نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ ان کا دوبارہ الیکشن جیتنا جدید دور کا کرشمہ سمجھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا برسوں سے ایک ہی نعرہ ہے کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔میں نے کسی سے پوچھا کہ امریکہ عظمت کے مینار سے گرا کب تھا کہ اسے دوبارہ اوپر اٹھانے کی ضرورت پڑ گئی؟ مجھے لگتا ہے شاید میں کچھ بھول رہا ہوں جس وجہ سے مجھے ٹرمپ کے اس نعرے کی سمجھ نہیں آ رہی۔ آخر امریکہ کو ایسا کیا ہو گیا ہے کہ اسے دوبارہ عظیم بنانے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ان کا ملک اب وہ نہیں رہا جو پہلے کبھی ہوا کرتا تھا‘ کیا اس کی عظمت گہنا گئی ہے‘ اس کی شان وشوکت میں کمی آ گئی ہے یا اب امریکی شہریوں کو بیرونِ ملک ایئر پورٹس یا شہروں میں وہ پروٹوکول اور عزت نہیں ملتی جو پہلے ملا کرتی تھی۔ جو بائیڈن کے چار سالوں نے امریکیوں کی عزت خاک میں ملا دی ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے؟
کہیں حقیقت یہ تو نہیں کہ اس سے پہلے جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما کے دور میں ہی امریکی اپنی عظمت اور عزت کھو بیٹھے تھے کیونکہ اوباما جس ایفرو امریکن بیک گرائونڈ سے اُٹھ کر وائٹ ہائوس میں آٹھ سال بیٹھے رہے‘ وہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ جن لوگوں نے ناول 'Roots‘ پڑھا ہوا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یورپ سے امریکہ تک افریقیوں کو کیسے غلام بنا کر منڈیوں میں لایا جاتا اور بیچا جاتا تھا۔ یہ غلام اپنے گورے مالکان کی خدمت کرتے رہتے تھے۔ اب ان غلاموں کی نسل میں سے ایک ''غلام‘‘ جو کچھ زیادہ پڑھ لکھ گیا تھا‘ اٹھ کر اپنے مالکوں کا صدر بن جائے تو کیسے برداشت کیا جائے گا۔ مجھے یاد ہے ایک برخوردار نے کہا تھا کہ ٹرمپ دراصل براک اوباما کے آٹھ سالوں کا ری ایکشن تھا‘ جو امریکی گوروں نے دیا تھا کہ کوئی بھی‘ جیسا بھی ہو‘ اچھا یا برا‘ انہیں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس کے کردار سے انہیں کچھ غرض ہے لیکن کم از کم اس کا رنگ گورا ہونا چاہیے۔ سفید فام لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں سے خود کو زیادہ ذہین اور بہتر سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی دوسرا حکمرانی کا حق نہیں رکھتا۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ براک اوباما کی وجہ سے ابھرا کہ اس کے صدر بننے کے بعد ایفرو امریکن اور ایشیائی نژاد کو نیا اعتماد ملا اور وہ بھی خود کو دوسروں کے برابر سمجھنے لگ گئے تھے۔ اس لیے شاید سفید فام امریکی‘ جن کا نمائندہ ٹرمپ ہے‘ اوباما کے دور کو اچھا نہیں سمجھتے۔ امریکہ کی منڈیوں میں بولی پر بکنے والے غلاموں کی نسلیں وائٹ ہائوس میں پہنچ گئیں۔ یہ بھلا کیسے برداشت ہو سکتا تھا؟ یقینی طور پر جب دنیا بھر سے مختلف رنگ اور نسلوں کے لوگ کسی ایک ملک میں اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ بہت سے تعصبات‘ لڑائیاں‘ جھگڑے‘ حسد اور رشک سمیت بہت کچھ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ جو پہلے امریکہ پہنچ جاتے ہیں وہ دوسروں کو وہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔ جو مسافر کسی ریلوے سٹیشن پر بڑی مشکل سے ٹرین پر چڑھ پاتا ہے‘ وہ پہلا کام یہ کرتا ہے کہ ٹرین کا دروازہ بند کر دیتا ہے تاکہ اگلے سٹیشن پر کوئی اور اندر داخل نہ ہو سکے۔ امریکہ کو چھوڑ دیں‘ جہاں دنیا بھر سے لوگ جانا چاہتے ہیں‘ آپ اپنے ہاں پاکستان میں رہنے والی قوموں کو دیکھ لیں۔ بہت ساری مشترکہ خوبیوں اور خامیوں کے باوجود مشکل سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ بھارت کی مثال لے لیں‘ کیا وہاں کا معاشرہ آسانی سے ایک دوسرے کو برداشت کررہا ہے؟ امریکہ میں بھی ایسے مسائل کا ہونا فطری بات ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کی بدولت لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑی تیزی سے پھیلی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو ہی دیکھ لیں۔ میرا خیال تھا کہ سوشل میڈیا ان ملکوں کی نوجوانوں نسلوں کو ایک دوسرے کے قریب لے کر آئے گا‘ دونوں ممالک کے لوگ براہِ راست ایک دوسرے کو دیکھ اور سمجھ سکیں گے۔ برسوں کی نفرت اور دشمنی‘ جو انہیں سیاسی لیڈران اور روایتی میڈیا نے فیڈ کر رکھی ہے‘ وہ کم ہو گی اور نوجوان نسل بہت سارے مسائل حل کر سکے گی‘ لیکن ہوا سب کچھ اس کے برعکس۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے دبی ہوئی نفرتوں نے دوبارہ سر اٹھایا اور اتنے خطرناک انداز میں کہ نفرتیں مزید بڑھ گئیں۔ ایک دوسرے کے خلاف جو نفرت بھرے سٹیٹس لگائے جاتے یا کمنٹس کیے جاتے ہیں وہ پڑھے بھی نہیں جا سکتے۔ روایتی میڈیا کے دور میں تو کچھ وقت لگ جاتا تھا ایک دوسرے کی سننے اور سمجھنے میں‘ لیکن اب تو ہر دوسرے لمحے آپ نے جواب دینا ہوتا ہے اور جواب بھی ایسا کہ اگلا کئی دن تک سو نہ سکے۔ سوشل میڈیا ایک دوسرے کے لیے ہمارے اندر چھپی نفرتوں کو سامنے لے آیا اور جب تک ایک دوسرے کو اذیت نہ دے لیں‘ ہمیں سکون نہیں ملتا۔ یوں سوشل میڈیا نے ہر معاشرے میں موجود فالٹ لائنز کو ابھارا ہے جس سے نفرت بڑھی ہے اور بات اب ہنگاموں اور جھگڑوں تک آ گئی ہے۔ برطانیہ میں پچھلے دنوں یہی دیکھا گیا‘ جب وہاں امیگرنٹس اور مقامی گوروں کے مابین جھگڑا نسلی فسادات کی شکل اختیار کر گیا۔ اس وقت پندرہ سو لوگ گرفتار ہیں جنہیں باقاعدہ سزائیں دی گئی ہیں۔ اور یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر ایک فیک نیوز سے شروع ہوا۔
سوشل میڈیا نے امریکہ میں 2016ء کے الیکشن میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور اب کی دفعہ تو ٹویٹر (ایکس) کا مالک ایلون مسک کھل کر ٹرمپ کا ساتھ دے رہا تھا۔ ایک چیز یہ سب بڑے لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے عام لوگوں کو ڈرا کر رکھنا ہے۔ لوگوں کو ڈر اور لالچ سے ہی اپنے گرد اکٹھا کر سکتے ہیں۔ انہیں ہر چیز سے ڈرائو۔ انہیں اپنے اردگرد پھرتے لوگوں سے خوفزدہ کرو اور پھر ان کا خوف دور کرنے کے لیے خود کو مسیحا بنا کر پیش کرو کہ میں ہی ہوں وہ سپر ہیومن جو ان سب خوفناک عفریتوں (Monsters) سے لڑوں گا۔ لوگ خود بخود آپ کے گرد جمع ہو جائیں گے کہ آپ انہیں دیکھے اَن دیکھے خطرات سے بچائیں گے۔ امریکہ ہو یا پاکستان یا دنیا کا کوئی اور ملک‘ آپ کو ہر سیاسی حکمران یہی کہتا ملے گا کہ سب کچھ برباد ہوگیا ہے‘ ہم بہت عظیم قوم تھے لیکن اب وہ تباہ وبرباد ہو گئے اور اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔ دنیا میں اب ہماری وہ عزت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ ہم ببرشیر تھے لیکن اب ایک گیڈر والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسی ہی باتیں جب پاکستانیوں کو بتائی جاتی ہیں اور بار بار بتائی جاتی ہیں کہ آپ عظیم قوم تھے لیکن آپ کو گیڈروں جیسے لیڈر ملے تو میں کچھ دیر سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ یہ کب کی بات ہے جب ہم عظمت کے مینار پر چڑھے ہوئے تھے اور اب پچھلے چند سالوں سے اس مینار سے نیچے اتر آئے ہیں؟ اسی طرح جب میں ٹرمپ سے سنتا ہوں وہ امریکہ کو دوبارہ گریٹ بنائے گا تو میں حیران ہوتا ہوں کہ امریکہ سے عظمت کا سٹیٹس کب اور کس نے چھین لیا ہے کہ اب وہ عظیم ملک نہیں رہا؟ امریکہ تو سرد جنگ ختم ہونے کے بعد‘ پچھلے 30‘ 35سال سے واحد سپر پاور بنا ہوا ہے۔ روس اور چین ابھی تک اس سٹیٹس تک نہیں پہنچے کہ امریکہ یہ سمجھے کہ وہ اپنی عظمت کھو چکا ہے۔ امریکہ آج بھی دنیا کو لیڈ کرتا ہے۔ پورا یورپ آج بھی امریکہ کی طرف دیکھتا ہے کہ سرکار آپ بتائیں ہم نے کیا کرنا ہے۔ دنیا کے نقشے بدلنے ہوں‘ جنگیں لڑنی ہوں یا کچھ اور‘ یہ سب فیصلے امریکہ سے ہوتے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگوں نے غربت دور کرنی ہو تو وہ امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ لوگوں کو قانونی‘ غیرقانونی طریقوں کے ذریعے بس امریکہ پہنچنا ہوتا ہے۔ امریکی ویزے اور ڈالر کی آج بھی بہت اہمیت ہے۔ امریکہ آج بھی عالمی سطح کے اہم فیصلے کرتا ہے۔ لیکن امریکیوں کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ وہ عظیم قوم نہیں رہے‘ انہیں ڈرایا گیا ہے۔ فطرتاً ہر انسان اور قوم خود کو دوسروں سے بہتر اور اچھا سمجھتی ہے۔ اسلئے یہ نعرہ جلدی مقبول ہوتا ہے کہ ہم عظیم قوم تھے اورہمیں دوبارہ عظیم بننا ہے۔ ٹرمپ نے یہی کچھ کیا۔ امریکیوں کو تارکینِ وطن سے ڈرایا کہ وہ آپ کی نوکریاں اور سکون کھا جائیں گے۔ میں سوچ میں پڑا ہوا ہوں کہ امریکی عظمت کے مینار سے کب نیچے گرے تھے کہ ٹرمپ انہیں دوبارہ اٹھا کر عظیم بنائے گا؟