میں سفر کرنے کے معاملے میں سست ہوں۔ہاں‘ اگر چلا جائوں تو اور بات ہے۔
فروری2020 ء میں آخری دفعہ امریکہ کا سفر کیا تھا۔ وہ بھی ڈاکٹر عاصم صہبائی کے اصرار پر کیونکہ ان کا پاکستان سے گیا ہوامریض عبدالرحمن کینسر کے آخری مرحلے میں تھا اور وہ چاہتے تھے میں اس سے آخری دفعہ مل لوں کہ یہ بھی اس نوجوان کی خواہشات میں سے ایک تھی۔اوکاڑہ سے علاج کی غرض سے گئے اس نوجوان سے ہونے والی آخری ملاقات کی تفصیل بہت جلدی میری ایک کتاب کا حصہ ہوگی جو میں ان لوگوں پر لکھ رہا ہوں جن سے میں زندگی میں ملا اور ان سے متاثر ہوا۔ کچھ بیس‘ پچیس لوگوں کی فہرست ہے جو عام لوگ تھے لیکن ان کی کسی نہ کسی بات نے مجھ پر اثر کیا، میری سوچ بدلی اور عملی زندگی میں مجھے فائدہ ہوا۔
جب کورونا شروع ہوا تو میں نے سوچا ہوا تھا کہ میں کورونا ٹیسٹ کروانے کے بعد جہاز میں ماسک پہن کر نہیں جائوں گا۔ اس وقت ہی نکلوں گا جب سب کچھ نارمل ہوگا۔ یوں چند دوستوں کے اصرار کے باوجود میں باہر نہیں گیا۔میرا یہ بھی ماننا ہے کہ سفر بھی آپ کی قسمت میں لکھا جاتا ہے۔ میرے اکثر سفر کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہ تھے‘ اکثر سفر کا بہانہ خودبخود بنتا چلا گیا۔ اب بھی یہی کچھ ہوا۔ امریکہ سے ڈاکٹروں کی تنظیم کی طرف سے بھی دعوت نامہ آیا ہوا تھا کہ اگلے ماہ نیو جرسی میں کانفرنس ہورہی ہے‘ آپ تشریف لائیں تو خوشی ہوگی۔ میں ٹھہرا سست آدمی ‘ بہت شکریے کے ساتھ معذرت کر لی کہ اب کون اتنا طویل سفر کرے لیکن جب مسقط عمان سے امیر حمزہ کا میسج آیا کہ ایک کانفرنس ہورہی ہے اور آپ تشریف لائیں تو فوراً ہامی بھرلی۔ اس کی بڑی وجہ ایک تو امیرحمزہ خود ہیں جو عمان حکومت کی وزارت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ایک شاندار آدمی ہیں ۔ مسقط میں امیر حمزہ کی بڑی عزت ہے۔ پاکستان کے شہر فیصل آباد سے تعلق ہے اور پچھلے تیرہ‘ چودہ برس سے وہ عمان میں ہیں۔عربی ایسی بولتے ہیں کہ مقامی بھی حیران ہوتے ہیں۔
ہامی بھرنے کی بڑی وجہ عمان تھا۔ میں پہلی دفعہ عمان دسمبر 2019ء میں گیا تھا۔ مجھے کہنے دیں کہ بہت کم ملک اور شہر ہوں گے جو پہلی نظر میں آپ کو اچھے لگیں۔مسقط بھی دل کو بھایا۔دوست جنید مہار نے میسج کر کے پوچھا: کیسا ملک ہے؟میں نے گاڑی سے ہی پچاس سکینڈز کی ایک وڈیو بنا کر انہیں واٹس ایپ کی تو ایک سطری جواب آیا ''یہ تو بڑا شانت ملک ہے‘‘۔
چھوٹی چھوٹی عمارتیں اور شاندار آرکیٹیکٹ اور منظم لیکن سڑکوں پر بہت کم ٹریفک۔ اندازہ کریں کہ پاکستان میں بیٹھا بندہ جو کبھی عمان نہ گیا ہو وہ صرف پچاس سکینڈز کی وڈیو سے یہ اندازہ لگا لے کہ یہ تو شانت ملک ہے تو سوچیں آپ وہاں خود موجود ہوں تو کیا تاثرات ہوں گے۔
پچھلی دفعہ وہاں گیا تو اپنے علاقے کے خادم حسین جھکڑ سے وہاں ملاقات ہوگئی جو عمان میں پاکستان کے ایک ادارے کے کنڑی منیجر ہیں۔ سادہ اور درویش انسان۔ انہوں نے پوچھا: اپنے گرائیں کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ تو میں نے کہا: دور کہیں صحرا میں لے جائیں‘ ہم صحرائے تھل کے کناروں پر رہنے والوں کو صحرا میں ہی سکون ملے گا۔جھکڑ صاحب نے گاڑی نکالی۔ وہ خاموشی سے گاڑی چلاتے رہے اور میں تاحدِ نظرپھیلے صحرا اور اس کے درمیان سے د ور تک گزرتی سڑک کو گم سم خاموشی سے دیکھتا رہا۔ جھکڑ صاحب جیسے ہمسفر بھی کم دیکھے۔ انہیں اندازہ ہوا کہ مسافر اس سفر میں خاموش ہے تو وہ بھی خاموش رہے۔ کہیں چائے پینے کیلئے رکے تو رکے ورنہ سڑک اور صحرا۔ چلتے چلتے رات ہو گئی تو بولے: کیا خیال ہے‘ رات یہیں رک جاتے ہیں۔وہیں ایک پاکستانی بزنس میں احسان الحق سے ملاقات ہوگئی۔ رات کو گپ شپ لگی تو پتا چلا کہ وہ پاکستان میں مری‘ گلیات کے علاقوں میں ہوٹل بنا رہے تھے۔ عمان میں ان کا بڑا کاروبار تھا۔ اتنی جوانی میں ایک کامیاب پاکستانی کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔اگلے دن پھر گاڑی پر واپس مسقط لوٹ آئے۔ دو سال گزر گئے لیکن وہ طویل سفر اندر سے نہ نکلا۔ اب کی دفعہ جونہی مسقط کا سوچا تو خادم حسین جھکڑ کا خیال آیا کہ پھر صحرا کی سیر کو چلیں گے۔ فون کیا تو ہنس کر بولے: سائیں میں تو ایئر پورٹ پر لاہور کی ٹکٹ لے کر سوار ہورہا ہوں۔ منگل تک واپسی ہے۔ رک جائیں منگل تک۔مسقط میں امیرحمزہ بولے: بھائی جان یہ موسم صحرا میں جانے کا نہیں‘ پچھلی دفعہ آپ نومبر‘ دسمبر میں آئے تھے۔
جب میں نے امیر حمزہ سے پوچھا کہ عمان کیسے اتنا ترقی یافتہ بن گیا تھا اور ہر طرف آپ کو شانتی نظر آتی ہے اور پورے خطے میں اس کے تمام ملکوں سے تعلقات اچھے ہیں۔ عمان کا رول اب پیس میکر کا تھا۔ سعودی عرب اور قطر کے مابین اگر مسئلہ پیدا ہوا تو بھی عمان نے رول ادا کیا۔ عرب ورلڈ میں یہ شاید واحد ملک ہے جس کے تمام ملکوں ساتھ تعلقات اچھے ہیں‘ سب اس پر اعتماد کرتے ہیں۔امیر حمزہ کا کہنا تھا یہ سب عمان کے بادشاہ سلطان قابوس کا کمال تھا۔ سلطان نے جدید عمان کی بنیاد رکھی اور اس کی فارن پالیسی اس طرح کی بنائی کہ آج عمان کے دنیا بھر میں دوست ہیں اور دشمن کوئی نہیں۔
اس طرح اندرونی طور پر معاملات ٹھیک رکھنے کے لیے مختلف قبائل کو ساتھ ملایا۔ انہیں اپنی حکومت میں عہدے دیے۔ انہیں عمان میں شیئر دیا کہ آپ بھی حصہ دار ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سلطان قابوس‘ جو لندن سے پڑھ کر آئے تھے‘ نے عمان کو نئے راستوں پر ڈالا۔ دبئی کے ساتھ کچھ بارڈر ایشوز تھے جنہیں ساتھ بیٹھ کر حل کیا کہ اگر ہم یہاں آپس میں لڑتے رہے اور سارا بجٹ لڑائی جھگڑے میں خرچ کیا تو عوام اور ملک کی کیا ترقی ہوگی۔ کھانے کی میز پر نقشہ بچھایا اور وہیں بیٹھ کر عمان اور دبئی کے حکمرانوں نے نقشے پر لکیریں کھینچ کر سرحدی مسئلہ وہیں بیٹھے بیٹھے حل کر لیا۔ دونوں ملکوں میں کسی نے رولا نہ ڈالا کہ وہ دیکھیں بیچ دیا، ہماری عزت خاک میں ملا دی یا فلاں زیادہ زمین لے گیا اور ہمیں کم ملی۔ ابھی یمن اور سعودی عرب کے درمیان جنگ بندی میں بھی خفیہ سفارت کاری عمان ہی نے کی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب خطے کے ممالک اپنے معاملات حل کرانے کے لیے عمان کی مدد چاہتے ہیں۔ عمان کی اس پالیسی کا اثر وہاں کے انسانوں اور خطے کی ترقی پر پڑا ہے۔ آپ کو عام عمانی انتہائی محبت اور پیار سے ملتا ہے۔ اس کی گردن میں وہ سریا نہیں ہے جو آپ کو کچھ اور عرب ملکوں کے لوگوں میں ملتا ہے۔ پاکستان کا نام سن کر وہ ڈرتے نہیں یا اُن کے ماتھے پر کوئی شکن نمودار نہیں ہوتی۔ پاکستانی وہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں جو بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور بہت اعلیٰ اور کامیاب بزنس مین ہیں اور پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں عمان میں ترقی کرنے کے وہ مواقع ملے ہیں جو شاید ہمارے ہاں بھی نہ ملتے۔ اپنے کزن بھائی یاسر ملک کے دوست اسد ملک‘ جن کا تعلق لاہور کی ایک لیگل فیملی سے ہے‘ سے ملاقات ہوئی تو بتانے لگے وہ لندن چھوڑ کر مسقط شفٹ ہوئے۔ آٹھ برس گزر گئے آج تک انہیں افسوس نہ ہوا بلکہ یہاں بہت خوش ہیں۔ اردو کے شاعر قمر ریاض سے ملاقات ہوئی تو وہ خوش تھے اور بتانے لگے کیسے ان کا اپنا بزنس دن رات ترقی کررہا ہے۔ایک اور نوجوان پاکستانی بزنس مین محمد زاہد شکور سے ملاقات ہوئی تو انہیں عمان میں خوش اور مطمئن پایا۔ جو بھی ملا تھا وہ خوش اور مطمئن ملا۔
میں اب ایک دفعہ پھر مسقط میں تھا جہاں خوبصورت نیلے پانیوں سے بھرا سمندر، طویل قامت پہاڑ اور تاحد نگاہ پھیلے صحرا ایک دوسرے کو گلے لگا کر کھڑے تھے۔