دنیا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ پاکستان اور بھارت کو کیسے ایک دفعہ پھر جنگ لڑنے سے باز رکھے۔ یہ پہلی دفعہ ہے نہ ہی آخری دفعہ۔ دونوں ملکوں کا یہ رویہ بہت پرانا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا جواز تلاش کرتے رہتے ہیں۔
بھارت ماضی میں اپنے ہاں بڑی بڑی دہشت گردی کے بعد بھی سنجیدہ طور پر جنگ لڑنے کی دھمکی نہیں دیتا تھا‘ اگرچہ دو تین دفعہ بھارت اپنی فوجیں سرحد پر لایا اور لگتا تھا کہ اب جنگ ضرور ہوگی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جب واجپائی صاحب بھارت کے وزیراعظم تھے اور جنرل پرویز مشرف پاکستان میں چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھال چکے تھے‘ واجپائی اور جنرل مشرف خطے کے دیگر ممالک کے سربراہان کے ساتھ نیپال میں ایک کانفرنس میں شریک تھے۔ یہ اجلاس ایسے اہم وقت پر ہو رہا تھا جب دونوں ملکوں میں کشیدگی عروج پر تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ جنرل مشرف نے کانفرنس میں اپنی تقریر کی اور واپس اپنی کرسی کی طرف جاتے ہوئے اپنا ہاتھ وہاں بیٹھے واجپائی صاحب کی طرف بڑھا دیا جو اس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ مشرف کا یہ اقدام سراسر غیر متوقع تھا‘واجپائی بھی ایک لمحے کے لیے جنرل مشرف کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر حیران ہو گئے لیکن پھر انہوں نے خود کو سنبھالا اور اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر مشرف سے مصافحہ کیا اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ دونوں ممالک میں جاری کشیدگی اور تلخی ایک لمحے میں ختم ہو گئی اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
جنرل مشرف جب واجپائی صاحب سے ہاتھ ملانے جا رہے تھے تو انہیں یقینا یاد ہو گا کہ واہگہ بارڈر پر وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ وہ واجپائی کے استقبال کیلئے نہیں گئے تھے کہ بھارتی وزیراعظم کو پروٹوکول کے تحت سیلوٹ کرنا پڑتا۔ اب وہی جنرل مشرف اُسی واجپائی سے ہاتھ ملانے جا رہے تھے۔ بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہاتھ سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اب برسوں بعد پھر وہی صورتحال ہے لیکن آج بھارت میں واجپائی جیسا وزیراعظم نہیں جو پاکستان کے ساتھ معاملات کو دانشمندی سے ہینڈل کرے۔ بھارت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ واجپائی اور کانگرسی وزیراعظم منموہن سنگھ کی نرم مزاجی کی وجہ نے مسائل پیدا کیے لہٰذا مودی کو ایسا وزیراعظم سمجھا گیا جو سخت گیر مزاج کا حامل ہے۔ یوں مودی کو مقبولیت ملی اور اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ معاملات بگڑتے چلے گئے اور پچھلے دس برس میں مودی کے دورِ اقتدار میں پاکستان اور بھارت متعدد مرتبہ جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں‘ فروری 2019ء میں تو باقاعدہ فضائی جنگ لڑی بھی گئی۔ پیشتر اس کے کہ یہ جھڑپ خطرناک موڑ لیتی امریکہ اور دیگر ممالک نے جنگ رکوا دی اور گرفتار پائلٹ کو بھارت کے حوالے کر کے معاملات کو ٹھنڈا کرایا گیا۔
بھارت کبھی اس خوف کا بھی شکار تھا کہ اگر پاکستان پر حملہ کیا تو اسلام آباد روایتی جنگ کے بجائے نیوکلیئر جنگ کی طرف جائے گا کیونکہ بھارتی فوج کو عددی برتری حاصل ہے اور اب جنگ چھوٹے چھوٹے ایٹم بموں سے لڑی جائے گی‘ لیکن 2019ء کے واقعے سے بھارت کو حوصلہ ملا کہ پاکستان فوری طور پر نیوکلیئر آپشن کی طرف نہیں گیا۔ بھارت کے بقول پاکستانی قیادت اکثر دھمکی دیتی تھی کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو وہ سیدھا ایٹم بم استعمال کریں گے لیکن پاکستان نے روایتی جنگ لڑی اور بھارتی جنگی جہازوں کے جواب میں اپنے جنگی جہاز استعمال کیے۔ اس پر بھارت کو تسلی ہوئی کہ دونوں ملک ایٹم بم کے بغیر بھی جنگ لڑسکتے ہیں اور یہی بھارت چاہتا ہے‘ لہٰذا اس نے اس صورتحال کا جائزہ لیا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا ردِعمل کیا ہوگا؟
فروری 2019ء میں پاکستان نے ایک مدبرانہ ردِعمل دیا اور اتنا ہی جوابی حملہ کیا جتنا پاکستان پر ہوا تھا۔ پاکستان کو بھارت پر ایک نفسیاتی برتری اب تک حاصل ہے کہ بھارت کا نہ صرف جہاز گرایا گیا بلکہ ان کا جنگی پائلٹ بھی گرفتار کیا گیا جس کی واہگہ بارڈر پر حوالگی پوری دنیا نے لائیو دیکھی۔ بھارتی پائلٹ کو حوالے کرنے کیلئے دفتر خارجہ کی ایک خاتون افسر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ بھی اپنی طرح کا ایک پیغام تھا کہ پاکستان نے یہ کام ایک خاتون افسر سے کرایا ہے۔ یوں بھارت کا وہ حملہ جو پاکستان کو ڈرانے یا دھمکانے کے لیے تھا وزیراعظم مودی کے لیے شدید پشیمانی کا سبب بنا اور بھارتی اپوزیشن نے اس پر سخت تنقید بھی کی۔ بعد ازاں پتا چلا کہ بھارت کے پاس جدید جنگی اسلحہ نہ تھا اور جہاز بھی روسی ماڈل کے پرانے تھے لہٰذا بھارت کے جنگی جہاز پاکستان کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اس لیے سوچا گیا کہ فوری طور پر نیا اسلحہ خریدا جائے۔ پچھلے پانچ سالوں میں فرانس سے ساٹھ رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ ہوا اور اب تک چھتیس طیارے بھارت پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح اسرائیل اور امریکہ سے بھی اسلحہ خریدا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس میں جدید جنگی ہیلی کاپٹر اور میزائل سسٹم بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے بھارت کو زیادہ جنگی سامان فراہم کیا ہے۔
روایتی طور پر بھارت روس سے اسلحہ لیتا رہا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے روس یوکرین جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور روس سے اسلحے کی سپلائی بیس فیصد کم ہوئی ہے۔ بھارت نے اب نئی منڈیاں تلاش کی ہیں اور امریکہ اور فرانس سے نیا اسلحہ خریدا ہے‘ جو بتایا جا رہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔ لیکن اب بھی بھارت کے پاس صرف دس ‘پندرہ فیصد ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کا اسلحہ ہے۔ بیشتر اسلحہ اب بھی پرانا ہے۔ اگرچہ رافیل جہازوں کی وجہ سے بھارتی فضائی طاقت میں اضافہ ہوا ہے مگر بھارت نے رافیل کے نام پر فرانس سے ساٹھ ہزار کروڑ روپے کی شاپنگ کی ہے۔ ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ امریکی روایتی طور پر بھارت کو اس طرح اسلحہ نہیں دیتے تھے بلکہ بھارت ہمیشہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دیے گئے ایف سولہ جہازوں اور دیگر جدید اسلحے پر بڑے اعتراضات کرتا رہا ہے۔ بھارت کو ہمیشہ اعتراض رہا کہ جب بھی امریکہ پاکستان کو جدید اسلحہ دیتا ہے تو وہ بھارت کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے امریکہ نے بھارتی دبائو کے تحت پاکستان کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ ایف سولہ جہازوں کو اپنی سرحد سے باہر حملوں کے لیے نہیں بھیجے گا۔ ہاں! اگر پاکستان پر حملہ ہو تو ایف سولہ جہازوں کو پاکستان کے دفاع میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے جو جنگی جہاز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر کے قریب بم گرانے کے لیے بھیجے گئے تھے‘ وہ ایف سولہ نہیں تھے۔ پاکستان چین کے تعاون سے جے ایف 17 تھنڈر بنا چکا ہے جو ایف سولہ کے لیول کی کارکردگی دکھا سکتے ہیں لیکن بھارت اب رافیل جہازوں کی آمد کے بعد خود کو زیادہ بہتر پوزیشن میں محسوس کر رہا ہے ۔ پاک فضائیہ کا اعتماد بھی آسمان کو چھو رہا ہے کیونکہ وہ چند سال قبل بھارت کا جہاز گرا کر ایک پائلٹ کو گرفتار کر چکے ہیں۔ بھارت کے پاس اگرچہ اب امریکہ‘ فرانس‘ اسرائیل اور روس سے خریدا گیا جدید اسلحہ بھی ہے لیکن نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسے ایک ڈر اور خوف بھی لاحق ہے کہ رافیل جہازوں کو آپریٹ کرنے کے لیے جو قابلیت یا صلاحیت چاہیے‘ شاید وہ ابھی بھارتی پائلٹس کے پاس نہیں ہے‘ لہٰذا رافیل کا خطرہ مول لینے سے بھارت گھبرا رہا ہے کہ نئے جنگی جہاز پوری طرح استعمال نہ ہو سکے اور پھر کوئی جہاز گرا دیا گیا اور ایک اور ابھینندن پکڑا گیا تو وزیراعظم مودی کہاں کھڑے ہوں گے؟ یہی وہ خوف ہے جو اَب تک جنگ شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔