"RBC" (space) message & send to 7575

قومی وقار اور خود اعتمادی کا سفر

وزیرِاعظم عمران خان کا حالیہ دورۂ امریکہ کئی حوالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ دورے کی اہمیت کے پیشِ نظر ساری قوم، بلکہ خطے کی نظریں پچھلے چند دنوں سے امریکی صدر اور وزیرِ اعظم پاکستان کی ملاقات پر گڑی ہوئی تھیں۔ میڈیا اور اس کے باہر ہر طرف خدشات، امکانات اور کئی طرح کی قیاس آرائیوں کا غلبہ تھا۔ کئی سوال تھے مگر جواب ندارد۔ کیا امریکہ اور پاکستان اپنے تعلقات کو نیا موڑ دینے جا رہے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ صحافی، دانشور، سفارت کار اور دیگر ماہرین اپنی اپنی آرا آگے بڑھا رہے تھے، لیکن قدرے محتاط لہجے میں۔ اس کی وجہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں پیچیدگی، بدگمانی، دوطرفہ الزام تراشی اور ایک مدت سے جاری بے وفائی اور دھوکہ دہی کے طعنے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری 2018ء کی ٹویٹ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ موجودہ انتظامیہ کے دور میں تعلقات کی بحالی خام خیال ہی ہوگا۔ اس کے لیے کسی نئے صدر کا انتظار کرنا پڑے گا۔ چند ماہ پہلے تک ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہی صدر ٹرمپ وزیرِ اعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دیں گے۔ آخرکار پاکستان ایک بڑی سفارتی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ کئی جادو ٹوٹے اور امریکہ میں پاکستان مخالف لابیاں، جو پیسے کے زور سے چلتی ہیں، یہ دورہ رکوانے میں ناکام ہوئیں۔
بھارت اور بھارت نواز امریکی دانشور، سیاسی کھلاڑی اور دیگر بااثر لوگوں کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا موقعہ اس لیے ملتا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے امریکہ الٹا اسی پر الزام لگاتا۔ ہر چھوٹی بڑی جنگ کی ناکامی کا ملبہ کمزوروں پر گرتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ طالبان کے خلاف ہماری جنگی معاونت میں نہ تحریک تھی اور نہ جذبہ۔ بس مجبوری تھی۔ ریاستی پالیسی مجبوری سے زیادہ اُس وقت کی حکومت کے سربراہ، اور ان کے گرد جمع سیاسی اور غیر سیاسی ٹولے کی ہوسِ اقتدار کا نتیجہ تھی۔ بل کلنٹن اپنے دورے کے دوران، جب اُنھوں نے پاکستانی عوام سے براہِ راست خطاب کیا، کہیں بھی پرویز مشرف سے ہاتھ ملاتے دکھائی نہ دئیے۔ ملاقات کے وقت کیمرے بند تھے۔ یہ اُن کی طرف سے پاکستان کا دورہ کرنے کی کئی شرائط میں سے ایک تھی۔ مشرف دبائو میں تھے۔ اگر ہم اُس جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو کیا ہوتا؟ اس کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا۔ مشرف اور اُن کے حامیوں کا خیال تھا کہ وہ سہولتیں، جن کا مطالبہ امریکہ پاکستان سے کر رہا تھا، دینے سے انکار کی صورت میں نہ صرف ہماری جگہ ہندوستان لے لیتا بلکہ یہ بھی ممکن تھاکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور ریاستی خود مختاری کو نقصان پہنچتا۔
امریکہ نے ہمیں اپنا اتحادی بنایا۔ مشرف تو اپنی خوش نصیبی پر نازاں تھے مگر امریکہ نے کبھی ہماری بات نہ مانی۔ ہم گزشتہ نصف صدی سے افغانستان کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ افغانستان کے امن، جنگ اور استحکام کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ امریکہ کو ہمارا مشورہ یہ تھا کہ آپ صبر کریں، ہم مل کر اسامہ بن لادن اور اُس کے ساتھیوں تک پہنچ جائیں گے‘ جنگ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ مگر اُس وقت امریکہ پر جنگی جنون سوار تھا۔ ہم طالبان قیادت کے ساتھ رابطے تھے، مگر وہ اسامہ کو کسی صورت امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نتیجہ یہ کہ ہزاروں افراد شہید ہوئے، افغانستان ایک بار پھر ایک بڑی طاقت کی عسکری مداخلت کا شکار ہوا اور طالبان نے اپنی حکومت بھی گنوا دی۔
جب برلن میں نئی افغان حکومت کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو پاکستان کی رائے‘ کہ بات چیت پر آمادہ طالبان رہنمائوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے، کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ افغانستان کی سیاسی طاقت طالبان مخالف دھڑوں کے حوالے کردی گئی۔ امریکہ اس زعم میں رہا کہ وہ جنگ جیت کر افغانستان کی قوم اور ریاست کی از سرِ نو تعمیر کرسکے گا۔ یہ غلط ثابت ہوا۔ چند برسوں میں طالبان نے خود کو دوبارہ منظم کرنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ دیہی علاقوں میں متوازی حکومت قائم کرلی۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی مزاحمت ختم کرنے کے لیے ہر روایتی ہتھیار استعمال کرکے دیکھ لیا۔ رات کے وقت گھروں پر حملے، ڈرون حملے، فضائی بمباری جاری رہی۔ بڑی تعداد میں ہونے والی شہری ہلاکتیں امریکہ اور ا س کے اتحادیوں کے خلاف نفرت کے جذبات ابھارتی رہیں۔ پشتون علاقوں کے لوگ طالبان کی حمایت کرنے لگے۔ اس دوران پاکستان امریکہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیتا رہا، لیکن اُس کے جرنیل اور اُن کی قائم کردہ کابل انتظامیہ‘ دونوں اس پر تیار نہ تھے۔ اس نکتے پر پہنچنے کے لیے امریکہ نے اپنی اور افغانوں کی ان گنت قیمتی جانیں ضائع کردیں۔ تقریباً پانچ سال پہلے صدر اوبامہ نے اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کیا‘ لیکن ایسا کرنے سے پہلے اُنھوں نے اپنی فورسز کو ایک مرتبہ افغانستان فتح کرنے کا موقعہ دیا، اور فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔ جنگ کادائرہ پاکستان سے ملحق علاقوں تک پھیل گیا، ڈرون حملے بڑھ گئے، بے پناہ بمباری کی جانے لگی، لیکن مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔
جب مزاحمت ختم نہ ہوئی تو ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا۔ پاکستان کے اندر بھی کچھ لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں، جو پاکستان کو افغانستان میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ افسوس، اُنھوں نے امریکہ کی فوجی مداخلت، وحشیانہ بمباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ جانی اور مالی نقصان پرکبھی تنقید نہ کی۔ اُن کے نزدیک امریکہ کی جنگ درست اقدام تھا، جو افغانستان میں امن و استحکام اور ایک جمہوری معاشرہ قائم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا تھا۔ روس نے افغانستان میں مداخلت کی تھی، تو بھی ایسے ہی دلائل دیے گئے تھے۔ لیکن یہ سب بیانیے ایک ایک کرکے دم توڑ گئے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بعد میں کہا تھا کہ افغان جنگ فضول ہے، اور امریکہ کو اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا موقف تھا کہ افغانستان کے لوگ اور اُس کی حکومت اپنے دفاع کے خود ذمہ دار ہیں۔ اب امریکہ کو پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیسے کیے جائیں۔ لیکن جس انداز میں اسامہ بن لادن کو قتل کیا تھا، اس سے پاکستان کا امریکہ سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک میں سوال وجواب میں واضح طور پرکہا تھا کہ اُس کارروائی سے ہر پاکستان کی سبکی ہوئی۔ امریکہ نے دہشتگردی کی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دینے والے اپنے اتحادی کو بدگمان کردیا۔ یہ سب کچھ باہمی تعاون سے بھی ہوسکتا تھا۔ عمران خان واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی۔ سب کو یاد ہوگا کہ اُنھوں نے ایک بہت بڑا جلوس نکالا تھا اور جنوبی وزیرستان کی سرحد تک گئے تھے۔ اُن کا افغانستان کے بارے میں ہمیشہ یہی موقف رہا کہ یہ مسئلہ جنگ سے نہیں، مذاکرات سے حل ہوگا۔
یہی وہ نکتہ ہے جس پر امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتاہے۔ یہ ہمارے مفاد میں بھی ہے کہ ہم اُسے باعزت طریقے سے نکلنے کاموقعہ دیں۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب طالبان کے ساتھ معاہدہ طے پاجائے۔ ان کے درمیان مذاکرات کے آٹھ دور ہوچکے ہیں، نواں جلد متوقع ہے۔ افغانستان میں امن اور استحکام، اور پاکستان کے اس میں کردار کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات کا ایک بار پھرآغاز ہوچکا ہے ۔ جس اعتماد سے عمران خان نے پاکستان کی نمائندگی کی ہے، تاریخ میں کوئی پاکستانی رہنما نہیں کرسکا۔ اُنھوں نے نپے تلے انداز میں پاکستان کی ترجمانی کی۔ کہا کہ ہمیں امداد نہیں چاہیے، ہم وقار اور برابری کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اپنے مفاد کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ امریکہ کیساتھ تعلقات بہتر ہونے پر بین الاقومی اداروں کے پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
آخری بات‘ گزشتہ بیس برسوں سے اپنوں اور غیروں نے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے معاشرے، ثقافت، تاریخ،ورثے، روایات اور عوامی سوچ کو پامال کیا گیا۔ ہماری قومی سوچ اور خود اعتمادی کومجروح کیا گیا۔ عمران خان نے قومی لباس اور پشاوری چپل پہن کر، خلوص اور سادگی کے ساتھ خود کو پیش کیا۔ ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔ یہی پاکستان کا حقیقی چہرہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں