"RBC" (space) message & send to 7575

ایران چوراہے پر

ہماری دعائیں‘ خواہشات اور نظریات کا جھکائو جو بھی ہو‘ عملی میدان کی عکاسی نہیں کر پاتے۔ عالمی سیاست کی اپنی اخلاقیات‘ اپنے اصول اور اپنے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔ دانش مند حکمران سامنے کے حالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکل حالات میں راستہ بناتے ہیں۔ ایک بنیادی بات عالمی طاقت کے کھیل کے بارے میں یہ ہے کہ طاقت کا توازن کیا ہے‘ بڑی طاقتوں کے عزائم‘ مقاصد اور مفادات کا تقاضا کیا ہے۔ ہر دور کی طرح اس صدی کی سب سے بڑی حقیقت بھی یہ رہی ہے کہ عالمی نظام کی بساط کے بڑے اور چھوٹے مہرے کن نظریات‘ کیسی معیشت‘ کون سی تجارت اور کس قسم کے ملکوں کو اتحادی بنا رہے ہیں۔ اس نظام کے جبر سے نہ جاپان بچ سکا اور نہ جرمنی‘ کہ ان کے قومیت اور توسیع پسندی کے نظریات اور جنگیں تب کے نظام سے متصادم تھیں۔ عالمی جنگ کے بعد کا جغرافیائی اور سیاسی نقشہ آج آپ کے سامنے ہے۔ آخر میں‘ امریکہ نے جاپان اور جرمنی پر قبضہ کرکے اُن کے لیے نئے آئین‘ سیاسی نظام اور ریاستی اداروں کو ترتیب دے کر اپنے مفادات سے ہم آہنگ کیا۔ آج وہ کھلے عام‘ بہت دھڑلے سے اپنے نجات دہندہ کے ساتھ ہر موقع پر اور ہر عالمی مسئلہ پر ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ مشرقی وسطیٰ کے لیے بھی کچھ ایسا نقشہ پہلی عالمی جنگ کے بعد امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس نے ترتیب دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں نئی عرب ریاستیں وجود میں آئیں اور اقتدار بااثر قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں دے کر انہیں شاہی خلعتیں پہنا کر محلوں میں بسا دیا گیا۔ اس کے بعد کی تاریخ اور آج‘ ان کی دولت‘ وقار اور شان و شوکت کے چرچے دنیا کے ہر کونے میں عام ہیں۔ ایران میں بھی بادشاہت تھی مگر اس کے ساتھ متوازی طور پر مجلس ( پارلیمان) اور منتخب حکومت بھی کام کرتی تھی۔ ایرانیوں کی کوشش ایک آئینی بادشاہت قائم رکھنا تھا مگر جب ڈاکٹر مصدق نے تیل کے ذخائر کی برطانوی لوٹ مار کو ختم کرنے کی خاطر برٹش پٹرولیم کو قومیا لیا تو رضا شاہ پہلوی کے دن پھر آئے۔ آج تو سب مانتے ہیں کہ شواہد کے ڈھیر مؤرخین نے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں سے حاصل کر لیے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں دوسری طرف بادشاہوں کے خلاف کچھ حلقوں خصوصاً نوجوان فوجی افسروں کی طرف سے اوائل کے زمانے میں مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ مصر‘ شام‘ عراق اور آخر میں لیبیا میں شاہی خاندانوں کو ملک چھوڑنے پڑے۔ ایسے خطرات کے پیش نظر ایران اور سعودی عرب امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے دو مضبوط ستونوں کے طور پر ابھرے تاکہ مزاحمتی تحریکوں اور انقلابی عرب ریاستوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہاں تاریخ کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اصل بات کے لیے جگہ نہیں بچے گی۔ ایران کے بادشاہ کے خلاف کئی گروہ‘ جماعتیں اور نظریاتی ٹولے سرگرم رہے اور ہر قسم کی اذیتیں‘ جلاوطنیاں اور قید وبند کی صعوبتیں اور پھانسیاں برداشت کرتے رہے۔ فروری 1979ء میں آخر وہ بت ٹوٹ گیا اور قیادت اسلامی انقلاب کے آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ہاتھ میں آ گئی۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ایک طویل تاریخ‘ بے شمار واقعات اور بعد از انقلاب کے کئی سیاسی رنگ ذہن میں مون سون کے بادلوں کی طرح تیزی سے گزر گئے۔ صبح ایک عالمی اخبار کھولا تو شہ سرخی نے آئندہ آنے والے حالات کے مناظر کے کچھ دریچے وا کر دیے۔ امریکہ نے ایران کی تین بڑی جوہری تنصیبات پر حملے کئے ہیں ۔ بعد میں ٹرمپ نے فاتحانہ تقریر میں اپنی دھمکی کو دہرایاکہ امن بات کرو یا بڑی تباہی کے لیے تیار ہو جائو۔
ایران بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہے‘ مگر وہ بالکل بے بس نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کی قیادت کی طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ وہ جنگ کا دائرہ دیگر علاقائی ممالک تک پھیلائیں گے یا ہمسایہ ممالک میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائیں گے‘ یا پھر امن اور مذاکرات کی طرف جائیں گے۔ حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتے مگر جسے امریکہ امن مذکرات کہہ رہا ہے وہ بنیادی طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہو گی۔ تین باتیں سرفہرست ہوں گی۔ ایران کبھی بھی جوہری پروگرام کی طرف نہیں آئے گا‘ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی استعداد ختم کرے گا اور علاقے میں پھیلی ہوئی‘ اگرچہ اب بہت کمزور‘ طفیلی تنظیموں کو ختم کرے گا۔ بات شاید یہیں پر ختم نہ ہو۔جو کچھ گزشتہ دس دنوں میں ہوا ہے اور جس کے ممکنہ طور پر خدشات موجود ہیں‘میں یہ بات اس کے تناظر میں کہنا چاہتا ہوں۔ ان تمام عسکری‘ معاشی‘ ریاستی اور حکومتی وسائل کو‘ جو موجودہ حکومت کو اقتدار میں رکھ سکتے ہیں‘ کو ایک منظم اور مربوط طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے۔ اگر جنگ بندی امریکی شرائط پر نہیں ہوتی تو ان اہداف کو حاصل کرنے میں آپ کو تیزی نظر آتی دکھائی دے گی۔
اب تو کسی کے ذہن میں اگر کوئی شک ہے تو وہ دوبارہ سوچے کہ موجودہ نظام کو امریکہ‘ اسرائیل اور ان کے علاقائی اتحادی‘ جن کے نام ہم نہیں لے سکتے‘ تحلیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ فوجی اور پاسداران کے کلیدی افسروں کے ساتھ نامور جوہری سائنسدانوں کا اس تسلسل اور اس تعداد میں قتل صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی جاسوس ادارے‘ موساد نے حکومت مخالف قوتوں میں اپنی جگہ ایک عرصہ سے بنا رکھی ہے۔ امریکہ ہو یا اسرائیل‘ وہ براہ راست ایران کے اندر مداخلت کی نہ طاقت رکھتے ہیں اور نہ اس کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی حکمت عملی پرانی ہے‘ اور یہ نسخہ وہ ان تمام ممالک میں آزما چکے ہیں جہاں ریاستی فعالیت کی استعداد اور حکمران خاندانوں اور حکومتی اداروں کو تباہ کرکے نئی سیاسی صف بندی کے لیے جگہ ہموار کی گئی۔ انہیں اس سے کبھی کوئی سروکار نہ تھا اور نہ اب ایران میں ہو گا کہ وہاں خانہ جنگی ہوتی ہے یا ایک نیا انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ غزہ میں انسانیت سوز حالات دیکھنے اور سننے کی اب سکت نہیں رہی‘ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔
ایران دیکھیں اب کس راستے کا انتخاب کرتا ہے‘ لیکن جو بات میری سمجھ میں آتی ہے‘ وہاں حکومت کی تبدیلی اتنی آسان نہ ہو گی۔ مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ ایرانی قوم مشکل وقت کے اس چوراہے پر افغانوں‘ عراقیوں اور شامیوں کی طرح تقسیم ہوتی اور ایک دوسرے پر یلغار کرتی ہے یا تدبر سے خود اپنی ساخت میں ایسی تبدیلیاں لاتی ہے کہ اس کے مفادات عرب ممالک کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ اس سمت جانے میں شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ کوشش یہ بھی ہو گی کہ اس حکومت کے اندر سے اصلاح پسند عناصر سامنے لائے جائیں۔ وہ نہ ملیں تو استعماری طاقتیں اندر سے نظام کے خلاف گروہ پیدا کریں گی اور ان کے ہاتھ مضبوط کرکے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ خوف کی فضا میں میرے دل میں اس وقت خدشات ہی خدشات ہیں۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ اگر محسوس کریں کہ میں کیسی فضول باتیں کر رہا ہوں‘ حالات ایسے نہیں ہوں گے‘ تو درگزر کریں۔ میری تو خواہش ہے کہ ایرانیوں کو فتح نصیب ہو اور گزشتہ مضمون میں اس کا بھرپور اظہار بھی کیا تھا۔ میرے پڑھنے والوں کا غیر متاثر ردعمل دیکھ کر دل کڑھا بھی‘ لیکن حق اور سچ کی بات تو یہ ہے کہ ایران اس وقت مغربی استعماری طاقتوں اور ان کی صف اول کی ریاست‘ اسرائیل کے حملوں کی زد میں ہے۔ پورے عالم اسلام کے قائدین اور ہمارے حکمران لوٹی ہوئی دولت اور ناجائز اقتدار کے نشے میں مست ہیں۔ ایسی بے حسی تہذیب کی طرف سے تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی جو غزہ میں دیکھنے میں آئی ہے۔ اب ہم ایران کی تباہی پر خاموش ہیں۔ ایک بات کہوں گا‘ زور دے کر‘ ایران ایرانیوں کا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اپنے بارے میں اس مشکل وقت میں کیا فیصلہ کرتے ہیں: مزاحمت‘ سرنڈر یا تقسیم؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں