ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ سرکاری اہلکار‘عدلیہ‘ سیاست اور دیگر ریاستی اداروں کے ملازمین دُہری شہریت رکھتے ہیں۔ کچھ کے خاندان دیگر ممالک میں منتقل ہوچکے ہیں‘ وہ بس اپنی مدت ِ ملازمت پوری ہونے کے انتظار میں ہیں کہ جونہی یہ دن تمام ہوں‘ وہ بیرون ِ ملک پرواز کرجائیں۔ویسے تو ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ اگر وہ اپنے آبائی ملک کو چھوڑ کر کسی اور ملک کی شہریت حاصل کرنے کا آرزو مند ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ کم ہی ملک اس پر قدغن لگاتے ہیں۔ اشتراکیت کے عروج کے دور میںچند ایک ممالک اپنے شہریوں کوترکِ وطن کی اجازت آسانی سے نہیں دیتے تھے‘ لیکن ملک چھوڑنے والے کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتے۔ کچھ ممالک مُصر ہیں کہ شہریت صرف ایک ہی ملک کی تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ جرمنی اور امریکہ ان ممالک میں شامل ہیں۔ اس قدغن کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ قومی وفاداری تقسیم نہیں ہو سکتی۔ شہریت سے وطن پرستی‘ قومیت اور شناخت کے جذبات وابستہ ہیں۔ دوممالک کی شہریت کے نتیجے میں ان وابستگیوں میں تصادم ہوسکتا ہے ۔ شہری کے لیے متضاد وفاداریاں نبھانا ممکن نہیں ہوتا؛ چنانچہ کچھ ممالک شہریت کے لیے دوسری شہریت سے دستبرداری کی شرط رکھتے ہیں۔
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں دہری شہریت کی اجازت ہے ۔آپ بیک وقت برطانیہ اور پاکستان کے شہری ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور کئی ایشیائی اور افریقی ممالک کے شہری مغرب میں رچ بس چکے ہیں‘لیکن وہ اپنے آبائی وطن کے ساتھ رشتہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی آبائی تہذیب میں سماجی رشتوں میں بہت وسعت ہے ۔ تارکین ِوطن کی کم از کم پہلی نسل کو اپنے پرانے گائوں‘ گلیوں محلوں اور دوستوں کی یاد ستاتی ہے ۔ وہ بہت دیر تک اس تعلق کو برقرار رکھتے ہیں۔اس کے بعد آنے والی نسلیں آہستہ آہستہ نئے ملک کے ساتھ فکری ربط استوار کرلیتی ہیں۔ جذباتی تعلق کے علاوہ پاکستان جیسے ممالک میں دہری شہریت کے حق میں اقتصادی دلیل بہت وزنی ہے ۔ یہ نا صرف ظلم‘ بلکہ اپنے پائوں پرکلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا کہ وہ لوگ جو ہرسال اربوں ڈالر زرمبادلہ بھیجتے ہیں‘ اُنہیں قومی شناخت اور شہریت سے محروم کردیا جائے ۔ برطانیہ اور کچھ ممالک میں لازم ہے کہ نئے شہری صرف اپنی نئی ریاستی سفری دستاویزہی استعمال کریں ‘ آبائی ملک کا پاسپورٹ کارآمد نہ ہوگا۔ پاکستان کی طرف سے یہ سہولت ہے کہ ایسے برطانوی اور کینیڈین شہری پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کرکے بغیر ویزہ پاکستان آجاسکتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں زیادہ تر سیاحوں کا تعلق تارکین ِو طن سے ہے۔ زیادہ تر ایسے افراد ہوتے ہیں جو اپنے آبائو اجداد کے شہروں اور دیہاتوں کو دیکھنا چاہتے ہیں‘ مگر اُن میں سے بہت کم مستقل طور پر آبائی سرزمین پر آباد ہونے کی خواہش کریں گے جہاں بیروزگاری‘ بدعنوانی اور بدامنی زوروں پر ہو اور اُنہیں یہ دیکھ کر شاید تعجب بھی ہو کہ کچھ ریاستوں میں قانون کی حکمرانی نہیں بھی ہوتی۔ کچھ کاروبار یا سیاحت کے لیے واپس آئیں گے‘ مستقل طو ر پر یہاں رہنا اُن کے بس میں نہیں ہوگا۔لیکن تاریخی طو ر پر ہجرت اور نقل مکانی جامد اور یک طرفہ معروضہ نہیں۔ آبادیوں کا سفر‘ تارکین ِوطن کا ہجوم اور مختلف رنگ و نسل کے افراد کی مختلف مقامات پر آبادکاری کا سلسلہ چلتا رہاہے ۔ ہجرت کی راہیں ہمیشہ آباد رہی ہیں۔
درست‘ کہ ہجرت زندگی کی علامت ہے‘ لیکن سر دست اس کی مبادیات اور حرکیات کا فلسفیانہ تجزیہ مقصود نہیں۔ ایک سادہ سا سوال درپیش ہے کہ کیا سرکاری اہل کار دوسری شہریت اختیار کرسکتے ہیں؟کیا اُنہیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ کسی اورملک کی شہریت رکھتے ہوئے پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر کام کریں اور ریٹائر ہونے کے بعد ایک لمحہ یہاں قیام کرنے کی زحمت نہ کریں ‘اور نہ یہ دیکھنا گوارا کریں کہ دورانِ ملازمت اُن کی کارکردگی کے ضمن میں وطن اور ہم وطنوںکو کیا نتائج بھگتنا پڑے؟اس ضمن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیگر ممالک کی روایات یا قوانین اور پالیسیاں اس بارے میں کیا ہیں‘ نیز پاکستان کا قانون اس پر کیا کہتا ہے ؟ لیجیے‘ پاکستانی قانون واضح ہے کہ سرکاری ملازمین کے لیے پاکستانی شہریت بنیادی شرائط میں سے ہے ۔ کسی بھی مقابلے کے امتحان میں داخلہ فارم جمع ہی نہیں ہوتا جب تک آپ اپنی شہریت کا ثبوت پیش نہ کریں۔یہاںتک توٹھیک ہے‘ لیکن دہری شہریت نے اس شرط کوصرف کمزور ہی نہیں‘ معدوم کردیا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ آپ شہری تو برطانیہ‘ امریکہ یا کسی اور ملک کے ہوں لیکن پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں۔ نوکر شاہی اور سیاسی خاندان مل کر پاکستان کا حکمران طبقہ تشکیل دیتے ہیں۔ انہوں نے جہاں اپنے لیے کئی غیر قانونی او ر ناجائز راستے کھول رکھے ہیں‘ وہاں بوقتِ احتساب ملک سے فرار ہونے کا راستہ دہری شہریت کی صورت میں دستیاب ہے ۔
حالیہ دنوں بہت سے سابق سرکاری اہلکاروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے درج تھے ‘لیکن دُہری شہریت کا فائدہ اٹھاکر ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ کچھ کے خلاف تحقیقات کی فائلیں بوسیدہ ہوچکیں‘ عدالتوں میں نام پکارنے والے تھک چکے۔ کون اُنہیں واپس لا کر قانون کے حوالے کرے گا؟ ستم یہ ہے کہ جنہوں نے کارروائی کرنی ہے ‘ وہ اُنہی کے ہم پیشہ و ہم مشرب نہ سہی‘ ہم را ز ضرور ہیں۔ دُہری شہریت نے ''مال ‘‘ٹھکانے لگانے کا راستہ کھول رکھا ہے۔ اعدادوشمار حیران کن ہیں۔ قہر ہے‘ سرکاری اہل کار‘سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنا چکے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کون سا قانون ہے جو سرکاری ملازمین کو دہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔ دراصل قانون میں دانستہ ابہام رکھا گیا ہے ۔ اداروں کے پاس استعداد ہی نہیں کہ وہ بیرونی ممالک فرار ہوجانے والے افسران کا ریکارڈ رکھ سکیں یا اُنہیں واپس لا سکیں۔ اس خطے کے اور کئی ممالک بھی دُہری شہریت کی اجازت دیتا ہے‘ لیکن عوامی عہدیداروں اور سرکاری ملازمین کو نہیں۔ کوئی بھی سرکاری ملازم‘ عدلیہ کا جج ‘ پارلیمان کارکن جب تک عہدے پر ہے‘ کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل نہیں کرسکتا۔مغربی جمہوریت میں تو خیر کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔
فی الحال موجودہ حکومت نے دیگر بہت سے معاملات کی طرح اس طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیںدیکھا تاکہ کہیں کوئی معاملہ درست نہ کرنا پڑ جائے ۔ پاکستان میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے دہری شہریت ترک کرنا ضروری ہے ‘ لیکن افسران پرکوئی پابندی نہیں۔ لوٹ مار کرنے والوں کے گروہ دیکھیں‘ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔پارلیمنٹ‘ خاص طور پر موجودہ پارلیمنٹ ‘ کو اس ضمن میں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے ۔ یہ کب تک سیاسی کھلاڑیوں کے ہاتھ میں کھلونا بنی رہے گی؟ اس کا پلیٹ فارم عرصہ دراز سے بدعنوانی کے تحفظ کیلئے استعمال ہورہا ہے اور ملک میں بدعنوانی جرم کی صف سے نکل کر معمول بن گئی تھی۔
پاک فوج میں یہ روایت موجود ہے ‘اوراس پر حقیقت میں عمل بھی ہوتا ہے کہ دوران ِملازمت کوئی افسر یا جوان دوسری شہریت کے لیے درخواست تک نہیں دے سکتا۔ ایسا کرنے والے کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے قومی اداروں کو بیرونی اثرو نفوذ سے محفوظ رکھا جاتا ہے ‘مگر پاکستان کی نوکر شاہی کاہر شعبہ بگڑ چکا ۔ تحریک انصاف نے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں سول سروسز میں اصلاحات کیلئے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔ اس کی رپورٹ ‘ اور اس پر عملداری کا انتظار ہے ۔ دریں اثنا دُہری شہریت رکھنے والے سرکاری اہل کاروں کو مہلت دی جائے کہ وہ خود ہی مستعفی ہوجائیں۔
عام شہریوں کی دہری شہریت بیرونی دنیا میں ملک کی نمائندگی کرتی ہے‘ملک کا اچھا امیج پیش کرتی ہے ‘ دنیا کے ملک کے بارے میں مغالطوں کو دور کرتی ہے تو مستحسن ہے ‘ لیکن اگر یہ بدعنوان عناصر کو فرار کا راستہ فراہم کررہی ہے تو اس راستے کو مسدود کرنے کی ضرورت ہے ۔