ جس کا پرچار ڈاکٹر بھگوتی جیسے ماہرین ایک عرصے سے کررہے تھے کہ آزادتجارت اور سرمایہ دارانہ نظام ہی ہندوستان کی نیم جان اقتصادیات کو ایک معاشی طاقت میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ میں ذاتی طور پر اس فلسفے سے اتفاق نہیں کرتا اور ہندوستان کے اندر بھی دانشوروں اور سیاست دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کی حامی نہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا‘ مگر سرمایہ کاری بے لگام ہو تو اس کے اثرات غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ اس غیر یکساں ترقی سے کچھ طبقات مالا مال ہوجاتے ہیں ‘ لیکن غریب اور مفلس طبقے غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ یقینا شہروں کے افق پر بلند وبالا عمارتیں نمودار ہوتی ہیں‘ گاڑیوں کی جدت اور بازاروں کی رونق بڑھ جاتی ہے اور عام شہری یہ امید لگالیتے ہیں کہ ایک دن وہ بھی خوشحال ہوجائیں گے ‘لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خوبی لوگوں کے ہاتھ بیش قیمت خواب فروخت کرنا ہے ۔ یہ اُنہیں ایک خوشنما سراب میں مبتلا کردیتی ہے ۔ بھارت اور بھارتی عوام اس سراب کا شکار ہوگئے ۔
یہاں دو نمایاں اور غالب حلقوں کی بات کرنا ضروری ہے ۔ ایک متوسط طبقے کی تعداد میں اضافہ اور دوسرے سرمایہ دارگھرانوں کی اقتصادی اور سیاسی طاقت میں پھیلائو۔ بھارت میں متوسط طبقے کی تعداد تقریباًبیس کروڑ بتائی جاتی ہے ۔ اس طرح ارب پتی سرمایہ دار اب صرف روایتی صنعتی اور کاروباری گھرانوں تک ہی محدود نہیں۔ وہاں سروسز سیکٹر اور دیگر شعبوں سے بھی لوگوں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے ۔ مغرب کے متوسط طبقات کے برعکس بھارت کا متوسط طبقہ نظریات کے اعتبار سے قدامت پسند ہے اور یہی صورت ِحال پاکستان میں بھی ہے ۔ دونوں ممالک کے متوسط طبقے کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے ‘ دونوں قوم پرست ہیں۔ ہندوستان میں اس طبقے نے ہندوانتہا پسند تنظیموںاور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے راہ ہموار کی ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت‘ سادہ زندگی‘ سادھوؤں کا سا انداز(حقیقی یا دکھاوا) اور مذہبی جذبات کے رنگ میں ڈھلی قوم پرستی نے اُنہیں بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے ۔ کچھ تو سماجی اور فکری زمین بھی ہموار تھی اور کچھ شخصیت نے بھی کرشمہ دکھایا۔
اس وقت بھارتی اور عالمی سرمایہ دار‘ زر اندوزی میں مدہوش مودی سرکار کے ہم قدم ہیں۔ سرمایہ دار کی کمزوری ہے کہ اقتدار کے قریب رہنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ شائننگ انڈیا میں فکری تبدیلی برپا نہیں ہوسکی۔ وہی ذات پات‘ وہی سماجی رسومات اور وہی مذہبی عصبیت ۔ آزاد خیال اور لبرل حلقے دبائو میں ہیں۔ عام شہری کی حالت بہتر بنانا مشکل ہے ‘ لیکن اُسے فکری انتہا پسندی کا اسیر کرنا آسان ہے ۔ بھارت کا اساسی نظریہ ہندو انتہا پسندوں کے نرغے میں ہے ۔ موجودہ حکمران طبقے نے نفرت کی فصل بودی ہے ۔ اب کاشت کے بارے میں خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے ۔ ہمیں بھی چوکنا اور ہوشیار رہنا پڑے گا۔ دوستی کا ہاتھ بڑھائیں‘ علاقائی امن اور استحکام کی دعوت دیں‘ لیکن آنکھیں کھلی رکھیں۔