"RBC" (space) message & send to 7575

مظلوموں کی مظلوم آواز

ایک زمانے کے اخبار نویس‘ جنہیں اب زیادہ تر ہم صحافی کہتے ہیں‘ طاقتور حکمرانوں کے ہاتھ میں ڈنڈے کے طور پر کام نہیں کرتے تھے۔ ان کا قلم‘ زبان اور پیشہ سماج اور عام لوگوں کے مسائل سب کے سامنے رکھنے کیلئے تھا۔ کچھ اخبار اور رسائل بھی اس نظریے کی بنیاد پر آزادی کے اوائل کے سالوں میں منظر عام پر آئے۔ میاں افتخار الدین صاحب کو زر ودولت کی کمی نہ تھی‘ نہ ہی سماجی مقام اور شناخت کی۔ یہ سب کچھ ان کے پاس تھا۔ ترقی پسندانہ سوچ‘ قومی افق پر ابھرتے ہوئے نئے فکری زاویوں اور محکوم طبقات کی امنگوں کو سماجی اور سیاسی مکالمے کا حصہ بنانے کی غرض سے انہوں نے اپنی دولت ترقی پسند اشاعتی ادارے میں لگائی۔ پاکستان ٹائمز کا اجرا آزادی کے پہلے ہی سال میں ہوا اور اس کے ایڈیٹر فیض احمد فیض صاحب تھے۔ دوسرا اخبار اُردو میں 'امروز‘ تھا جو ہمارے طالب علمی کے زمانے میں پورے ملک میں مقبول ترین اخبار خیال کیا جاتا اور اس کا حلقہ اثر نوجوانوں اور روشن خیال طبقات میں کہیں زیادہ تھا۔ اس کے ساتھ میاں صاحب نے ہفت روزہ لیل ونہار بھی شروع کیا۔ ترقی پسند ادیب‘ شاعر اور کالم نگار ان اخباروں میں لکھا کرتے تھے۔ پاکستان ٹائمز کے دوسرے نامور ایڈیٹر مظہر علی خان صاحب تھے جن کے پائے کا لکھاری اور ایڈیٹر پھر کبھی ہم نے اس ملک میں ابھرنے نہ دیا۔ جب ایوب خان کی حکومت نے ان ترقی پسند اخباروں پر شب خون مارا تو مظہر علی خان ہی ایڈیٹر تھے۔ احمد ندیم قاسمی‘ منو بھائی‘ مسعود اشعر‘ اور فیض صاحب امروز کے ایڈیٹر بھی تھے۔ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مضامین اور اخبار کا معیار کیا ہو گا۔
ایوب خان نے دائیں بازو کے کسی اخبار یا رسالے کو نہ چھیڑا مگر ترقی پسند اس کی زد میں آ گئے اور نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر انہیں حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ پھر چراغوں میں کیا روشنی باقی رہنی تھی۔ پاکستان کے دو بہترین اخبار اور لیل ونہار جیسے ہفت روزہ کا گلا آمریت نے ایسا گھونٹا کہ آہستہ آہستہ وہ دم توڑ گئے۔ اخبار تو گئے مگر جو ظلم ان اخباروں کے بیچارے صحافیوں کے ساتھ ہوا‘ ان کے بارے میں آج کا نہ کوئی اخبار اور نہ کوئی صحافی کچھ لکھتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں ایسے ایک مظلوم صحافی کی داستانِ الم آپ کے گوش گزار کروں‘ ایک جلسے اور جلوس کا واقعہ جو خود ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے‘ کی طرف اشارہ کر دوں۔ آمریت کے خلاف کئی تحریکیں چلیں‘ ایک یہ بھی تھی کہ نیشنل پریس ٹرسٹ کو توڑ دو۔ وہ جلوس داتا دربار سے شروع ہوا‘ میں خود جھنڈا اٹھائے اس میں 1971ء میں شریک ہوا۔ صفدر میر صاحب (زینو) نے قیادت کی اور ہم پاکستان ٹائمز کے سامنے‘ جہاں کئی روز سے صحافیوں نے بھوک ہڑتال کی ہوئی تھی‘ تک آئے اور وہاں ٹرسٹ کو توڑنے کے بارے میں تقاریر ہوئیں اور قرارداد پاس کی گئی۔ مسیح اللہ جامپوری کالج میں داخلے کے وقت میرا پہلا دوست بنا۔ گورا چٹا‘ مناسب قد کاٹھ‘ لمبے شاعرانہ بال اور آنکھوں میں ہر وقت شرارت‘ مگر فکری طور پر ترقی پسند۔ ہم جب کالج میں آئے تو ابھی ایوب خان کے خلاف کوئی آواز نہ اُٹھی تھی بلکہ ہم نے 10 سالہ ترقی کے جشن کے سلسلے میں کئی جلسے بھی دیکھے‘ جن میں سے ایک ہمارے کالج میں بھی سجایا گیا۔ اسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو ایوبی دربار سے نکالے گئے تھے اور ادھر اُدھر اپنی سیاسی جگہ بنانے کی فکر میں تھے۔ جب کچھ طالب علموں کی طرف سے جھنگ اور ملتان میں معمولی ہنگاموں کے واقعات پیش آئے تو راولپنڈی‘ لاہور اور کراچی میں ترقی پسند طلبہ تنظیمیں جلسے جلوس کرنے لگیں۔ نوجوانوں کی بے چینی میں بھٹو صاحب کو سیاسی امید کی کرن نظر آئی۔ ان کا وہ بیان بھلا کیسے ہمارے دل سے اترے گا کہ ''میری سیاسی جماعت کا ہراول دستہ طالب علم ہوں گے‘‘۔ ابھی پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی۔ بھٹو صاحب نوجوانوں کے ترقی پسند حلقوں میں بہت مقبول تھے۔ ان سالوں میں مجھے ذاتی طور پر بھٹو صاحب کے سیاسی نظریات سے سخت اختلاف تھا‘ اور بعد میں جب وہ ڈیرہ غازی خان آئے تھے تو ان کے خلاف طالب علموں کے ایک جلوس کی اس درویش نے قیادت بھی کی تھی۔
مسیح اللہ جامپوری بھٹو صاحب کے اولین عقیدت مندوں میں سے تھا۔ کسی کو کچھ بتائے بغیر انہوں نے ایک خط بھٹو صاحب کو لکھا‘ اپنی خدمات پیش کیں اور شاید انہیں اپنے شہر آنے کی دعوت بھی دی۔ ہمیں تب پتا چلا جب اگلے ہی ہفتے مسیح اللہ کو ہاسٹل سے نکال دیا گیا کہ اس شرپسند کے یہاں ہوتے ہوئے امن وامان کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ وہ خط بھٹو صاحب تک تو سفر نہ کر سکا‘ خفیہ والوں نے البتہ پرنسپل کو تھما دیا اور اس حکم کے ساتھ کہ اسے کالج بدر نہیں کرنا تو کم از کم ہاسٹل میں نہ رہنے دیا جائے۔ میں بھی کچھ اور وجوہ کی بنیاد پر ہاسٹل چھوڑنے پر مجبور ہوا اور ہم دونوں کچھ فاصلے پر ایک نئی کالونی کے کسی مکان کے ایک کمرے میں دو چارپائیاں ڈال کر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ نہ کوئی کچن نہ کوئی اور کھانے پینے کا بندوبست۔ بس روٹیاں لے آتے اور کئی دن شکر پر گزارا کرتے۔ وقت گزر گیا۔ ایسے میں ہم نے ایف اے پاس کیا اور مسیح اللہ مزید تعلیم جاری رکھنے کے بجائے امروز ملتان میں اخبار نویسی میں مصروف ہو گیا۔ کئی اور بھی اس زمانے کے میرے دوست ہیں جن سے ابھی تک رابطہ ہے مگر جگری دوست مسیح اللہ ہی رہا ہے۔ وہ ان چند دوستوں میں سے ہے جن سے دل کی بات کرنا ایسے ہی ہے جس طرح کوئی خود کلامی کر رہا ہو۔ دنیائے صحافت کے لوگ زمانے کے ساتھ بدل گئے۔ کچھ نے اس پیشے کو تجارت اور آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا مگر مسیح اللہ جیسے دیانت دار‘ پیشہ ور اور زمینی سطح پر کام کرنے والے صحافی اپنے پیشے سے وفا کرتے کرتے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے سرکاری اخباروں کا‘ جو شروع کے زمانے میں عروج پہ تھے‘ حشر بھی وہی ہوا جو سرکاری تحویل میں لیے گئے دیگر اداروں کا ہوا۔ سرکاری اخبار اور وسائل کو کون پڑھتا اور کتنی دیر اپنا وجود برقرار رکھ سکتے تھے؟ سرکار کا مقصد بھی انہیں اپنے اہداف کے لیے استعمال کرنا تھا اور اس طرح وہ اپنا وقار اور اپنا وجود کھو بیٹھے۔ اخبار بند ہوئے تو کچھ صحافی دیگر اخباروں میں چلے گئے اور کچھ مسیح اللہ کی طرح آخر تک ان گرتی ہوئی دیواروں کو سایہ بنائے رکھنے پر مجبور رہے۔
حکومت نے اعلان کیا‘ جس طرح آج کل بھی سیاسی اعلانات ہوتے ہیں‘ کہ صحافیوں کو ہم اکیلا نہیں چھوڑیں گے‘ انہیں پنشن ملے گی۔ پرسوں ان سے اس بارے میں بات ہوئی تو ان کا جواب سن کر زمین پاؤں تلے سے سرک گئی یا ہو سکتا ہے کہ افسردگی میں دل بیٹھنے لگا ہو۔ آپ بھی سن لیں‘ ان کی پنشن مبلغ ایک ہزار پانچ سو دو روپے ہے۔ کبھی اس میں سالانہ اضافہ نہیں ہوا۔ کسی سے کہا اور کہلوایا تو ٹرسٹ کی طرف سے انہیں پانچ ہزار عبوری الاؤنس بھی ملتا ہے۔ سرکار نے اخباروں کی تو جان لے لی مگر یہ کہاں کی حکمرانی ہے کہ ان سرکاری اخباروں میں دہائیوں کام کرنے والے صحافیوں کا معاشی قتل عام بھی روا رکھیں۔ سنا ہے ٹرسٹ کی وہ پراپرٹی جو میاں افتخار الدین صاحب کی ملکیت تھی‘ قومیا لی گئی اور اس وقت اس کی قیمت اربوں میں ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں کے گِدھوں نے اس پر نظر جما رکھی ہو گی۔ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ صحافی برادری نے بھی کبھی ان پرانے‘ عمر رسیدہ صحافیوں کی حالتِ زار کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ ایسے صحافیوں کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی گزارتے اس دنیا سے کب کی رخصت ہو چکی ہے۔
مسیح اللہ جامپوری کئی اخباروں کیلئے ملک کے اندر اور باہر لکھتے رہے۔ کالم نگاری بھی کی‘ ریڈیو پر پروگرام بھی کیے کہ آخر جسم اور روح کا رشتہ بھی برقرار رکھنا تھا۔ مگر آخر کب تک کوئی کام کر سکتا ہے؟ افسروں اور طاقتور لوگوں کے طرزِ زندگی اور پنشنوں کی ہم کیا بات کریں مگر اس ملک میں اتنی تفریق‘ اتنی ناانصافی اور اتنی بے حسی ہے کہ جہاں مظلوموں کی آواز ہی اتنی مظلوم ہو تو یہ چند سطور کون سی زمین ہلا دیں گی‘ مگر لب سی کر بھی تو زندہ نہیں رہ سکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں