کمال کے انسان تھے‘ ایسے کبھی نہیں دیکھے۔ میری تو زندگی ہی بدل دی۔ ہزاروں لوگ ان کی شخصیت‘ رہنمائی اور علمی روشنی سے فیض یاب ہوئے‘ اور ایک چراغ سے کئی چراغ جلتے ہی گئے۔ ہمیں قسمت کی لکیر گھسیٹ کر ان کی خدمت میں لے گئی۔ کچھ عرصہ سکول سے بھاگ کر آوارہ گردی کے ماحول کا شکار رہا تو دل میں کسک سی اٹھتی کہ کہیں دور نہ نکل جائوں کہ واپسی ممکن نہ ہو سکے۔ نجانے کیا خیال آیا کہ دریائے سندھ کی طرف پیدل چلا جائوں‘ کشتی پر سوار ہو کر دوسرے کنارے پہنچوں‘ اور 25 کلومیٹر دور ایک گائوں میں کسی سکول میں داخلہ لے لوں۔ خبر ملی تھی کہ ہمارے خاندانی پیر‘ محترم مخدوم صاحب نے ایک سکول کی بنیاد رکھی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ بچے داخل ہوں‘ سکول چل پڑے اور ان کا چشمۂ فیض ان کی آنکھوں کے سامنے پھلے اور پھولے۔ خود وہ اَن پڑھ تھے اور معذور بھی‘ مگر بڑے زمیندار اور نیک دل۔ وہ چاہتے تھے کہ تعلیم ان کے علاقے میں عام ہو۔ کچھ کتابیں ساتھ لے لیں‘ تن پر دو کپڑے۔ شام کے وقت ان کے بنگلے میں حاضر ہو گیا۔ اتفاق سے سکول کے ہیڈ ماسٹر سید وزیر حسن زیدی اور ایک اور استاد اس وقت ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ مخدوم صاحب پلنگ پر لیٹے حقے کے کش لگا رہے تھے‘ اور بزرگ زیدی صاحب کرسی پر بیٹھے تھے۔ میں حسبِ روایت چپل باہر اتار کر سب کے پیروں کو ہاتھ لگا کر زمین پر بیٹھ گیا۔ مخدوم صاحب کو اطلاع ہو چکی تھی کہ دریا کی دوسری جانب سے ان کا یہ مرید سکول میں پڑھنے کی غرض سے حاضر ہوا ہے۔ وہ بہت خوش تھے کہ ان کے چند ہفتے پہلے کھولے جانے والے‘ دو کمروں‘ چار اساتذہ اور تقریباً 25 طلبہ پر مشتمل ''غوثیہ ہائی سکول‘‘ کی شہرت دور تک پھیل چکی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے میری تقدیر از سرنو رقم کر دی۔
زیدی صاحب نے کچھ سوالات کیے اور اردو کی نویں جماعت کی کتاب‘ جو سکول چھوڑنے کے بعد میری تین چار کتابوں میں سے ایک تھی‘ پڑھنے کو کہا۔ تین چار سطریں پڑھنے کے بعد انہوں نے خوشی سے میرے داخلے کا اعلان کر دیا۔ وہاں جو دو سال گزارے‘ وہ زیدی صاحب اور دیگر اساتذہ کی شفقتوں اور محبتوں کی ایک ایسی کہانی ہے کہ جب کبھی ادھر دھیان جاتا ہے تو زندگی کی سب تلخیاں اڑ کر دور صحرائوں میں چلی جاتی ہیں۔ وہ بہت مشکل وقت بھی تھا‘ سب کے لیے! مگر سب سے زیادہ زیدی صاحب کے لیے۔ وہ کافی عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔ ضلع رحیم یار خان کے کئی سرکاری ہائی سکولوں میں ہیڈ ماسٹر رہنے کے بعد ایک عرصہ پہلے ریٹائر ہو کر پرائیویٹ سکول قائم کرنے میں مدد کرتے۔ ان اداروں کو معیاری بنا کر حکومت کو درخواست دیتے کہ وہ انہیں سرکاری تحویل میں لے لے۔ یہاں بھی یہی مقصد ان کے ذہن میں تھا۔ اس زمانے میں وہ سہولتیں نہ تھیں جو آج ہیں۔ سکول کے تیسرے کمرے میں ان کا قیام رہتا۔ جمعرات کے دن وہ اپنے گھر‘ رحیم یار خان چلے جاتے‘ اور اگلے دن شام کو واپس آ جاتے۔ ایک بس صبح کو جاتی اور شام کو واپس آتی۔ جمعہ ہمارا چھٹی کا دن ہوا کرتا تھا۔ زیدی صاحب متقی‘ پرہیزگار اور پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے۔ شاید ہی زندگی میں ایسا شخص دوبارہ دیکھا ہو۔ گھر جانے کے لیے وہ باقاعدہ استخارہ کرتے اور اکثر استخارہ انہیں سفر سے منع کر دیتا۔ دیگر طلبہ‘ جو چھ یا سات سے زیادہ نہ تھے اور دیگر اساتذہ اپنے گھروں کو چلے جاتے۔ سکول میں زیدی صاحب اور یہ جنگلی رہ جاتے‘ کہ میرا تو ٹھکانہ وہیں پر تھا۔ زیدی صاحب مجھے 'جنگلی‘ کہا کرتے تھے۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ انہیں پتا چلا کہ میں نے کبھی ریل گاڑی نہیں دیکھی تو وہ حیران ہوئے اور کہاکہ جنگلی ہو‘ تم جنگل سے آئے ہو۔ واقعی میں جنگل سے نکل کر آیا تھا اور آج تک جنگلی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ کیا اگلی بار تم میرے ساتھ چلو گے اور میں شہر میں تمہیں ٹرین دکھائوں گا‘ اور پھر وہ مجھے ساتھ لے گئے اور پہلی مرتبہ دسویں جماعت میں ٹرین کو چلتے اور سیٹی مارتے دیکھا تو میں حیرت کے سمندر میں گم ہو گیا۔
زیدی صاحب انگریزی پڑھاتے تھے‘ مگر ساتھ ہی تحریک پاکستان کی داستان سناتے جس میں وہ شریکِ سفر ہوئے تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی‘ جہاں سے انہوں نے بی اے‘ بی ایڈ کیا تھا‘ کی کہانیاں سناتے بے خود ہو جاتے۔ وہ سر سیّد احمد خاں اور ان کی تحریک‘ جدوجہدِ آزادی اور مسلم قومیت کے عوامی جذبے‘ جنوبی ایشیا کی تہذیب اور تاریخ کو ایک کہانی کی صورت چھوٹے چھوٹے حصوں میں بغیر کسی نصاب اور کتاب کے ہمیں ازبر کرا چکے تھے۔ میرے جیسے جنگلی کو کیا پتا تھا کہ کالج‘ یونیورسٹی‘ تاریخ اور قومیت کیا ہوتے ہیں۔ وہ لکھنؤ سے ہجرت کر کے آئے تھے کہ اپنے نئے ملک کی تعمیر کریں گے اور زندگی بھر اس کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ مشکلات کا ذکر اوپر کیا تھا کہ نہ پانی‘ نہ بجلی اور نہ انہیں کوئی اور سہولت میسر تھی۔ ایک دستی پمپ کچھ فاصلے پر تھا۔ چھٹی کے دن ہم جاتے تو میں نلکے سے بالٹی بھر کر لاتا تو وہ نہاتے اور مجھے دعائیں دیتے۔ مخدوم صاحب کے ڈیرے سے جو کچھ فاصلے پر تھا‘ کھانا بھی ان کے لیے لے آتا۔ پوری زندگی یہ جنگلی ان کی خدمت میں گزار دیتا تو بھی شاید حق ادا نہ ہوتا۔ ہماری بدقسمتی کہ سکول کھلنے کے پہلے سال مخدوم صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ہر طرف سے رشتہ دار چیلوں کی طرح نازل ہوکر زمینوں پر قبضہ کرنے اور اپنا جائز وناجائز حصہ لینے کے لیے جھگڑ پڑے۔ ہمارا سکول تو یتیم ہو گیا۔ ہمارے چار اساتذہ کی تنخواہ بند ہو گئی۔ غالباً تب پانچ یا چھ ماہ میٹرک کے امتحان میں رہ گئے تھے۔ زیدی صاحب نے اعلان کیا کہ جب تک امتحان نہ ہو جائے وہ ہمیں پڑھاتے رہیں گے‘ بے شک تنخواہ نہ ملے‘ اور اس طرح ہم یہ سند لینے میں کامیاب ہوئے۔
اس جنگلی کے دل میں خوابوں کا جو پودا دعائوں اور محبتوں کے ساتھ زیدی صاحب نے لگایا تھا‘ وہ ہمیں گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان اور جامعہ پنجاب سے لے کر دنیا کی کچھ بہترین جامعات تک میں لے گیا۔ کالج کے چار سال جلد ہی گزر گئے‘ اور میں زیدی صاحب کی خدمت میں حاضری کے لیے رحیم یار خان جا پہنچا۔ وہ گرمیوں کا دن تھا۔ نہ فون تھے‘ اور نہ کسی اور طریقے سے اطلا ع ہو سکتی تھی۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک ہاتھ سے پنکھا جھلاتے اور دوسرے میں تسبیح لیے لیٹے ہوئے تھے۔ زور سے کہا: اوئے جنگلی! تم کدھر سے آ گئے ہو۔ چارپارئی کی طرف بیٹھتے ہی عرض کی کہ میں نے بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا ہے اور کالج میں بھی فرسٹ آیا ہوں۔ یہ سنتے ہی جوش سے اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے: جنگلی! تم نے میرا دل خوش کر دیا۔ ان کے اُس وقت اطمینان اور سکون کی الفاظ میں تصویر کشی کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ ایسے لگا جیسے ان کی زندگی کا بہت بڑا خواب پورا ہو گیا ہو۔ ان سے جامعہ پنجاب میں داخلہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو شاباش اور دعائوں کی بارش کر دی۔ ان کے پائوں کو آخری بار چھوا اور محبتوں کے سائے میں ایک دوسرے کی آنکھوں کو دیکھا اور ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ کہانیاں اور بھی ہیں‘ باتیں بھی ہیں‘ اور ہمارے محسنوں کی فہرست میں اور نام بھی ہیں کہ ہم آج جو کچھ ہیں‘ دوسروں کے ایثار اور شفقتوں کے مرہونِ منت ہیں۔ سب کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا اٹھتی ہے۔ بھارت کے سفر شروع کیے تو علی گڑھ یونیورسٹی دل میں آباد تھی۔ ایک مرتبہ وہاں کا ویزا مل بھی گیا تو جب دہلی سے ٹرین پر سوار ہوا تو جی کر رہا تھا کہ اگلے چند لمحوں میں وہاں پہنچ جائوں۔ پورا دن علی گڑھ یونیورسٹی کے در ودیوار تکتا رہا‘ کچھ اساتذہ سے ملاقات کی‘ اور زندگی کی بڑی خواہش کی تکمیل ہوئی۔ اس دن جنگلی خیالوں میں زیدی صاحب کے ساتھ چلتا رہا۔ وہ بھی کیا رفاقت تھی۔