ایک دفعہ پھر پورا خطہ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ ایک دفعہ پھر دونوں ممالک اپنی توپوں اور جنگی طیاروں کو تیار کر رہے ہیں۔ اچانک ہی معاملات اتنے بگڑے ہیں کہ لگتا ہے اب کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھا ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ پھر دونوں کو چھڑا لیا جاتا ہے‘ کچھ عرصہ سکون سے گزر جاتا ہے اور پھر وہی ٹکرائو۔ کبھی کبھار سمجھ نہیں آتی کہ آخر کیا چیز ہم دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لے جاتی ہے۔ آپ لوگ کہیں گے کہ کشمیر کا مسئلہ بنیادی ہے جس پر چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ یقینا کشمیر کا مسئلہ بھی ہوگا لیکن اب نفرتیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ کشمیر کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ کوئی بھی چھوٹا موٹا واقعہ دونوں ملکوں کو ایک لمحے میں بھڑکا سکتا ہے۔ اگر لیڈرشپ جنگ نہ بھی کرنا چاہے تو عوام‘ سیاسی مخالفین یا میڈیا آپ کو جنگ کے قریب لے جاتے ہیں۔
ماضی میں بھارتی قیادت جنگ کے قریب آکر پیچھے ہٹتی رہی ہے‘ اگرچہ وہاں کی اپوزیشن اور عوام چاہتے تھے کہ جنگ لڑی جائے‘ جیسے ہمارے ہاں بھی کچھ عناصر یہ چاہتے ہیں۔ بھارت ہمیں سبق سکھانا چاہتا ہے اور ہم بھارت کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھار تو مجھے لگتا ہے کہ ہزار سال سے زیادہ ہم ایک دوسرے کو سبق سکھانے کی کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ بھارتیوں کو لگتا ہے کہ عرب اور سینٹرل ایشیا سے آنے والی اقوام نے ان پر قبضہ کر کے ان پر حکومت کی اور وہ ان کے محکوم بن کر رہے۔ اب وہ سب سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ انگریز دور کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو ہندوستان کے مزاج کو صرف دو حکمرانوں نے دیگر کی نسبت بہتر سمجھا اور اس کے مطابق چلانے کی کوشش کی۔ ایک اکبر بادشاہ تھا اور دوسرے تقسیم کے بعد نہرو صاحب تھے۔ دونوں کو علم تھا کہ ہندوستان کو سیکولر انداز ہی میں چلایا جاسکتا ہے اور دونوں نے انہی خیالات کے تحت حکومت کی۔ اورنگزیب نے تو یہ بات بالکل نہیں سمجھی۔ اگرچہ اس نے پچاس سال حکومت کی لیکن وہ حکمرانوں اور عوام کے مابین اتنا بڑا فرق پیدا کر گیا کہ اس کی موت کے کچھ برسوں بعد ہی مغلوں کی سلطنت بکھرنا شروع ہوگئی۔ آج بھی بھارت میں اکبر کو اپنا سمجھا جاتا ہے لیکن اورنگزیب سے نفرت کی جاتی ہے۔ یوں ایک ہزار سال کی حکمرانی اور کئی کوششوں کے باوجود ہندوستانیوں اور باہر سے آئے لوگوں میں مستقل تعلق نہ بن سکا۔ وہی حاکم اور محکوم والی سوچ حاوی رہی اور آج بھی ہے۔ اگرچہ کانگریس کی لیڈرشپ نے سیکولرازم کو بچانے کی کوشش کی لیکن اِس وقت حالت یہ ہے کہ بھارت میں گاندھی اور نہرو کی فلاسفی کو اب کوئی سننے کو بھی تیار نہیں اور اب وزیراعظم مودی کی فلاسفی چل رہی ہے۔ وہاں اب نہرو اور گاندھی کو بھی برا بھلا کہا جاتا ہے اور اس کام میں بھارتی نوجوان پیش پیش ہیں۔ اب وہاں بھی سیکولر ازم کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
اگرچہ ماضی میں دونوں ملکوں نے جنگیں لڑی ہیں لیکن جو نفرت کی سطح ان حالیہ برسوں میں نظر آرہی ہے‘ وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ سوشل میڈیا کی ایجاد نے دنیا بھر میں نفرت اور جنگی جنون کو ہوا دی ہے اور معاشروں کو زہر آلودہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں ملکوں کے اندر لوگوں کو تقسیم کیا ہے وہیں دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف اقوام میں دشمنیاں بھی دوبارہ کھڑی ہوگئی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے بہت دور کر دیا ہے۔ دوری کی حد تک بات پھر ٹھیک تھی لیکن یہاں تو لوگ ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر جا کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ لوگوں کے اندر کتنی نفرت بھر چکی ہے۔ آپ کھل کر کوئی بات نہیں کرسکتے۔
اب جو ماحول پاکستان اور بھارت کے مابین بن رہا ہے اس پر تشویش ہونا لازمی امر ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کہ وہ ان کے ہاں دہشت گردی کرا رہے ہیں۔ پچھلے ماہ پاکستان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا‘ جس میں بہت سی انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ اس وقت پاکستان نے یہی کہا تھا کہ اس کے پیچھے بھارت ہے اور ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔ اب بھارت نے تو کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے۔ یہ انتظار تک نہیں کیا کہ کوئی انکوائری ہی کر لی جائے۔ کوئی ملک اپنی داخلی سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ آسان کام یہی ہے کہ دشمن ملک کا نام لے دو۔ اپنا احتساب کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے مابین دوریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ پہلے کرکٹ تعلقات ختم ہوئے ‘ پھر ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا دینا بند کیا گیا‘پھر تجارت بند ہوئی‘ فضائی رابطے بند ہوئے اور اب آخری کام رہ گیا تھا جو کبھی جنگوں میں بھی نہ ہوا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان نے بھی جوابی طور پر سخت اقدامات کیے ہیں جن سے لگتا ہے کہ معاملات اب خرابی کی طرف ہی جائیں گے۔ ماضی میں ہم دیکھتے تھے کہ دنیا بھر کے چند اہم ممالک درمیان میں پڑ جاتے تھے اور صلح صفائی ہوجاتی تھی۔ پوری دنیا کو خوف رہتا تھا کہ دونوں نیوکلیئر ملک ہیں‘ کہیں ان کی کشیدگی خطے میں بڑی تباہی نہ لے آئے۔ دونوں ممالک اسی وجہ سے کبھی جنگ کی طرف نہیں گئے۔ نیوکلیئر خدشات کی وجہ سے بڑی حد تک سکون رہا ہے لیکن جس طرح کی اب صورتحال بن رہی ہے‘ لگتا ہے شاید اب معاملات اتنی جلدی نہ سنبھل پائیں۔ اب جو حالات بن چکے ہیں‘ اس کو دو تین ممالک ہی نارمل کرسکتے ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ جب بھی پاکستان اور بھارت جنگی حالت تک پہنچے تو انہی دو ملکوں نے سفارتی کوششوں سے معاملہ سنبھالا۔ دیکھا جائے تو تاریخی طور پر امریکیوں نے ان مواقع پر ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔ 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اندرا گاندھی نے مغربی پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا مگر صدر نکسن نے بھارت کو اس منصوبے سے باز رکھا۔ کارگل جنگ کے موقع پر بھی بل کلنٹن نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد واجپائی صاحب کو فون کر کے معاملے کو ٹھنڈا کیا اور دونوں ممالک ایک بڑی جنگ سے بچ گئے۔ 2008ء میں ممبئی حملوں کے وقت بھی یہی صورتحال بن گئی تھی۔ پھر فروری 2019ء میں ہم نے دیکھا کہ جب پاکستان اور بھارت کے مابین ایک محدود فضائی جنگ ہوئی ‘ پاکستان نے بھارت کا جہاز مار گرایا اور اس کا ایک جنگی پائلٹ گرفتار کر لیا جسے اگلے روز بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس صورتحال کو نارمل کرنے میں اُس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ نے فوری طور پر مداخلت کی تھی جس سے بڑی جنگ ٹل گئی۔ سعودی حکمران بھی ان کوششوں میں مدد دیتے آئے ہیں۔
ایک چیز تو ثابت ہو چکی کہ پاکستان اور بھارت ابھی اتنے میچور نہیں ہوئے کہ وہ بڑوں کی طرح اپنے معاملات خود حل کرسکیں۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ اگر امریکہ پاکستان اور بھارت کو کہتا ہے تو دونوں پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور فوراً باہمی تعلقات ٹھیک کر لیتے ہیں لیکن آپس میں اتنی بداعتمادی ہے کہ ایک دوسرے سے بات کر کے وہ کام نہیں کرتے جو امریکہ یا سعودی عرب کے کہنے پر کر لیتے ہیں۔ مجھے اُس دن سے ڈر لگتا ہے جس دن امریکی یا سعودی یا دیگر ممالک پاکستان اور بھارت کی بڑھتی ہوئی جنگی کیفیت سے تنگ آکر کہیں گے کہ اب بہت ہوگیا‘ تم دونوں ایک دوسرے سے دو دو ہاتھ کر ہی لو۔ اُس دن بھارت اور پاکستان کیا کریں گے؟