پاک بھارت کشیدگی جب سے بڑھی ہے‘ عالمی میڈیا پر پاکستان خبروں میں ہے۔ ہمارے وزرا غیر ملکی ٹی وی چینلوں پر پاکستان کا مؤقف پیش کر رہے ہیں۔ اس دوران کچھ وزرا کے انٹرویوز متنازع بھی بنے۔ جو انٹرویو سب سے زیادہ متنازع بنا ہے وہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا ہے جس میں ایک غیرملکی چینل کی خاتون اینکر نے ان سے سوالات کیے‘ جس کے جواب میں جو کچھ خواجہ صاحب نے کہا اس پر خاصا شور مچا ہوا ہے۔ بھارتی عوام اور سوشل میڈیا پر اس کے چرچے ہیں اور اس بیان کو یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو پالتا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ غلط کام ہم مغرب اور امریکہ کے لیے کرتے رہے ہیں۔اس بیان پر پوری دنیا میں خاصا شور مچا ہوا ہے۔ بھارت میں اس کو زیادہ اچھالا جا رہا ہے کہ دیکھیں پاکستان نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔ پاکستان مان گیا ہے کہ اس نے دہشت گرد پالے ہیں اور اب بھی اس کی سرزمین پر موجود ہیں۔ اور یوں انہوں نے اس بیان کو پہلگام کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ خواجہ آصف کا یہ بیان یا اعتراف درست ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے لیکن اس کا پورا تناظر سمجھنا ضروری ہے‘ جو صاف ظاہر ہے کہ خواجہ آصف ٹی وی شو میں اُس اینکر کو نہیں سمجھا سکے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ خاتون اینکر خواجہ آصف کے اس بیان کے پس منظر سے ناواقف تھی یا جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی۔ اس پورے معاملے میں وہ مغرب کو کلین چٹ دے رہی تھی اور ایسا ظاہر کر رہی تھی کہ آج تک جو برا ہوا وہ سب پاکستان نے کیا اور اب وہ اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ خواجہ آصف کو اس اینکر کو بتانا چاہیے تھا کہ وہ کون سے طالبان تھے جنہیں صدر ریگن نے وائٹ ہائوس بلا کر پروٹوکول دیا تھا یا جنہیں سی آئی اے افغانستان میں فنڈنگ کرتی رہی بلکہ ان کی مدد کیلئے اسرائیل سے باقاعدہ خچر لائے گئے تھے تاکہ وہ پہاڑیوں پر طالبان کو اسلحہ سپلائی کر سکیں۔ ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دیے گئے تھے جن سے طالبان کے علاوہ اُس وقت کے کچھ پاکستانی جرنیلوں نے بھی فائدہ اٹھایا اور افغان جنگ کے بعد ہم نے دیکھا کہ اُن جرنیلوں کے بچے ارب پتی بن گئے اور کچھ نے فیکٹریاں لگا لیں اور آج وہ اس پیسے کے بل بوتے پر وزیر اور اہم پالیسی میکرز بن بیٹھے ہیں۔
ہم نے تب اسے جہاد کا نام دیا‘ جس کیلئے غریبوں کے بچے بھرتی کیے گئے کہ جا بیٹا! افغانستان میں جہاد لڑ کیونکہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے اگلا حملہ پاکستان پر کرے گا۔ جس روس سے ہمیں ڈرایا گیا تھا کہ وہ گوادر پورٹ تک پہنچ جائے گا‘ اس نے کبھی پاکستان سے نہیں کہا کہ مجھے راہداری دے دیں لیکن چین نے پاکستان سے تجارتی راہداری لے لی۔ کسی نے پاکستانی قوم سے اس جھوٹ پر معافی مانگی؟ پھر ہم چالیس لاکھ افغان اپنے ہاں لائے اور اپنے معاشرے کی حالت خراب کر ڈالی۔ جنرل ضیا نے اپنے دس سالہ اقتدار کے لیے پاکستان کے اگلے سو سال خراب کر دیے اور ہم آج تک اس عذاب سے نہیں نکل سکے۔ ہم پہ ہمیشہ ایک جنون سوار رہا کہ کابل پر ہمارا کوئی پشتون طالب حکمران ہو تو ہم بھارت سے محفوظ رہیں گے۔ جنگ ہم نے مشرقی سرحد پر لڑنی تھی لیکن لڑتے مغربی سرحد پر رہے۔ ہم نے وہاں ناردرن الائنس سے تعلقات ٹھیک نہ رکھے کہ بھارت ان کو ہمارے خلاف استعمال نہ کر سکے۔ یا ہم نے بھارت سے تعلقات ٹھیک نہ کیے تاکہ مشرقی سرحد پر مسائل نہ رہیں۔ تین چار بار کوشش کی گئی کہ پاک بھارت دوستی ہو لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی ایسی بدقسمتی ہو گئی کہ ہم پھر دشمن بن گئے اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دونوں ملک ایک غیراعلانیہ جنگ شروع کر چکے ہیں اور دونوں ملکوں میں بے گناہ لوگ اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
چلیں جنرل ضیا کو ایک طرف رکھتے ہیں‘ جنرل مشرف کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو انٹرویو میں بڑے فخر سے طالبان کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کا فائدہ پوری دنیا کو سمجھایا تھا۔ موصوف نے فرمایا کہ جب تورا بورا پر امریکیوں نے بمباری کی تو وہاں سے افغان طالبان بھاگ کر پاکستان کی طرف آئے۔ ہم سرحد بند کرنے کے بجائے انہیں اندر لے آئے اور محفوظ رکھا تاکہ کل کلاں کو جب امریکی افغانستان سے واپس جائیں گے تو وہ ہمارے کام آسکیں۔ آج وہی طالبان انڈیا کی خاطر افغانستان کی سرزمین سے ہمارے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم نے افغان طالبان لیڈران کو قطر میں امریکیوں سے ملوایا۔ آج ہم امریکہ کے منت ترلے کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کو کہیں کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان پر حملوں سے روکیں‘ وہی امریکی جو کبھی ہمیں کہتے تھے کہ آپ طالبان کو روکیں۔ ہم ہمیشہ امریکیوں اور یورپیوں کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے رہے اور بڑے خوش رہے کہ ہم انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں مگر یورپی اور امریکی جان بوجھ کر بیوقوف بنتے رہے۔ وہ پہلے جنرل ضیا کو تو بعد میں جنرل مشرف کو ڈالرز کھلاتے رہے۔ انہیں علم تھا کہ کون سے دہشت گرد ہمارے بارڈر پر تیار ہورہے ہیں۔ ہم نے کل کو نکل جانا ہے اپنے مقصد حاصل کر کے‘ پاکستان ہی ان مجاہدین یا طالبان کو بھگتے گا۔ ہیلری کلنٹن سے ہم سب ناراض تو ہو گئے لیکن بات اس نے درست کی تھی کہ آپ جو سانپ اپنے گھر کے پچھواڑے میں پال کر خوش ہیں کہ یہ صرف آپ کے ہمسایوں کو ڈنک ماریں گے‘ تسلی رکھیں! وہ آپ کے گھر گھس کر آپ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ آج وہی کچھ ہو رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہیلری کلنٹن کو ہم نے دورۂ پاکستان کے دوران طعنہ مارا تھا کہ امریکی اپنا کام نکلوا کر نکل جاتے ہیں اور مڑ کر پاکستان کو پوچھتے تک نہیں کہ کس حال میں ہو۔ اس پر ہیلری نے سیدھا جواب دیا تھا کہ اگر آپ کو وہ سب کام غلط لگ رہے تھے تو نہ کرتے۔ اگر کیے ہیں تو کون سا مفت میں کیے ہیں۔ سب کی ڈالروں میں قیمت لی بلکہ ایک کام کے دو دو‘ چار چار بل بنا کر چارج کیا۔ اگر ہم دوست تھے تو پھر ہم سے اس کا معاوضہ کیوں لے رہے تھے؟
ہم نے مغرب کو یہ سب لوگ پال کر دیے جن کا آج ہم طعنہ سن رہے ہیں اور ہمارے وزیر دفاع کو بیک فٹ پر جانا پڑ رہا ہے حالانکہ خواجہ صاحب نے بات بالکل ٹھیک کی ہے کہ سب آپ کا پھیلایا ہوا عذاب بھگت رہے ہیں۔ اُس وقت ہماری قوم بھی اُن طالبان اور مجاہدین کو ہیرو سمجھتی تھی جو کابل کی مارکیٹوں اور گلیوں میں بے گناہ افغانوں کو بموں اور خودکش حملوں میں اڑا رہے تھے‘ اور وہ طالبان جو یہی کام پاکستان میں پاکستانیوں کے ساتھ کررہے تھے‘ وہ ہمیں برے لگتے تھے۔ جب یہ تفریق ہو گی تو پھر رونا کیسا۔ اگر جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے کچھ سوچا ہوتا تو آج یورپ ہمیں طعنے نہ دے رہا ہوتا۔ ہم چاہتے تو بہت سارے مواقع پر بھارت سے تعلقات بہتر کر کے خطے کو جنگ کے خوف سے آزاد کر سکتے تھے لیکن کیا کریں! جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے پاک بھارت تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تو اُس دور کی عسکری قیادت نے ایسانہ کرنے دیا اور جب 2019ء میں جنرل باجوہ نے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت کے سیاسی حکمرانوں نے یہ نہیں ہونے دیا۔ یوں اُن حکمرانوں کا کام تو چلتا رہا لیکن آج حالت یہ ہے کہ ہم ایک نئی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارے شہروں پر میزائل اور ڈرون گر رہے ہیں۔ وہ دفاعی تجزیہ کار غائب ہیں جو کبھی ہمیں بتاتے تھے کہ افغانستان کے بعد ہم نے کاشغر اور سمرقند بھی جانا ہے۔
1857ء کے غدر کے بعد دلّی کی لہولہان اور اداس گلیوں میں لکڑی کا سہارا لیتے دھیرے دھیرے زیرلب گنگناتے تنہا چلتے پھرتے غالب یاد آگئے:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا