ایسے وقت میں جب پورا پنجاب خوفناک قسم کی سموگ کا شکار ہے وزیراعلی پنجاب مریم نواز اور ان کے وزرا کو سوئٹزر لینڈ میں چہل قدمی کرتے دیکھ کر آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر یاد آئے۔
انگریز دِلّی کا کنٹرول سنبھال چکے تھے لیکن ہندوستان کے عوام کو وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ تو بس ریاست کے انتظامی معاملات دیکھ رہے ہیںسکہ تو اَب بھی مغل بادشاہ کا ہی چلتا ہے۔ بادشاہ کے احکامات کو بظاہر اہمیت دی جاتی تھی تاکہ بادشاہ کو یہ نہ لگے کہ سلطنت چھن چکی ہے اور کسی بھی لمحے جلاد کی تلوار شہزادوں کے سروں پر گر سکتی ہے۔ انگریزوں کی دنیا بھر میں فتوحات کے پیچھے دیگر وجوہات کے علاوہ ان کی دو‘ تین عادات تھیں جو اُنہیں دوسری قوموں پر برتری دلاتی تھیں۔ جیسے کسی بھی فوج کیلئے دوسرے ملک پر حملہ کرنے کیلئے ڈسپلن ضروری ہوتا ہے ویسے ہی انگریزوں کے اندر صفائی اور ماحولیاتی خوبصورتی کا جذبہ بھی تھا۔ جب دلی کا قبضہ مکمل ہو گیا اور انگریزوں نے ریاستی معاملات پر توجہ دینا شروع کی تو انہیں احساس ہوا کہ ہندوستان کے عوام میں جہاں دیگر مسائل ہیں وہیں وہ صفائی اور ماحولیاتی خوبصورتی کے قائل نہیں۔ ہر طرف گندگی اور آلودگی تھی۔ شہر میں جانوروں کے باڑوں کی وجہ سے پورے دلی میں بدبو پھیلی رہتی تھی جس سے بیماریاں پھیلتی تھیں۔ ایک دن انگریز سرکار نے بھینسوں کے باڑے دلی شہر سے باہر منتقل کر دیے۔ گوالوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی بھینسیں شہر سے باہر لے جائیں اور وہیں سے دودھ شہر میں لایا کریں۔ انگریزوں میں یہ خوبی تو تھی کہ وہ قانون پر عمل کرانا جانتے تھے‘ لہٰذا اس قانون پر بھی فوری عمل ہوا اور سب باڑے دلی سے باہر منتقل کر دیے گئے۔
ایک دن بہادر شاہ ظفر کے محل کے باہر شور مچ گیا۔ پوچھا گیا: یہ شور کیسا ہے۔ پتا چلا دلی کے گوالے احتجاج کرنے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ملازم بھیجا گیا کہ پتا کر کے آئے معاملہ کیا ہے۔ ملازم واپس آیا اور بادشاہ سلامت کو بتایا کہ گوالے باڑے دلی سے باہر منتقل کرنے پر احتجاج کررہے ہیں‘ کہہ رہے ہیں کہ وہ کس کے پاس جا کر فریاد کریں‘ ان کا بادشاہ تو بہادرشاہ ظفر ہے۔ باڑے دلی سے باہر منتقل کرنے سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے‘ آپ انگریز سرکار کو کہیں کہ ہمارے باڑے واپس دلی شہر میں منتقل کرے۔ بادشاہ سلامت فوراً حرکت میں آئے اور دلی کے انگریز صاحب کو لکھاکہ سب گوالے ان کی رعایا ہیں‘ آپ کے اس حکم نے انہیں مشکل میں ڈال دیا ہے‘ اپنا حکم واپس لیں‘ تمام گوالوں کو اپنی بھینسیں واپس شہر میں لانے دیں۔ ساتھ میں یہ پیغام بھی بھیجا کہ اگر ان گوالوں کو شہر میں واپس آنے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ بھی دلی چھوڑ کر گوالوں کے ساتھ خیمہ لگا کر رہنا شروع کر دیں گے۔ بادشاہ سلامت نے کہا کہ جہاں رعایا ہو گی وہیں بادشا ہو گا۔جب انگریز سرکار کے نمائندے تک وہ خط پہنچا تو ہلچل مچ گئی کہ بادشاہ سلامت ایک شاعر قسم کے حکمران ہیں‘ اپنی رعایا کی اس تکلیف پر تڑپ اٹھے ہیں‘ کیا پتا واقعی اپنا خیمہ بھینسوں کے باڑے کے ساتھ لگا کر وہیں رہنا شروع کر دیں۔ اس سے انگریزوں کی بدنامی ہو گی۔ باڑے دلی سے باہر منتقل کرنے کا حکم واپس لے لیا گیا اور تمام گوالوں کو واپس دلی شہر میں بھینسیں لانے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ کھل کر پورے شہر کو بدبو اور گندگی سے بھر دیں کہ یہ بادشاہ کا حکم تھا۔
اس فیصلے کے اچھے برُے پہلو ایک طرف رکھ کربادشاہ کی رعایا کیلئے محبت ملاحظہ فرمائیں کہ جہاں رعایا ہو گی وہیں بادشاہ ہوگا۔ اگر آپ حکمران ہیں تو آپ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی سمجھدار بندہ یہ ذمہ داری نہیں لے گا کہ کل اس کا حساب کتاب کون دے گا کہ آیا اس عہدے کے ساتھ انصاف کیا یا نہیں؟ عوام کی خدمت کی یا خاندان اور یاروں دوستوں کو عیاشی ہی کرائی؟ اس لیے ایسے وقت میں جب پنجاب کے عوام خوفناک سموگ کا شکار ہیں وزیراعلیٰ پنجاب کا سوئٹزر لینڈ چلے جانا عوام پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑے گا۔ بتایا گیا ہے کہ شاید کوئی میڈیکل چیک اَپ کرانا ہے۔ مان لیا صحت کا مسئلہ ہو گا لیکن ان کے ساتھ صوبائی وزرا کی موجودگی سے عوام کو یہی لگے گا کہ جب وہ سانس تک نہیں لے پا رہے‘ اس وقت ان کے حکمران بیرونِ ملک صحت افزا مقامات پر سیر سپاٹے کررہے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2010ء میں پاکستان میں خوفناک سیلاب کی تباہ کاریوں کے درمیان اُس وقت کے صدر زرداری اپنے خصوصی طیارے پر بیرونِ ملک دورے پر نکل گئے تھے اور یہاں پاکستان دنیا بھر سے امداد کی اپیلیں کررہا تھا۔ مان لیا کہ زرداری صاحب نے خود جا کر لوگوں کو ریسکیو نہیں کرنا تھا لیکن لوگوں کو ایک تسلی رہتی ہے کہ ان کے حکمران کم از کم ان کے درمیان موجود ہیں اور ان کی تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ عوام کا دکھ اس بات سے ہی کم ہو جاتا ہے کہ ان کا حکمران اگر مدد نہیں بھی کر پا رہا تو ان کے آنسو تو پونچھ رہا ہے یا بہادر شاہ ظفر کی طرح دلی کا محل چھوڑ کر گوالوں کے ساتھ شہر سے باہر اپنا خیمہ لگانے کو تیار ہے۔ حکمرانی ایک ذمہ داری کا نام ہے نہ کہ عیاشی کا۔
پنجاب میں سموگ کے قبضہ جمانے کی ذمہ دار گزشتہ حکومتیں‘ سرکاری افسران‘ سیاستدان اور خود عوام ہیں۔ لاہور شہر کو جس طرح جگہ جگہ سے کھودا گیا اور نئی نئی تعمیرات کی گئیں‘ اس نے شہر کو برباد کر کے رکھ دیا۔ شہر کے اردگرد سینکڑوں ہاؤسنگ سوسائٹیز شروع کر دی گئیں۔ رئیل اسٹیٹ اکلوتا بزنس بن گیاجہاں خالی جگہ نظر آئی وہیں بورڈ لگا کر زمین کی خرید و فروخت شروع ہو گئی۔ لاہور کا والٹن ایئرپورٹ بند کر کے وہاں کی زمین تعمیراتی کمپنیوں کو دے دی گئی کہ یہاں پلازے کھڑے کریں۔ مطلب لاہور میں کوئی خالی جگہ نہیں رہنے دی گئی جہاں سے شہر سانس لے سکتا۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے نام پر آسمان پر چھتیں ڈال دی گئیں۔ اب سموگ کا الزام بھارتی پنجاب کی ہواؤں اور لاہور کی ٹریفک پر ڈالا جارہا ہے۔ کوئی شہر کی کھدائی اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بات نہیں کر رہا جو ساری ہریالی کھا گئی ہیں۔ دنیا بھر میں ٹریفک ہوتی ہے لیکن وہاں سرسبز میدان‘ کھیت اور باغات بھی ہوتے ہیں جو ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں فیشن بن چکا ہے کہ جو بندہ اٹھتا ہے وہ کہیں بھی خالی سرکاری زمین دیکھ کر پہلی بات یہی کرتا ہے کہ اسے بیچ کر ملکی قرضے ادا کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ہمارا پاپولر نعرہ ہے کہ فلاں کلب‘ جم خانہ‘ گورنر ہاؤس‘ ڈپٹی کمشنر ہاؤس‘ فلاں سرکاری گھر‘ فلاں سرکاری زمین بیچ کر قرض اتار دیں۔ ہمارے ہاں سب کے پاس خالی زمین کا ایک ہی حل ہے کہ اسے بیچ دو۔ کبھی نہیں سوچا کہ اس کلب یا جم خانہ یا گورنر ہاؤس یا ڈی سی ہاؤس کو ایک بلڈر خریدے گا اور ان پر بلند بانگ عمارتیں کھڑی کرے گا۔ جم خانہ کلب ہوں یا یا ڈی سی ہاؤسز‘ کم از کم یہاں سرسبز درخت تو موجود ہیں‘ جہاں سے شہر سانس لے سکتا ہے۔ ہم عجیب قوم ہیں جو خالی جگہیں یا سرسبز علاقے بیچ کر قرض اتارنا چاہتی ہے‘ اور اس ملک کو کنکریٹ اور جنگلے میں قید کرنا چاہتی ہے۔ پھر سب روتے ہیں کہ شہر زہر اگل رہا ہے۔ لاہور میں شریفوں کا یہ ترقی ماڈل بُری طرح پٹ چکا ہے‘ لیکن پھر بھی روز نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کھل رہی ہیں۔
دوسری طرف کون بھلا والٹن ایئر پورٹ بلڈرز کو دے گا‘ جو وزیراعظم عمران خان نے دے دیا تھا کہ وہاں بلند عمارتیں کھڑی کر دو کہ اس سے ترقی ہو گی۔ پھر شہر کا ماحول زہر نہ اگلے تو کیا کرے؟ بہرحال مریم نواز نے اگر راج کرنا ہے تو بہادر شاہ ظفر کی طرح کریں جو اپنے آخری دنوں میں اپنے گوالوں کے ساتھ کھڑا تھا اور ان کے ساتھ شہر سے باہر خیمہ لگا کر رہنے کو تیار تھا۔ لاہور کے شہری اگر سموگ نگل رہے ہیں تو آپ بھی اپنے حصے کی سموگ نگلیں۔