پاکستانیوں کو کیا لگتا ہے‘ عالمی عدالت میں ہر فیصلہ ان کے خلاف کیوں آتا ہے؟ عالمی عدالتیں بھی ہمارے خلاف، ورلڈ بینک عدالت بھی ہمارے خلاف۔ معاملہ ثالثی میں چلا جائے تو بھی فیصلے ہمارے خلاف۔ بات صرف یہاں تک نہیں رہ جاتی۔ عدالتیں یہ بھی حکم دے دیتی ہیں کہ پاکستان کا دنیا بھر میں اگر کوئی ہوٹل ہے، جہاز اڑ رہا ہے یا پھر بینک اکائونٹ ہے یا جائیداد وہ فوری طور پر ضبط کر لی جائے اور اسے بیچ کر پیسے پورے کر لیں۔
کون سا مقدمہ ہے جو ہم نہیں ہارے۔ ان عالمی مقدموں پر ہم پاکستانی غیرملکی وکیلوں کو اب تک تقریباً 60 ارب روپے کے قریب فیسیں دے چکے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے اٹارنی جنرل اور دیگر افسران کے ان برسوں میں لندن کے ان گنت دوروں، سفر، قیام و طعام اور ڈیلی الائونسز اس کے علاوہ ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ لگتا ہے ہم ڈالروں کی جو بھیک مانگتے ہیں وہ ان عالمی کمپنیوں کو ہرجانے ادا کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔
تو مسئلہ کہاں ہے؟ ہم مظلوم اور دنیا ظالم ہے یا ہم بھولے ہیں اور دنیا بہت تیز ہے اور وہ ہمیں چونا لگا جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے۔ نہ دنیا بہت ظالم ہے اور نہ ہم بھولے ہیں۔ سارا مسئلہ ہمارے ملک اور قوم کی ریپوٹیشن کا ہے۔ ایف اے ٹی ایف اس کی بڑی مثال ہے کہ ہمیں دنیا کس آنکھ سے دیکھتی ہے۔
ہمارے اندر بیٹھے لوگ بھی اپنے ایک پائو گوشت کیلئے پورا اونٹ ذبح کر دیتے ہیں۔ ان معاہدوں کو اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے بیوروکریٹس اور حکمرانوں نے ایسے معاہدے کیے جن کا سیدھا فائدہ ان عالمی کمپنیوں کو ہونا تھا۔ براڈشیٹ معاہدہ سب سے بڑی مثال ہے۔ سرکاری حکام مفت میں کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کا حصہ ہوتا ہے جو یہ بیرون ملک وصول کرتے ہیں جہاں انہوں نے اپنے بچوں کو سیٹل کیا ہوتا ہے۔ آپ کو ان بابوز کے بچے کینیڈا، امریکہ، نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ میں ملیں گے۔ اخراجات ان کے والدین پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر رہ کر انہی ڈیلوں سے کماتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے کئی بڑے افسروں نے بچوں سمیت کینیڈا کی شہریت حاصل کر رکھی ہے۔ یہ افسران پاکستان میں پراپرٹی ڈیلروں سے مل کر زمینوں‘ پلاٹس پر قبضوں، جوا خانوں اور دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے ماہنامہ مال بنا رہے ہیں‘ اور یہ سب باہر ان کی جائیدادیں خریدنے کے کام آرہا ہے۔ ہمارے بابوز کو ایسے کنٹریکٹ سوٹ کرتے ہیں۔
کچھ ماہ پہلے والے ترکی کے بجلی گھر کارکے جہاز سکینڈل کو اٹھا کر دیکھ لیں‘ وہ کلاسک کیس ہے کہ کیسے ہم سب نے مل کر اپنی عزت خاک میں ملائی اور جب موقع ملا کہ دنیا بھر میں اپنی عزت بحال کریں تو ہم نے ترکوں کی عزت کو ترجیح دے کر خود کو بدنام کرانا مناسب سمجھا۔ دنیا کا ہر ملک اور ہر فراڈیا ہمیں چونا لگا گیا اور ہم نے کھل کر چونا لگوایا۔ بدلے میں ملک کی بدنامی ہوئی اور حکمرانوں اور بابوز نے مال بنا لیا۔
کارکے جہاز سکینڈل کو دیکھ لیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کرائے کے بجلی گھروں کا عجیب و غریب منصوبہ شروع کیا اور دو سو ارب روپے رکھے گئے۔ ایک پارٹی کو سندھ میں ایک بجلی گھر کا ٹھیکہ ملا تو اس نے معاہدے کے تحت چودہ فیصد ایڈوانس لیا جو اربوں میں تھا۔ کچھ ماہ بعد وہ پلانٹ‘ مشنیری وہاں سے اکھاڑ کر ایک اور جگہ شفٹ کر دی اور اس کے اربوں پھر ایڈوانس لے لیے۔ اسی طرح کارکے سکینڈل میں ہوا۔ چھ سو ملین ڈالرز کے اس سب سے بڑے کنٹریکٹ میں سب نے حصہ لیا۔ ترک بھائیوں نے کہا: کون سے ہمارے جیبوں سے جا رہا ہے‘ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بڑوں سے ڈالرز ایڈوانس لے کر انہیں آف شور کمپنیوں کے ذریعے کھولے گئے بینک اکائونٹس میں ان کا حصہ ٹرانسفر کرتے رہے۔ وہ ڈیل جو چھ سو ملین ڈالرز پر طے ہوئی تھی کہ سوا دو سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی‘ چند میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہ کر سکی۔ رئیلٹی ٹیسٹ ہوا تو اس میں فیل۔ معاہدہ کینسل کرنے کے بجائے ہمارے پاکستانی بابوز نے اسے جعلی سرٹیفکیٹ لے دیاکہ لیں جی ٹیسٹ کامیاب ہوگیا اور اسے ایک سو ستر ملین ڈالرز سے زیادہ ادائیگیاں کر دی گئیں۔ ایک یونٹ چالیس روپے میں پڑا۔ سپریم کورٹ نے ایکشن لیاکہ بجلی کا ایک یونٹ پیدا نہیں کیا اور اس کمپنی کو 170 ملین ڈالرز کی ادائیگی بھی ہو چکی تھی۔ کمپنی معاہدہ ختم کرنے اور پیسے لوٹانے پر تیار ہوگئی لیکن پھر بعض افسران نے اس کمپنی کی مدد کی اور مشورہ دیا کہ تم عالمی عدالت میں جاکر ہم پر مقدمہ کرو۔ نیب کے افسران نے اس کمپنی کو سرٹیفکیٹ میں لکھ کر دے دیا کہ اس کنٹریکٹ میں کرپشن نہیں ہوئی۔ اس کاغذ کو لے کر ترکوں نے ہم پر عالمی عدالت میں مقدمہ کیا اور ہمارے ہی بابوز کی مدد سے جیت بھی گئے۔ نواز شریف نے لاکھ برے کام کیے ہوں گے لیکن اس سکینڈل کی انکوائری کا حکم دے کر اچھا کام کیا۔ انکوائری افسران نے دنیا بھر سے ریکارڈ نکلوایا تو پتہ چلا کہ کیسے سب نے اس ڈیل میں حصہ بٹورا تھا۔ جب عالمی عدالت میں یہ ثبوت پیش کیے گئے تو ترکوں کی دوڑیں لگ گئیں کیونکہ ترکوں نے بیان حلفی لکھ کر دیا تھا معاہدہ کرپشن کرکے نہیں لیا تھا۔ اب ثبوت ہاتھ لگ گئے تھے کہ کیسے کرپشن کی گئی۔ اس کے بعد عالمی عدالت نہ صرف سوا ارب ڈالرز جرمانہ معاف کرتی بلکہ ترک کمپنی کو بلیک لسٹ بھی کرتی۔ اس سے بڑھ کر ہماری دنیا میں عزت بحال ہوتی کہ پاکستان اور پاکستانی قوم بزنس اور ٹھیکوں کے لیے بری قوم نہیں ہے۔ ہم نے وہ موقع گنوایا اور ترکوں سے آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کرکے وزیر اعظم عمران خان نے الٹا سارا کریڈٹ طیب اردوان کو دے دیا۔ اردوان صاحب ترکوں کے ہیرو بنے اور پاکستانیوں کے بھی۔ ہم وہی چور کے چور رہے۔ یہ وہی ترک دوست تھے جو ہمارے خلاف عالمی عدالت میں گئے، سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کرایا اور پھر دنیا کے مختلف شہروں میں پاکستان کے اثاثے تلاش کرنے لگ گئے تاکہ انہیں اٹیچ کرا کے قبضہ کرا لیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے چند انکوائری افسران کا جنہوں نے ان ترکوں کی کرپشن پکڑی اور سوا ارب ڈالرز جرمانے سے ہم بچے۔
ہم نے پیسے بچا کر عزت ترکوں کو دے دی۔ ہم عزت اور پیسہ دونوں بچا سکتے تھے۔ کچھ عالمی سطح پر اپنی ریپوٹیشن بحال کر سکتے تھے‘ لیکن یہ موقع ضائع کر دیا گیا۔ رہی سہی کسر اب براڈشیٹ سکینڈل نے پوری کر دی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی ریپوٹیشن یہ بن گئی ہے کہ اس ملک کے لوگ بے ایمان ہیں، ان کے کھلاڑی لارڈز میں چند ہزار پونڈز لے کر میچ بیچ دیتے ہیں، یہ لوگ کریڈٹ، بینک فراڈز میں ملوث ہیں‘ دہشت گرد ہیں۔ کسی ملک کی ریپوٹیشن بھی ایسے مقدمات میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ ہم لاکھ اچھے ہوں، ہم لاکھ حق سچ پر ہوں ہم یہ عالمی مقدمے ہارتے رہیں گے جیسے ابھی براڈشیٹ ہارا ہے۔ براڈشیٹ کی سینکڑوں دستاویزات پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جہاں ہمارے بابوز ان کمپنیوں ساتھ ملے ہوئے تھے وہیں جج بھی یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ یہ پاکستانی ایسے ہیں اور انہوں نے ہی کچھ نہ کچھ غلط کیا ہوگا۔ اب خبر آرہی ہے کہ اگلی باری نیویارک میں پاکستانی ہوٹل روزویلٹ کی ہے جسے ریکوڈیک معاہدے پر ہونے والے چھ ارب ڈالرز جرمانے پر attach کیا جارہا ہے۔ مارچ میں اس پر فیصلہ ہوگا۔
کارکرے جہاز سکینڈل میں ہمیں ترکوں کو جھوٹا ثابت کرکے اپنی کچھ عالمی ساکھ بحال کرنے کا موقع ملا تھا اللہ بھلا کرے ہمارے وزیراعظم کا جنہوں نے وہ پگ اپنے سر پر سجانے کے بجائے طیب اردوان کے سر پر رکھ دی کہ ہم تو پہلے ہی بدنام ہیں‘ ہمارا کیا ہے‘ بس ہمارے ترک بھائی بدنام نہ ہوں کہ کیسے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو سو ارب ڈالرز کا چونا لگاتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔