پہلے تو وضاحت ضروری خیال کرتا ہوں کہ موضوع وہ ورثہ نہیں ہے جو ہم بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کو نہیں دیتے۔ ویسے کتنے ظلم کی بات ہے کہ قبائلیت اور جاگیرداری نظام کا ابھی تک اتنا اثر ہے کہ چھوٹے بڑے سب زمیندار بڑے اہتمام اور ہر حیلے بہانے اور دھاندلی سے کام لے کر شاذ و نادر ہی کسی خاتون کو آبائی زمین کا حصہ دیتے ہیں۔ کئی خواتین کو جانتا ہوں کہ بھائی تو عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں اور بہنیں کسمپرسی کی حالت میں‘ یہاں تک کہ بھیک مانگ کر گزارہ کر رہی ہیں۔ کئی جگہ صورتحال اس کے برعکس ہو گی لیکن یہاں بات اکثریت کی ہو رہی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو قانون کے مطابق حصہ سب بچوں میں بانٹ کر دنیا سے سرخرو رخصت ہوتے ہیں‘ یا سب کے لیے منصفانہ طریقے سے حصہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں طاقت کا توازن ہمیشہ مردوں اور اُن میں زمینداروں کے ہاتھ میں رہا ہے۔ ملک کا قانون یا مذہبی اصول جو بھی ہیں‘ زمیندار مرد حضرات‘ اور اس میں زمین کی ملکیت کی کوئی تخصیص نہیں‘ رواج کا بہانہ بنا کر ظلم اور زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگوں کی اکثریت بلکہ بہت بڑی اکثریت ہماری اسمبلیوں میں نسل در نسل آ رہی ہو اور آئین کا وہ حال کیا جائے جو حال میں کیا جا چکا ہے تو صرف کمزور سی آواز ہی اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس لیے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب کچھ کہنے اور لکھنے پر بھی نہ جانے کون سی مصیبت ٹوٹ پڑے۔ خیر اس موضوع پر تفصیل سے کسی آئندہ کے مضمون میں بات ہو گی کہ اکثر ایسے لوگوں کو‘ جنہوں نے اپنی بچیوں کو جائیداد سے محروم رکھا‘ ذاتی طور پر تباہ و برباد ہوتے دیکھا ہے۔ ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔
آج میں اُس زرعی ورثے کی بات کر رہا ہوں جو صدیوں سے ہمارے دیہات میں موسموں کے ہر رنگ میں بویا جاتا رہا ہے۔ ہمارے پہاڑوں کی وادیاں ہوں‘ صحرائی یا میدانی علاقے ہوں‘ مقامی آبادیاں ہمیشہ سے کچھ نہ کچھ اگاتی رہی ہیں۔ گلہ بانی اس کے علاوہ تھی اور کسی صورت میں اب بھی ہے۔ مجھ جیسے پکے دیہاتی شہروں میں بسنے اور جہاں گردی کرنے کے باوجود زرعی ورثے کو ناصرف گہری یادوں بلکہ نظروں میں بھی بسائے ہوئے ہیں۔ جب کسی گاؤں‘ جنگل‘ پہاڑ‘ وادی اور کھیت میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملے تو زندگی میں تازگی سی آ جاتی ہے۔ سب بوجھ ہلکا‘ تھکن دور اور فکر مندی ہوا ہو جاتی ہے۔ ہم نے نہ خود اپنی فطری روایات سے سیکھا ہے اور نہ دنیا سے۔ اکثر ممالک‘ جنہیں ہم ترقی یافتہ‘ خوشحال اور صنعتی معاشرے بھی کہتے ہیں‘ انہوں نے اپنے فطری ماحول‘ خصوصاً زرعی ور ثے کو سنبھال کر رکھا ہے۔ جاپان میں چاول کی پیداوار‘ جو ہمارے ہاں کاشت ہونے والی چاول کی اقسام سے بالکل مختلف ہے‘ اگانے کی روایت قائم رکھنے کے لیے حکومت بے حد مالی معاونت کرتی ہے۔ اگر سرکاری امداد نہ ملے‘ جو کیش اور چاول کی درآمد کو محدود رکھنے کی صورت میں ہے‘ تو وہاں شاید چاول کوئی پیدا نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے باغوں اور باغیچوں کو‘ جو ایک شہر میں دیکھنے کا ایک بار موقع ملا‘ بڑی خوبصورتی اور سلیقے سے سجایا ہوا ہے۔ یہی خوبصورتی ان کے جنگلات اور دیہات کی ہے‘ لاکھوں کی تعداد میں قومی اور غیرملکی سیاح ان کا رُخ کرتے ہیں۔ برطانیہ‘ امریکہ اور آسٹریلیا‘ جہاں جنگلوں اور پارکوں میں کچھ وقت گزارا ہے‘ میں سیاح دور درازسے آتے ہیں۔ امریکہ کے نیشنل پارک تو لاکھوں ایکڑ رقبوں پر محیط ہیں اور تعداد میں سینکڑوں ہیں۔ اور پھر ٹریلیں‘ جو ہزاروں میلوں پر ہیں‘ فطرت سے لگاؤ رکھنے والے افراد دنیا کے ہر کونے سے وہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ابھی تک یہ اعزاز گلگت بلتستان اور کسی حد سے آزاد کشمیر کو حاصل ہے۔ ہنزہ اور نگر میں دو مرتبہ پہاڑوں‘ گلیشیرز اور وادیوں میں کئی دن چلنے‘ وہاں کھیتوں اور ایک گاؤں میں بنے ہوٹل میں قیام کرنے اور بلند و بالا پہاڑوں کی درمیان چاند کے نکلنے کا جو منظر دیکھا ہے‘ اسے ایک بار پھر دیکھنے کی آرزو دل میں گدگدی کرتی رہتی ہے۔ یہاں کے لوگ انتہائی مہذب‘ سلیقہ مند اور مہمان داری میں بہت آگے ہیں۔ ہماری تمام تر شہرتوں کے باوجود ابھی تک غیر ملکی سیاح ہر سال وادیوں میں پیدل چلنے اور وہاں وقت گزارنے اور اونچی چوٹیوں کو سر کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں پنجاب کے کچھ علاقوں میں گڑ میلوں کے اشتہار تو دیکھتا ہوں مگر ابھی تک کہیں جانے کا موقع نہیں مل سکا۔ یہ انتہائی اہم اور قابلِ تحسین ابتدا ہے کہ ہم اپنے دیہات کی رنگ دار ثقافت‘ کھانوں‘ کھیتوں اور کھلیانوں کو بڑھتی ہوئی شہری آبادی کو متعارف کرا سکتے ہیں۔ اکثر علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ لاقانونیت اور جرائم ہیں۔ سوچتا ہوں دریائے سندھ کے کناروں اور اس کے اندر خشک موسم میں اُبھرنے والے جزیروں پر کیمپنگ اور ٹریکنگ کے علاوہ دریا میں کشتی کی سواری اور ساتھ ہی سرسوں اور گندم کے کھیتوں کی سیر مقامی آبادیوں‘ خصوصاً نوجوانوں کیلئے بہت فائدہ ثابت ہو سکتی ہے جنہیں صرف سرکاری نوکری کی تلاش ہے۔ یہ سیاحت ان کے لیے روزگار کا بہت اچھا ذریعہ بن سکتی ہے۔ بنیادی رکاوٹ آئے روز ڈاکو راج کی خبریں اور ہمارے دیہات میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ہمارے شہری لوگ سوائے اپنے دیہات کے‘ اگر انہوں نے وہاں سے کوئی تعلق ابھی تک جوڑ رکھا ہے‘ کہیں اور جانے سے گھبراتے ہیں۔
انگریز دور میں ہر ضلع کی سطح پر جنگلات لگائے گئے تھے‘ اس کے بعد پھر چراغوں کی روشنی مدہم ہوتی گئی۔ یہ جنگلات ہماری آزادی کے وقت گھنے تھے اور ان میں ریسٹ ہاؤس ہوا کرتے تھے جہاں انسان وقت گزار سکتا تھا۔ اب سنا ہے کہ محکمہ جنگلات اور پنجاب حکومت کی کارستانیوں کے طفیل ہمارے اپنے صوبے میں ایسے ریسٹ ہاؤسز صرف نام کے رہ گئے ہیں۔ سب کچھ کاٹ کر بیچا جا چکا ہے۔ ایک جنگل کے درمیان سے ہمیشہ گزر کر اپنے آبائی ضلع راجن پور جاتا ہوں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کہیں کہیں کوئی درخت نظر آتا ہے۔ ان جنگلات کی زمینوں پر لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں۔ ابتدا دیہات میں جنگلات کی سیاحت اور ان کے ریسٹ ہاؤسز کی بحالی سے کی جا سکتی ہے۔ اس طرح محکمہ انہار کے انگریز دور سے تعمیر شدہ ریسٹ ہاؤس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور جہاں کسی کو موقع ملا ہے‘ ان کے دروازے اور کھڑکیوں تک لوگ اتار کر لے گئے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے 50 برسوں کی دو بڑے سیاسی خاندانوں کی غلامی کے اثرات۔ اب تو دوسری اور ایک تیسری نسل بھی آ چکی ہے۔ پیش قدمی ہمارے ترقی پسند زمینداروں کو مقامی زرعی ورثے اور فطری ماحول کو بہتر طریقے سے قائم رکھنے سے کرنا ہو گی۔ نجی شعبے میں چھوٹے ہوٹل‘ گیسٹ ہاؤس بنیں اور مہمان داری کی جدید تربیت مقامی تعلیمی ادارے کریں تو فطری ورثے کی سیاحت کا رجحان ہمارے ہاں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔