"RKC" (space) message & send to 7575

بادشاہ اکبر‘شہزادہ سلیم اور انار کلی

پاکستان میں لوگ ہمیشہ پریشان رہے ہیں۔ کون سا دن ہوگا جب اس ملک میں بڑے پیمانے پر خوشیاں منائی گئی ہوں اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہو کہ چلیں کچھ ریلیف تو ملا ؟
میرا خیال ہے جب پاکستان نے اولمپکس میں ہاکی کا فائنل جیتا یا پھر کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا تو وہ دن ہوں گے جب لوگ اپنے سارے غم بھول گئے ہوں گے۔اس کے بعد لوگوں نے مسلسل مشکلیں دیکھی ہیں اور انہیں لگا ہے کہ ہر گزرتا دن ان کے لیے مشکلات لایا ہے۔لیکن آج کل لوگوں کا بہت برا حال ہے۔ لوگوں سے امید چھن چکی ہے۔ اب مجھے جو بھی ملتا ہے وہ پریشان ہے۔ حالات تو پہلے بھی اتنے اچھے نہ تھے‘ مگر شہباز شریف حکومت ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے اوپر سے ارشد شریف کے بے رحمانہ قتل نے لوگوں کو بری طرح ڈپریس کیا ہے۔ کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ ارشد شریف جیسے ہنستے مسکراتے خوبصورت انسان کو کوئی اس بے رحمانہ انداز میں قتل کرسکتا ہے۔ میرے ملتان کے دوست شکیل انجم نے اپنی فیس بک پر ایک کمنٹ لکھ کر بات ہی ختم کر دی کہ ارشد شریف کو قتل کرنے والے اور کچھ نہیں اس کے چہرے کی معصوم مسکراہٹ کا ہی خیال کر لیتے۔اس نے اقتدار کے بے رحم کھیل میں کسی کا کیا بگاڑ لینا تھا۔
ارشد شریف کی بے رحمانہ موت پر سب کو ایسے لگا ہے کہ جیسے ان کے گھر کا فرد دنیا سے اُٹھ گیا۔ لوگوں کے دل میں جتنا دکھ اور افسوس ارشد کی بے رحمانہ موت پر دیکھا ہے شاید ہی اس سے پہلے دیکھا ہو گا۔ چلیں‘ اس کے خاندان‘ بچوں یا دوستوں کا غم اپنی جگہ لیکن ارشد کا دکھ بڑے چھوٹے‘ امیر غریب سب نے دل میں محسوس کیا ہے۔ جو ملا دکھی ملا اور ارشد شریف کی موت نے ان سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔یوں لوگوں کے اندر بے بسی مزید گہری ہوئی ہے۔ ان حالات میں عمران خان کے لانگ مارچ پر ہونے والے حملے نے بھی خان کے حامیوں کے اندر غم و غصہ کی کیفیت پیدا کی ہے۔عمران خان بھی سلو ہونے کے موڈ میں نہیں۔ انہیں بھی لگتا ہے ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ وہ اپنی کشتیاں جلائے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف شریف خاندان نے اپنی بیٹھک لندن میں سجا لی ہے جہاں خاندان کے چند گنے چنے افراد نئے آرمی چیف کا انتخاب کررہے ہیں۔ اس خاندان کی ترجیح ہمیشہ سے ''اپنا بندہ‘‘ اور اس کی خاندان کے ساتھ ''وفاداری‘‘ رہی ہے۔ ان کے نزدیک پروفیشنل ازم یا کریکٹر سے زیادہ وفاداری اہم رہی ہے اور ہمیشہ درمیان میں ضامن ڈال کر وہ آرمی چیف لگاتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد اپنے زخم چاٹتے پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ یہ عہدہ کسی کو دینا اپنی ذاتی فیور سمجھتے ہیں۔ ان شریفوں کی خوش قسمتی کہیں یا بدبختی کہ نواز شریف نے سب سے زیادہ آرمی چیف لگائے اوران کا ایک ہی معیار تھا کہ چیف ان سے کتنا وفادار رہے گا اور ہر دفعہ وہ چیف اپنی تمام تر کوشش کے باوجود شریف خاندان کے طے کردہ وفاداری کے معیار پر پورا نہ اتر پایا اور اپنے لگائے ہوئے چیف کے ہاتھوں ہی نواز شریف کو دو دفعہ جیل جانا پڑا۔موقع تو قدرت نے آصف علی زرداری (وزیراعظم گیلانی) اور عمران خان کو بھی دیا تھا کہ وہ بھی کوئی چیف اپنے قلم سے لگاتے لیکن دونوں دفعہ انہوں نے نیا چیف لگانے کے بجائے توسیع دینے میں اپنا بھلا سمجھا۔زرداری اس معاملے میں شریفوں اور عمران خان سے زیادہ سمجھدار نکلے اوراپنے چیف سے وفاداری کی توقع نہیں رکھی لہٰذا پی پی پی نے پانچ سال پورے کر لیے چاہے ایک وزیراعظم کی قربانی دینا پڑی۔ دراصل زرداری‘ شریفوں اور عمران خان میں جو بڑا فرق ہے وہ سیاسی اپروچ کا ہے۔ زرداری صبر کرسکتے ہیں۔ ماہر شکاری کی طرح وہ شکار کا انتظار کر سکتے ہیں۔مجھے یاد ہے 2003ء میں جب میں سیاستدانوں کے پروفائل لکھ رہا تھا تو اس سلسلے میں آصف علی زرداری سے پنڈی کی احتساب کورٹ میں ملا تھا۔ وہ نیب کی قید میں تھے اور پیشی پر آئے ہوئے تھے۔ دو صحافی دوست محسن رضا اور شعیب بھٹہ بھی موجود تھے۔ میں نے جہاں زرداری سے دیگر باتیں پوچھیں وہاں ان سے یہ بھی پوچھا کہ جیل سے انہوں نے کیا سیکھا ؟انہوں نے ایک ایسا جواب دیا جس کی میں توقع نہیں کررہا تھا۔اپنی مونچھوں کے اوپر سے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بولے: جیل آپ کو کچھ اور سکھائے نہ سکھائے لیکن صبر کرنا سکھا دیتی ہے۔ان لوگوں کے ساتھ گزارہ کرنا سکھا دیتی ہے جنہیں آپ سخت ناپسند کرتے ہیں۔
میری آنکھوں میں ابھرتی حیرانی دیکھ کر زرداری نے کہا: سائیں جب آپ کو بڑے پروٹوکول والے عہدے سے اتار کر جیل لے جایا جاتا ہے تو چند روز تو آپ کی اکڑ آپ کا ساتھ دیتی ہے لیکن پھر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ جیل سپرنٹنڈنٹ چھوڑیں وہ تو بہت بڑی توپ چیز ہے‘ آپ تو اپنے سیل کے باہر پہرہ دینے والے عام سپاہی کے رحم و کرم پر ہیں۔ کھانا‘ پینا‘جاگنا سونا یا لائٹ بجھانا سب کچھ اس کے کنٹرول میں ہے اور آپ نے اپنی اکڑ ختم نہ کی تو وہ رات آپ کو سونے نہیں دے گا چاہے آپ کتنے بڑے پھنے خان ہوں۔ وہ اور کچھ کرے نہ کرے‘ رات کو جب آپ گہری نیند میں ہوں تو وہ آپ کے سیل کے آگے سے گزرتے ہوئے اپنا بوٹ زور سے فرش پر مار دے یا باہر سے سیل کے اندر تیز لائٹ کا بٹن دبا دے‘ زور سے کھانسی کرنے لگ جائے تو آپ اس کاکیا بگاڑ لیں گے؟اس لیے آپ کو جیل میں صبر کرنا پڑتا ہے اور دھیرے دھیرے یہی صبر آپ کے مزاج میں شامل ہوجاتا ہے۔ آپ پھر ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ بھی گزارہ کر لیتے ہیں اور ان سے وقتی دوستیاں بنانی پڑتی ہیں۔میں حیرانی سے زرداری صاحب کے یہ فرمودات سن رہا تھا کہ کتنی گہری باتیں ہیں‘ آپ کو ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ بھی گزارہ کرنا پڑتا ہے اور صبر وہ خوبی ہے جو زندگی میں کامیابی کی کنجی سمجھی جاتی ہے۔
عمران خان اور نواز شریف کا اپنے چیف کے ساتھ ڈیل کرنے میں صبر کم نظر آئے گا۔نواز شریف دو دفعہ جیل میں رہے ہیں لیکن وہ جب وزیراعظم بنے تو جرنیلوں کے ساتھ گزارہ نہ کرسکے‘ جیسے زرداری اور گیلانی نے کیا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نواز شریف آصف زرداری اور گیلانی کی نسبت کم عرصہ جیل میں رہے لہٰذا ان کا جیل سے سیکھنے کا وقت کم تھا یا کچھ لوگوں میں سبق سیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ ہاں جیل پہنچ کر نواز شریف نے صبر ضرور دکھایا‘ جب دونوں دفعہ انہیں جیل بھیجا گیا تو وہ پہلے جدہ اور بعد میں لندن بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور برسوں بعد موقع پاتے ہی پاکستان پہنچ گئے۔اب بھی وہ یہی کچھ کررہے ہیں۔
عمران خان میں دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کی نسبت صبر کی کمی ہے۔ وہ ''نہ کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے‘‘ پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر میں وزیراعظم نہیں رہا تو پھر رہنے کسی اور کو بھی نہیں دوں گا۔ یوں اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے وہ ان قوتوں سے ٹکر لے بیٹھے ہیں جنہوں نے سیاستدانوں کو اقتدار میں لانا ہوتا ہے۔ لیکن خان سمجھتے ہیں کہ وہ اب ان کی حمایت کے بغیر بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں کیونکہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔یوں پاکستان اب حالت ِجنگ میں لگ رہا ہے۔اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ سیاسی لڑائیاں اب ذاتی لڑائیاں بن چکی ہیں۔اب کوئی کسی کے ساتھ رعایت کرنے کو تیار نہیں۔ نئے چیف کی تقرری شریف خاندان اور عمران خان کے درمیان وہی صورتحال پیدا کر چکی ہے جو فلم ''مغل اعظم‘‘ میں اکبر بادشاہ اور شہزادہ سلیم کے درمیان پیدا ہوگئی تھی۔ اکبر بادشاہ نے انارکلی کو کہا تھا ''سلیم تمہیں مرنے نہیں دے گا اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے‘‘۔ شریف کہتے ہیں: ہم ہر صورت نیا چیف لگائیں گے‘ خان کہتا ہے وہ کسی صورت نہیں لگنے دے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں