"RKC" (space) message & send to 7575

چالاکو ماسی بننے کا انجام

ویسے تو اب حیران ہونے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ اب تو وہی حالت ہو چکی ہے کہ 'درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘۔ اس ملک میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے جا چکے ہیں کہ اب کچھ بھی ہو‘ کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیرؔ۔ اب تو اِک عادت سے ہوگئی ہے کہ کچھ دن تک اگر کچھ نیا نہ ہو تو عجیب سا لگتا ہے۔
پہلے تو سیاسی جماعتوں کا اللہ بھلا کرے کہ ہر روز پہلے حکومت کے خلاف محاذ گرم کئے رکھا اور ہر روز کی گولہ باری سے ہمارے دلوں کو خوب گرمائے رکھا۔ آج کل وہ ایک دوسرے پر جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں۔ پھر داد دیں حکومت کو‘ وہ بھی روز ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتی ہے کہ دل کیا روح تک لرز اٹھتی ہے۔ پھر خیال آتا ہے کچھ بھی ہو ہم اب ہر قسم کے انتشار کے عادی ہو چکے ہیں۔ افغان جنگ کے اثرات نے ہمیں ایک سگریٹ کی طرح بنا دیا ہے جو سلگتا رہتا ہے اور آخر میں راکھ بن کر گر جاتا ہے تو ہم دوسرا سگریٹ سلگا لیتے ہیں۔ ایک ڈبی میں ہم بند ہیں‘ ہمیں کبھی سیاست دان تو کبھی غیر سیاسی حکمران نکال کر سلگا لیتے ہیں اور ہم ہیں کہ سلگتے رہتے ہیں۔ کچھ دیر کیلئے ہم ڈپریس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر نارمل زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ شاید انسان کی سب سے بڑی خوبی اس کا بڑے سے بڑا دکھ جھیل کر دوبارہ نارمل زندگی کی طرف چلتے رہنا ہے‘ لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ بندہ کوشش بھی کرے کہ بھول جائے‘ تو بھول نہیں پاتا۔
ایک طرف ہم اپنے ملک میں ہر روز قوانین بدل رہے ہیں‘ نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے اعتراضات کو دور کر سکیں‘ بلیک لسٹ سے بچ سکیں یا گرے لسٹ سے نکل سکیں‘ مگر پھر ایک ہی ہلے میں سب کچھ ملیامیٹ ہو جاتا ہے‘ جب پوری ریاست کو چند لوگ یرغمال بنا لیتے ہیں اور ملک کا وزیر اعظم‘ وزیر داخلہ‘ آئی جی پولیس‘ چیف سیکرٹری تک غائب ہو جاتے ہیں۔ سب آر پی اوز‘ سی سی پی اوز اور ڈی پی اوز تک غائب ہو جاتے ہیں اور فیلڈ میں صرف ایس ایچ اوز اور اہلکار ہی بچ جاتے ہیں جو اس بپھرے ہوئے پُر تشدد ہجوم کا سامنا کرتے ہیں۔ نہ ان کی ہجوم کو ہینڈل کرنے کی کوئی تربیت ہے‘ نہ ان کے پاس وہ ضروری سامان یا انتظامات جو انہیں تشدد پر آمادہ ہجوم سے بچا سکیں۔ ہجوم کے پتھرائو سے بچنے کا ان کے پاس کوئی سامان نہیں اور انہوں نے بپھرے ہجوم کو روکنا ہے جو توڑ پھوڑ کر رہا ہے اور عوام اور پولیس دونوں پر تشدد پر اُترا ہوا ہے۔
جب سے ماڈل ٹائون لاہور کا واقعہ ہوا ہے‘ اِس طرح کے ہنگاموں میں پولیس کو نہ بندوقیں دی جاتی ہیں نہ پولیس اب گولی چلانے کو تیار ہے۔ زیادہ سے زیادہ ربڑ کی گولیاں‘ آنسو گیس یا لاٹھی چارج۔ اوپر سے پولیس پر یہ دبائو اور خوف کہ ہجوم میں کوئی بندہ مر گیا تو ان پر قتل کے مقدمے ہوں گے۔ پولیس کے پاس اس موقع پر کوئی آئینی تحفظ بھی نہیں‘ لہٰذا وہ مجمعے سے مار کھاتے رہتے ہیں لیکن طاقت کا استعمال نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی قسم کا ہجوم بڑے آرام سے پولیس کو آگے لگا لیتا ہے اور پوری قوم حیرت سے دیکھتی رہتی ہے کہ ہمارے محافظوں کا یہ حال ہے جبکہ اعلیٰ انتظامیہ غائب ہے اور ملک بھر کو لاک ڈائون کر دیا گیا ہے۔ اس طرح شہریوں پر خوف اور بے بسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ پھر بھی داد دینا پڑے گی ان پولیس اہلکاروں اور ایس ایچ اوز کو جو اعلیٰ سیاسی قیادت اور افسران کے خوف کے باوجود اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر باہر نکلے اور انہوں نے حالات کا سامنا کیا۔ دو پولیس مین شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی۔ تین دن تک سڑکوں پر یہ سلسلہ چلتا رہا اور ملک کے حاکم غائب رہے‘ مگر عوام کو ان سے کیا گلہ؟ عمران خان صاحب تحریک لبیک کے پچھلے دھرنے میں کہہ چکے تھے کہ ان کے ورکرز احتجاج میں شامل ہونے کو تیار ہیں اور شیخ رشید صاحب کہہ چکے ہیں کہ تنظیم کے مطالبے نہ مانے تو تنظیم والے پورے ملک میں حشر اُٹھا دیں گے۔ وہی شیخ صاحب جو تحریک کے ترجمان بنے ہوئے تھے اب وزیر داخلہ ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے وفاقی وزرائے داخلہ (سابق) بریگیڈیر (ر) اعجاز شاہ اور وزیرِ مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے تحریک کے ساتھ ہاتھ سے لکھے تحریری معاہدے پر دستخط کئے تھے جس میں حیران کن قسم کی شرائط حکومت نے تسلیم کی تھیں۔ گستاخیوں کا معاملہ فرانس میں پیش آیا تھا جس پر پورے عالمِ اسلام نے احتجاج کیا اور مذمت کی۔ اب اس سے آگے پاکستان جیسا ملک کیا کر سکتا تھا؟ لیکن محض وقتی طور پر دبائو سے نکلنے کے لیے ایسی ایسی شرائط مان لی گئیں جن کے بارے پہلے دن سے ہی پتا تھا کہ پوری نہیں کی جا سکتیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دے اور پاکستانی سفیر کو فرانس سے واپس بلا لے۔ یا یہ کہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے باہر نکالنے کے لیے پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کرائی جائے اور ہنگاموں میں گرفتار تمام مظاہرین کو رہا کر دیا جائے اور جو توڑ پھوڑ میں شامل تھے ان پر مقدمے ختم کر دیے جائیں۔ جب حکومت اس طرح کے معاہدے کرے گی تو یقین جانیں وہ خود ہی ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرے گی۔ دنیا کو میسج دیا جا رہا ہو گا کہ چند ہزار مظاہرین ان پر بھاری ہیں اور ایک نیوکلیئر ملک کا وزیر داخلہ مظاہرین سے ایسا معاہدہ کر رہا ہے جس پر عمل کرنے کی صورت میں پاکستان کو عالمی سطح پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے اور بہت پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ یا تو ہم جان بوجھ کر یہ کام کرتے ہیں کہ تحریک طالبان کی دکان ٹھنڈی ہونے کے بعد ہمیں کچھ نئے کھلاڑی چاہئیں جن کو دکھا کر مغرب اور امریکہ کو ڈرایا جائے اور پھر وہی پرانے دنوں کی طرح ڈالروں کی ریل پیل شروع ہو۔ مغرب کو دکھایا جائے کہ اُن کی وجہ سے پاکستان کس عذاب سے گزر رہا ہے اور اس کی مدد کی جائے جیسے تحریک طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ اور برطانیہ کر رہے تھے اور ہر سال اربوں ڈالر کی امداد مل رہی تھی۔ تو کیا ہمارے ملک کی عزت اور وقار اتنے سستے ہیں کہ ہم جان بوجھ کر حالات کو اس نہج پر لے آتے ہیں کہ پہلے کچھ دن دنیا بھر کا میڈیا دکھاتا ہے کہ ایک نیوکلیئر ملک میں اس وقت ہنگاموں کا راج ہے‘ نہ ریاست ہے نہ ریاست کی رِٹ اور نہ ہی کہیں پولیس یا دیگر سکیورٹی ادارے۔ پھر جب ہماری جگ ہنسائی مکمل ہو جاتی ہے تو اچانک ہماری غیرت جاگ اٹھتی ہے اور ہم مظاہرین کے خلاف رینجرز کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر ایک اور معاہدہ کرتے ہیں جس میں وہ سب مظاہرین رہا کر دیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی نیا معاہدہ سائن کر لیا جاتا ہے جس کا ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہونا‘ بس مظاہرین کو وقتی طور پر ٹالنا ہوتا ہے اور ہم خود کو بڑا چالاک سمجھتے ہیں کہ دیکھا کیسی چالاکی کی اور جو شرائط تھیں وہ کہنے کی حد تک مان لیں‘ ہم نے کون سا اِن شرائط پر عمل کرنا ہے۔ مطلب ہم کوئی چالاکو ماسی ٹائپ لوگ ہیں۔
سوال یہ ہے یہ چالاکو ماسی ٹائپ ہماری حرکتیں ہمیں کس نہج پر لے آئی ہیں؟ کیا ملک بزدل حکمرانوں اور ان کی چالاکو ماسی ٹائپ حرکتوں سے چلتے ہیں؟ ہم دنیا سے بھی چالاکیاں کر رہے ہیں اور اپنے آپ سے بھی۔ مجھے نہیں پتا دنیا کا ان چالاکیوں سے کیا بگڑے گا لیکن ہم اپنا بہت کچھ بگاڑ بیٹھے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں