ایک دیومالا… پاکستان کی پارلیمنٹ خود مختار ہے

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ''پارلیمنٹ خود مختار ہے‘‘۔ پارلیمنٹ کے کچھ دوسرے ارکان نے بھی یہی گیت گایا ہے۔ کاش‘ یہ بات درست ہوتی!
1973ء کا آئین پاکستان کو ایک ری پبلک قرار دیتا اور اس کے لیے برطانیہ عُظمیٰ طرز کی پارلیمانی جمہوریت تجویز کرتا ہے۔ برسوں سے ہمارے لیڈروں اور ارکان پارلیمنٹ نے ری پبلک کو 'اُمرا شاہی‘ اور جمہوریت برائے عوام کو اشرافیہ کی حکومت میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اس طرح آئین اُلٹ کر رہ گیا۔
اس تنزل کا آغاز آزادی ایکٹ مجریہ 1947ء سے ہُوا‘ جب قائد اعظم کے بعد اُس وقت کے ارکان پارلیمنٹ نے اس بنا پر اپنے آپ کو سات سال کے لیے برقرار رکھا کہ 1947ء کے ایکٹ کی ایک شق میں قرار دیا گیا تھا کہ دستور ساز اسمبلی‘ قومی اسمبلی کے طور پر بھی کام کرے گی اور اس کی یہ حیثیت آئین کے نفاذ تک جاری رہے گی۔ ارکان کا انتخاب اس کے بعد ہو گا؛ چنانچہ آئین سازی تیز رفتاری سے کرنے کے بجائے اس عمل کو برسوں گھسیٹا گیا... قومی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ برسر اقتدار رہنے کے ذاتی فائدے اور اپنے حلقہ ہائے انتخاب کو مضبوط کرنے کے لیے۔ اس طرح پارلیمنٹ اس قدر کمزور ہو گئی کہ گورنر جنرل غلام محمد نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ ارکان پارلیمنٹ گھر چلے گئے اور پارلیمنٹ اپنی بالادستی نہ منوا سکی۔ ایک عظیم اور مُفتخَر قوم کی اُمیدیں ماند پڑ گئیں اور وہ دُنیا میں ایک مذاق بن کر رہ گئی۔
اس کے بعد انتہائی غیر مقبول اور غیر جمہوری عمل کے ذریعے ایک نئی دستور ساز اسمبلی بالواسطہ بنیاد پر منتخب کی گئی۔ 1956ء کا آئین ایک بیوروکریٹ سیاستدان چودھری محمد علی نے لکھا اور اسے نافذ کر دیا گیا۔ چونکہ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیر اعظم کا چنائو (Selection) اور اس کا احتساب عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے‘ نئے منتخب ارکان نے اس اکثریتی قاعدے کو اپنے فائدے کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ پارلیمنٹ میں مختلف گروپوں نے ایک نئے وزیر اعظم کو لانے اور پہلے کو نکال باہر کرنے کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر دیا اور وزرائے اعظم شطرنج کی بساط کے مہروں کی طرح گرتے چلے گئے۔ محض دو سال کے قلیل عرصہ میں چھ وزرائے اعظم نے حلف اُٹھایا‘ بعض نے صرف ایک مہینے یا چند ہفتوں کے لیے۔ آئین کی جو شق گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے رکھی گئی تھی اُس کا انتہائی غلط استعمال کیا گیا۔ اس طرح ملک پاتال میں جا گرا۔
عوام پر واضح ہو چکا تھا کہ 1956ء کا آئین ناکام ہو چکا ہے‘ لہٰذا قیادت کی کارستانیوں اور بیڈ گورننس کے باعث ملک پر 1958ء کا مارشل لاء مسلط کر دیا گیا۔ اس قومی تباہی کی ذمہ داری ارکان پارلیمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ میں ایوب خان کے صدارتی آئین مجریہ 1962ء کا تذکرہ چھوڑ رہا ہوں کیونکہ یہ ایک صدارتی طرز حکومت کا نمائندہ تھا اور 1962ء کے آئین کی ناکامی کی وجوہ بھی گڈ گورننس سے زیادہ سیاسی نوعیت کی تھیں۔
ایوب خان کے عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد ملک ایک تکلیف دہ تاریخ سے گزرا، جس میں پاکستان کا دولخت ہونا بھی شامل تھا۔ نئے پاکستان کی پارلیمنٹ وحدتِ پاکستان کی بنیاد پر منتخب ہوئی۔ قوم نااُمید ہو چکی تھی۔ ایک افسردہ ماحول میں ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت 1973ء کا متفقہ آئین مرتب کر کے نافذ کر دیا گیا۔ میں نے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے نامزد آئینی مشیر کے طور پر آئینی مسودہ کی تیاری میں حصہ لیا۔ اگرچہ آئین، پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے اصرار پر اس میں کچھ ایسی شقیں شامل تھیں جن کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی انوکھی ذہنی اُپچ کے تحت وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو تقریباً ناممکن بنا دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے ذریعے وزیر اعظم کے احتساب اور اُسے گھر بھیجنے کا امکان ختم ہو گیا۔ ارکان پارلیمنٹ نے اعتراضات کے باوجود اس شق کی منظوری دے دی کیونکہ مارشل لاء کا خاتمہ آئین کی تشکیل سے مشروط تھا۔ یہ سیاسی ''مُک مُکائو‘‘ کا پہلا واقعہ تھا۔ وزیر اعظم کے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونے کا راستہ بند ہو گیا اور یہ وزیر اعظم (چیف ایگزیکٹو) کے حق میں پارلیمنٹ کی خود مختاری کا بھاری نقصان تھا۔ اس انوکھی شق کی میعاد مقرر تھی، لہٰذا مدت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہو گئی۔ اس دوران احتساب کا عمل پارلیمنٹ سے سڑکوں پر احتجاج کی شکل میں منتقل ہو گیا، جس کے نتیجے میں 1977ء کے مارشل لاء کی ایک اور تباہی نازل ہوئی اور ایک قومی لیڈر کو عدلیہ کے فیصلے کے بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسے عدالتی قتل کا نام دیا گیا۔ 
اُس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق غیر جماعتی بنیاد پر ایک کمزور و ناتواں منتخب پارلیمنٹ لائے، جس نے صدر کو وزیر اعظم سے بھی زیادہ بااختیار بنا دیا۔ پارلیمنٹ‘ قومی قیادت کے شائبے تک سے محروم ہو گئی اور سب کچھ چیف ایگزیکٹو کے پاس چلا گیا۔
بالغ رائے دہی اور سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوریت کے بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد سیاسی جماعتوں میں زندگی کی رمق نظر آئی۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان‘ جو جانتے تھے کہ پارٹی پر اپنی گرفت اور بالادستی قائم رکھنا کتنا اہم ہے‘ ان کو ذاتی جاگیر بنانا شروع کر دیا؛ چنانچہ بیشتر جماعتیں خاندانی سلطنت کی شکل اختیار کر گئیں۔ آئیے‘ ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ آپ کو یہ دیوتا صفت لیڈر ہر پارٹی میں دکھائی دیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی ذوالفقار علی بھٹو‘ پھر بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور حال ہی میں بلاول زرداری کو منتقل ہو گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی جو کبھی اسی نام سے تشکیل پائی تھی‘ ولی خان اور پھر ان کے صاحبزادے اسفند یار ولی کی قیادت میں چلی گئی۔ الطاف حسین ایم کیو ایم کے تاحیات قائد ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود کے بعد اب ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں سرگرم ہے۔ مرحوم بزرگ سیاستدان چودھری ظہور الٰہی متحدہ مسلم لیگ کے سربراہ تھے‘ اب ان کے صاحبزادے چودھری شجاعت حسین مسلم لیگ (ق) کے قائد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں باس (سربراہ) اپنی پوزیشن بہرصورت برقرار رکھتا ہے۔ اُسے پارٹی منتخب کرتی ہے، لیکن خفیہ رائے شماری کے ذریعے نہیں بلکہ ہاتھ کھڑے کر کے! جب کوئی جماعت اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اُس کا باس ہی وزیر اعظم کا منصب سنبھالتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور وزیر اعظم کے مابین توازن قائم نہیں رہ پاتا اور طاقت کا پلڑا سربراہ کے حق میں جھک جاتا ہے۔ وزیر اعظم جو پارٹی کا سربراہ بھی ہوتا ہے‘ اکثریت حاصل کرنے کی تمامتر مساعی بروئے کار لاتا ہے۔ انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو خدا حافظ کہہ دیا گیا اور ان میں دھاندلی ہونے لگی۔ دھاندلی کے عمل کی اپنی ایک تاریخ ہے جو جُھرلُو سے شروع ہو کر رگنگ اور انجینئرڈ دھاندلی کی شکلیں اختیار کرتی رہی، جس میں ریاستی مشینری ملوث ہوتی ہے۔ اس طرح انتخابات اپنی ساکھ کھو بیٹھے اور پارلیمنٹ کی حیثیت (جواز) مشکوک ہو گئی۔
پارلیمنٹ کو اس صورت حال کا احساس ہوا اور اس نے اپریل 2009ء میں ایک ریویو کمیٹی تشکیل دی جو دونوں ایوانوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے 26 نمائندہ ارکان پر مشتمل تھی۔ یہاں بھی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ہوشیاری دکھائی۔ ریویو کمیٹی نے آئین کی دفعہ 63ـ اے میں ایک شق کا اضافہ کیا جس میں قرار دیا گیا کہ آئین میں کوئی ترمیم کرنے کے موقع پر بھی ارکان پارلیمنٹ اپنے پارٹی لیڈر کی ہدایات کے مطابق ووٹ دیں گے اور خلاف ورزی کرنے والے رکن کو اپنی نشست سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس شق نے ارکان پارلیمنٹ کی آزادی ختم کر دی اور اس طرح پارلیمنٹ کی روشنی گل ہو گئی۔
میں نے پارلیمنٹ کی ساکھ اور خود مختاری کی یہ پُراسرار داستان اصلاح کی خاطر قلمبند کی ہے۔ اگرچہ میں نے ایک مشکل اور غیرمقبول راستہ اختیار کیا ہے لیکن سچ کو لازمی طور پر منکشف ہونا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں