احسن اختر ناز (''مرحوم ‘‘لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے)کی ایک غزل کا شعر ہے ؎
ہم زندگی کی تلخیوں سے لڑ رہے تھے آج
آکر ترے خیال نے اچھا نہیں کیا
اس کی زندگی کے چند آخری سال تلخیوں سے لبریز تھے لیکن دوستوں میں شیرینی بانٹنے والے شخص کی کوشش رہی کہ دوستوں کو ان تلخیوں میں کم سے کم شریک کرے۔ بیشتر آزمائشیں وہ تنہا جھیلتا رہا، جواں سال بلال اور ابوذر یا پھر ہمت اور حوصلے والی ہماری بھابھی جو تادمِ آخر اس کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ خدا پر سچا ایمان اور پختہ یقین بدترین حالات میں بھی انسان کے کام آتا اور اس کی ڈھارس بندھاتا ہے۔
احسن چند برسوں سے ذیابیطس کا شکار تھا۔ ماہرین اس کے ایک سے زیادہ اسباب بتاتے ہیں، ذہنی اضطراب کو بھی ان میں شمار کیا جاتا ہے۔ جنازے پر بھی احباب اس کا ذکر کرتے رہے،تعزیتی کالموں میں بھی اس کا بیان ہوا۔ اِسے پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے اساتذہ کی سیاست بازی کا کرشمہ قرار دیا گیا، احسن اختر ناز جس کا بطورِ خاص نشانہ تھا۔ وی سی صاحب کی بیگم صاحبہ، میڈم شازیہ انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کر کے واپس آئیں تو معاملات سنورنے لگے(معاملہ فہم ، صلح جو اور دور اندیش خاتون اِن دنوں یونیورسٹی لاء کالج کی پرنسپل ہیں)۔ گزشتہ سال بلال کے ولیمہ کا دعوت نامہ احسن نے وی سی صاحب کو بھی بھیجا تھا۔ ان کی آمد سب کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی، بیگم صاحبہ بھی آئی تھیں۔ احسن اپنی علالت کے آخری دِنوں میں ہسپتال میں تھا، تو ان کی عیادت کے لیے آنے والوں میں بیگم شازیہ بھی تھیں۔ وہ بہت دیر تک وہاں موجود رہیں۔ یونیورسٹی لاء کالج کے ایک استاد بھی، اسی ہسپتال میں عارضۂ قلب کے باعث داخل تھے۔ وہ ان کے مخالف دھڑے میں سرگرم ہیں لیکن انہوں نے ان کی عیادت بھی ضروری سمجھی۔
شعبہ ٔ ابلاغیات سے ڈاکٹر مغیث کی فراغت کے بعد، احسن ان کے جانشین بنے لیکن اِن کی ڈائریکٹرشپ ''دلِ یزداں‘‘ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔ انہیں یہاں سے فارغ کر کے انکوائریوں کا ڈول ڈال دیا گیا۔ اِسی دوران فُل پروفیسر کے لیے ان کا سلیکشن بورڈ بھی ہوگیالیکن نوٹیفکیشن میں انکوائریاں روکاوٹ بن گئیں۔ کہا جاتا ہے، احسن کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا احساس ہوگیا تھا۔ انہوں نے انکوائریوں کو تیزی سے مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ انکوائری کمیٹی کے ایک رُکن کے بقول فیصلہ لکھا جارہا تھا لیکن احسن کی قسمت میں یہ خوشی نہیں لکھی تھی۔ یہ الگ بات کہ اپنے رب پر ایمان اور آخرت کے انصاف پر یقین رکھنے والا احسن اپنے ضمیر کے روبرو مطمئن تھا۔
وہ مجلسی آدمی تھا۔ دوستوں میں خوش رہنے اور انہیں خوش رکھنے والا آدمی۔ آخری برسوں میں ذیابیطس کی شدت نڈھال کردیتی، پاؤں میں زخم ہوجاتے لیکن جوں ہی طبیعت قدرے سنبھلتی ، وہ دانشورانِ لاہور کی تنظیم ''کونسل آف نیشنل افیئرز‘‘ کے ہفتہ وار اجلاس میں چلا آتا۔ (اس میں اس کا شاگردِ رشید حذیفہ سہارابنتا)۔زیربحث موضوع اس کی دلچسپی کا ہوتا تو اس میں بھرپور حصہ لیتا۔
گزشتہ سال جون میں ذیابیطس کا حملہ شدید تر تھا۔ بائیں ٹانگ کا زخم پھیلتا گیا۔ دُعائیں کام آئیں ، نہ دوائیں کارگر ہوئیں تو ڈاکٹروں نے اِسے گھُٹنے کے نیچے کاٹنے کا فیصلہ سنادیا۔ یہ نہایت تکلیف دہ مرحلہ تھا لیکن احسن نے اسے قبول کرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہ کی، وہ یہاں بھی راضی بہ رضا تھا ۔ احسن کے والد، معروف شاعر جناب مجذوب چشتی (مرحوم) بھی برسوں بیماری کا شکار رہے تھے لیکن سخت ترین آزمائش کے یہ دِن انہوں نے بڑے حوصلے کے ساتھ بسر کئے تھے۔ ''کوئی آہ، نہ وائے، نہ حیف، نہ اُف ہیـ‘‘ کی کیفیت تھی۔ وہ اپنے اس شعر کی تصویر تھے ؎
مجھ پہ ہے مجذوب سرکارِ دوعالمؐ کا کرم
میں نے دیکھی ہی نہیں کوئی گھڑی تکلیف کی
احسن بھی اسی ہمت و حوصلے کا پیکر تھا۔ اِسے ہسپتال سے گھر آئے دوسرا دِن تھا، جب مجھے اس المیے کی خبر ہوئی، قیامت کی خبر۔ڈاکٹر امان اللہ ملک اور ڈاکٹر سلیم مظہر بھی ساتھ تھے، جب میں اس کی عیادت کے لیے حاضر ہوا۔ تینوں کی کیفیت یکساں تھی۔ راستے بھر سوچتے رہے اس المیے سے دوچار اپنے عزیز ترین دوست کا سامنا کیسے کریں گے، عیادت کے الفاظ کہاں سے لائیں گے؟دوستوں کے لیے آسانیوں کا سامان کرنے والے احسن نے یہاں بھی ہمارا کام آسان کردیا۔ ہم اس کا حوصلہ بڑھانے ، اس کی ڈھارس بندھانے گئے تھے لیکن وہ اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں تسلی دے رہا تھا،'' پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ زخم بھرجانے کے بعد، مصنوعی ٹانگ لگوالوں گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے آدمی جراب پہن لیتا ہے‘‘۔ اس کی روایتی بذلہ سنجی یہاں بھی موجود تھی۔ ان ہی دِنوں جناب مجذوب چشتی کا مجموعۂ کلام چھپ کر آیا تھا۔ اس کی تیاری میں اس نے خوب محنت کی تھی۔ اس کی کاپی اپنے دستخط کے ساتھ پیش کرتے ہوئے اس نے فقرہ چُست کیا، تم بھی اس کے لیے ایک ، آدھ صفحہ لکھ دیتے، تو اسی بہانے لائبریری میں تمہارا نام بھی محفوظ ہوجاتا۔ مجھے یاد آیا، وہ یہ کتاب ترتیب دے چکا تو اس کے لیے مجھے بھی چند سطور لکھنے کے لیے کہا، میرا کہنا تھا کہ یہ کام تو شعرو ادب کے لوگوں کا ہے، اصحابِ نقد و نظر کا ۔ اور اس سلسلے میں اپنا معاملہ بس اتنا سا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شعری وادبی شہ پارے سے لطف اندوز ہونے کی کچھ صلاحیت ودیعت کردی ہے۔ احسن جوابی دلیل لایا، میں نے اس کے ادبی جائزے کے لیے تو نہیں کہا۔ تمہیں یاد ہے، والد صاحب 2005میں عُمرے کے لیے جدہ میں تھے، تو تمہارے ساتھ سرور پیلس بھی گئے تھے، جہاں میاں صاحب کے ساتھ ڈنر کے علاوہ مختصر سی شعری نشست بھی ہوئی تھی، اُسی کا مختصر احوال لکھ دو۔ میں نے وعدہ کر لیا لیکن اس کی تکمیل نہ ہو پائی۔
کٹی ہوئی ٹانگ کا زخم بھرنے لگا۔ احسن اسی دوران راولپنڈی سی ایم ایچ کے چکر بھی لگا آیا۔(جہاں مصنوعی اعضا کا الگ شعبہ بھی موجود ہے)۔ ڈاکٹر وںکا کہنا تھا، مصنوعی ٹانگ لگانے کے لیے ابھی کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا۔ احسن کے لیے اب گھر پڑے رہنا محال تھا۔ ایک دن ابوذر اسے گاڑی میں شعبہ ابلاغیات لے گیا۔ پارکنگ سے آگے وہیل چیئر کام آئی۔ وہ دیر تک طلبا و طالبات اور اپنے رفقا کے ساتھ وہاں رہا۔ یوایم ٹی والوں نے عمرانہ مشتاق کے تعاون سے ، ہر مہینے کے پہلے اتوار کو لاہوری ناشتے اورا دبی نشست کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس میں ہر نقطۂ نظر اور ہر دھڑے کے شعرا وادباپائے جاتے ہیں۔ اسلم خاں اسلام آباد سے آیا تو احسن کو گاڑی میں( اور پھر وہیل چیئر پر)یہاں لے آیا۔ یہاں احسن کو خیال آیا، کیوں نہ کسی آئندہ نشست میں مجذوب صاحب کے مجموعہ کلام پر بھی بحث ہوجائے۔
احسن زندگی کی سرگرمیوں کی طرف لوٹ رہا تھا۔ ایک شام معلوم ہوا، وہ پھر ہسپتال میں ہے۔ اب اس کے پیٹ میں پانی بھر گیا تھا۔ تو کیا گردوں نے کام چھوڑ دیا ہے؟ میرے چہرے پر تشویش کے سائے سے لہرا گئے۔ دوستوں کے چہرے پڑھ لینے والے احسن سے میرے دِل کی کیفیت چھپی نہ رہی، کہنے لگا پریشانی کی کوئی بات نہیں، لوگ ڈائلیسس پر بھی برسوں جی لیتے ہیں لیکن اس نے اپنے حصے کا جی لیا تھا، اپنے حصے کے سانس لے لئے تھے۔ جمعرات کی شب 9بجے بلاوا آگیا۔ احسن آخرت کے سفر پر روانہ ہوگیا تھا۔
جمعہ کی سہ پہر یونیورسٹی کے جوگنگ گراؤنڈ میں لمبی لمبی قطاریں دور تک پھیل گئی تھیں۔ یوں لگتا تھا، سارا شہر احسن کو الوداع کہنے اُمڈ آیا ہے۔ ایک ایسے شخص کو الوداع کہنے جس سے، اِن کاکوئی دُنیاوی مفاد، کوئی غرض ، کوئی لالچ وابستہ نہ تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں زندگی کے آخری برس اس کے لیے بڑے تکلیف دہ رہے تھے۔ اب مادرِ مہرباں نے اپنا سینہ اس کے لیے کھول دیا تھا۔ وہ یونیورسٹی کے قبرستان میں، آسودۂ خاک ہوا۔ دورِ طالبِ علمی سے پنجاب یونیورسٹی اس کے خوابوں کی سرزمین رہی تھی۔ ان میں سے بعض خواب شرمندۂ تعبیر ہوئے، بعض تشنۂ تکمیل رہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔