پنجاب کے ایک سرکاری بابو نے کچھ کتابوں پر بوجوہ پابندی لگا دی ہے۔ ایک اعتراض ایسا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی اس پر رویا جائے یا ہنسا جائے؟ فرماتے ہیں: طالب علموں کو ہندوستان کی تقسیم کے راہنما مہاتما گاندھی کے فرمودات اور اقوال پڑھائے جا رہے ہیں جس سے ہماری نئی نسل خراب ہو سکتی ہے۔
میرا تجربہ کہتا ہے‘ بیوروکریسی سے وہ کلاس ختم ہو چکی جو کبھی کتاب پڑھتی تھی‘ جس میں ایک دانشورانہ ٹچ تھا‘ جس کا ذہن کچھ کھلا تھا‘ جس سے آپ بات کرتے تو لگتا‘ کیسے نفیس اور پڑھے لکھے بندے سے سامنا ہو رہا ہے۔ اب زیادہ تر واسطہ اس سرکاری بیوروکریسی سے پڑتا ہے جس نے صرف درسی کتب پڑھیں یا پھر مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے لیے کچھ کتابیں رٹ لیں۔ اس کے بعد زندگی بھر اسی علم پر گزارہ کیا اور ایک طرح سے کنویں کے مینڈک بن کر جیے۔ جس طرح کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے آپ آج کی بیوروکریسی کی اہلیت، قابلیت اور ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کیا مذکورہ افسر کو علم ہے کہ گاندھی کے فرمودات کیا تھے اور نظریہ کیا تھا؟ اور یہ کہ گاندھی کو گولی کیوں ماری گئی تھی؟ وہ آر ایس ایس کے ہاتھوں کیوں قتل ہوا تھا؟
مجھے اس بابو کے گاندھی کے بارے لکھے گئے باب پر اعتراض سے بھارتی صحافی کلدیپ نیّر کی یاد آئی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا: مجھے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان میں کسی کو واقعی اس بات کا علم نہیں ہے کہ گاندھی کا قتل کیوں ہوا تھا؟
پورا بھارت جانتا تھا کہ گاندھی پاکستان کو اس کے حقوق دلوانے کے لیے نہرو اور سردار پٹیل سے لڑتے ہوئے اپنی جان پر کھیل گیا تھا اور کلدیپ نیّر حیرانی سے یہ پوچھ رہے تھے کہ پاکستان میں گاندھی جی کی پاکستانی کے لیے دی گئی قربانی کو تسلیم کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا ملا گاندھی کو بھارت میں مسلمانوں کی جان بچانے اور پاکستان کو چھیالیس کروڑ روپے کا حصہ دلوانے کی کوششوں قتل ہونے پر؟ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی حمایت گاندھی کو قتل کئے جانے کی واحد وجہ نہ تھی‘ اس قتل کے پیچھے اور بھی عوامل کارفرما تھے اور جہاں تک تعلق ہے بھارت میں مسلمانوں کی جان بچانے کی تو یہی کارِ خیر پاکستان میں بہت سے مسلمان لیڈر ہندو خاندانوں کو بچانے کے حوالے سے بھی کر رہے تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ گاندھی کے فرمودات کو سرکاری بابو نے اس وقت بین کیا ہے جب بھارت میں آر ایس ایس کی حامی حکومت ہے جس کے ایک رکن نے گاندھی کو گولی ماری تھی‘ لہٰذا بھارتی حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ہندوستان میں گاندھی اور نہرو کے خلاف فضا قائم کی جائے۔ دو تین سال پہلے تو گاندھی کے پتلے کو اس دن گولی ماری گئی تھی جس روز گاندھی کے قاتل کا جنم دن تھا۔ اس پر ہندوستان میں ردعمل بھی آیا تھا۔
سرکاری بابو کی کارروائی اپنی جگہ لیکن ہماری نسل کو گاندھی کے بارے میں دو تین باتوں کا علم ہونا چاہیے۔ اس میں شک نہیں گاندھی ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔ تقسیم سے بچنے کے لیے ہی انہوں نے قائد اعظم کو ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کی تجویز دی تھی‘ لیکن نہرو نہ مانا۔ وائسرائے ہند کو بھی گاندھی نے یہی کہا تھا کہ اس کی پارٹی بات ماننے کو تیار نہیں۔ یوں ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گاندھی جی ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے لیکن جب ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ایک نئی مملکت وجود میں آ گئی تو وہ پاکستان کے خلاف نہیں تھے۔ یہ اہم بات ہے جو ہمارے ہاں کم سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر کہا: اب جب پاکستان بن گیا ہے تو وہ اس نئی قوم اور ملک کے خلاف نہیں ہیں۔ کچھ تاریخی ریفرنسز کے مطابق انہوں نے جلد ہی کراچی کا دورہ کرنا تھا‘ لیکن کچھ وجوہ کی بنا پر وہ ایسا نہ کر سکے۔
میرے خیال میں پاکستانیوں کو گاندھی کے بارے میں کچھ معلومات ہونی چاہئیں۔ جیسے یہ کہ جب ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں نے اس کی بحالی کے لیے تحریک چلائی تو گاندھی تحریک چلانے والوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ تقسیم کے بعد دلی میں فسادات شروع ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مسلمانوں کی جانیں بچانے میں گاندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وائسرائے نے تقسیم کے بعد گاندھی کو لکھنو بھیجا تاکہ ان کے وہاں موجود ہونے کے سبب فسادات نہ ہوں۔ دلی کے اس وقت کے کمشنر کنور مہندر سنگھ بیدی اپنی آپ بیتی میں لکھا تھا: دلی کے مسلمانوں کی جانیں بچانے میں گاندھی جی کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ مسلمانوں کے محلوں پر پہرہ دے کر بیٹھے تھے جس کے باعث ہندو گروپ ان سے ناراض تھے۔ جوں جوں پاکستان سے ہندو مہاجرین کے قافلے دلی پہنچ رہے تھے اور سفر کے دوران ہونے والی خونریزی اور قتل عام کی کہانیاں سنا رہے تھے، دلی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے دلی میں رہنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا‘ لیکن گاندھی اس وقت بھی مسلمانوں کا سہارا بنے ہوئے تھے‘ بلکہ ایک رات گاندھی اور نہرو کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے محلوں پر حملہ ہو سکتا ہے تو نہرو وزیر اعظم کی حیثیت سے دوڑتا ہوا گیا‘ اور فسادات موقع پر رکوائے۔ مسلمانوں کو اتنا خوف تھاکہ وہ انہیں یعنی گاندھی کو شہر سے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔ جب حالات بے قابو ہونے لگے تو بہت سے مسلم گھرانے راتوں رات نکل گئے اور ان کے گھر خالی ہوگئے۔ اس پر گاندھی نے دلی کے کمشنر کو کہا کہ مسلمانوں کے گھروں میں پاکستان سے آنے والے ہندو مہاجرین کو نہ بسایا جائے‘ کسی مسجد پر قبضہ نہ کیا جائے۔ بالکل ایسی ہی ایک داستان پاکستان میں بھی رقم کی جا رہی تھی‘ جہاں مسلمان رہنما ہجرت کرنے والے ہندوئوں کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔
دوسرا بڑا امتحان اس وقت شروع ہوا جب کشمیر میں جنگ شروع ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جب اثاثے تقسیم ہو رہے تھے تو اس وقت پچھتر کروڑ روپے پاکستان کو ملنا تھے۔ ان میں سے بیس پچیس کروڑ روپے ادا کر دیے گئے‘ جبکہ پینتالیس کروڑ روپے باقی تھے۔ جنگ شروع ہوئی تو نہرو اور پٹیل نے پاکستان کی یہ رقم روک لی‘ جس پرپاکستان نے شدید احتجاج کیا۔ بات گاندھی تک پہنچی تو انہوں نے نہرو اور پٹیل کو الٹی میٹم دیا کہ وہ پاکستان کی رقم ریلیز کر دیں۔ جب دونوں نے ان کا مطالبہ نہ مانا تو احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کردی۔ اس پر ردعمل آنا شروع ہوا۔ نہرو اور پٹیل کا کہنا تھا‘ اگر پیسے پاکستان کو ریلیز کر دئیے تو وہ یہ پیسہ کشمیر میں جنگ کیلئے استعمال کرے گا؛ تاہم گاندھی کا کہنا تھا کہ ایک اصول کی بات تھی کہ پیسہ دینا تھا‘ تو دینا چاہیے۔ آر ایس ایس والے کئی وجوہ کی بنا پر پہلے ہی تائو کھائے بیٹھے تھے۔ بھوک ہڑتال پر اس کے ورکرز میں غصہ بڑھنے لگا۔ یوں انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا اور آخرکار انہیں گولی مار دی گئی۔
کلدیپ نیّر لکھتے ہیں کہ وہ اخبار میں کام کرتے تھے جب انہیں گاندھی کے قتل کی خبر ملی‘ وہ دوڑے دوڑے گئے تو ایک دیوار پر نہرو بیٹھے رو رہے تھے۔
ہندوستان میں آر ایس ایس کے ورکرز کئی وجوہ کی بنا پر گاندھی سے نفرت کرتے آئے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے سامنے ڈھال بن جاتے تھے۔ آج ایک سرکاری بابو کہتا ہے کہ گاندھی کے فرمودات پڑھ کر پاکستان کی نئی نسل خراب ہو رہی تھی۔
اس خطے کی بھی عجیب نفسیات ہے۔ آج ایک پاکستانی بابو سمجھتا ہے‘ گاندھی جی کے فرمودات سے پاکستانی نسل خراب ہو جائے گی جبکہ ہندوستانی آر ایس ایس کے ورکرز سمجھتے تھے‘ گاندھی مسلمانوں اور پاکستان کی محبت میں ہندوستان کی نئی نسل اور مستقبل کو خراب کر گیا تھا۔