پاکستان ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے دنیا کے آٹھ اہم ترین ممالک میں شامل ہے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اسی نسبت سے اہم ترین دارالخلافہ شمار کیا جاتا ہے۔ لبرل مافیا اور ذہنی پسماندگی کا شکار دانشور کچھ بھی کہے اور سوچے لیکن یہ بہت بڑی زمینی حقیقت ہے کہ پاکستان کا واحد ایٹمی اسلامی قوت ہونا دنیا بھر میں بسنے والے دشمنان اور حاسدین کی نظروں میں ہر وقت کھٹکتا رہتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان کو قابو کرنے اور قابو میں رکھنے کیلئے عالمی طاقتیں ہمارے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وطن عزیز بچ بچا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ روس کے خلاف افغان جہاد ہو یا امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ‘ پاکستان کو ان کا بادل نخواستہ حصہ بننا پڑا۔ روس کے خلاف فتح یاب ہوئے تو امریکہ نے طوطا چشمی کا ایک ایسا مظاہرہ کیا‘ جس کا تصور ہم تو کیا خود امریکی بھی نہیں کر سکتے اور آج تک امریکی سیاسی قیادت اور دانشور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روسی شکست کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑنا غلطی تھی۔ روس کے پارہ پارہ ہونے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ پاکستان کا احسان مند ہوتا‘ جس کی وجہ سے وہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا‘ لیکن امریکی ردعمل اس کے برعکس تھا۔ اس سے پہلے کہ پاکستان آگے بڑھتا اور اپنے مشرق میں بیٹھے ازلی دشمن کے ساتھ دو دو ہاتھ کرتا اس کی فوجی قیادت 17 اگست 1988 کو ختم کر دی گئی‘ یوں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد دوسرا بڑا سانحہ دیکھنے کو ملا۔
امریکہ کی بے اعتنائیوں اور پابندیوں کے باوجود پاکستان آگے بڑھ رہا تھا اور افغانستان میں طالبان کی مستحکم حکومت قائم ہوچکی تھی لیکن پھر پراسرار طور پر نائن الیون ہوا اور افغانستان میں ایک نئی جنگ شروع کر دی گئی۔ امریکہ کی خواہش تھی اور وہ توقع کر رہا تھا کہ پاکستان افغانستان کو‘ جسے روس ہڑپ نہ کر سکا‘ پلیٹ میں رکھ کر اسے پیش کر دے۔ افغانستان کی چومکھی جنگ میں ایک طرف پاکستان کو دل و جان سے امریکی اتحادی بننے کا 'حکم‘ دیا گیا اور دوسری جانب پاکستان کو داخلی طور پر کھوکھلا کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کیلئے ایک نہیں بلکہ پانچ ممالک نے اپنی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے مل کر منظم منصوبہ بندی کی۔ کراچی میں الطاف حسین کو مضبوط کیا گیا۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کو عسکریت کی تربیت اور اسلحہ دیا گیا تاکہ کے پی کے‘ فاٹا میں ٹی ٹی پی کو منظم کرکے پاکستان پر ہی جنگ مسلط کر دی جائے۔ خود کش حملوں سے وفاقی و صوبائی دارالحکومت تک محفوظ نہ رہے۔ پسند کا نتیجہ حاصل کرنے کیلئے مشرقی سرحدوں پر بھارت کو اپنی افواج لانے کی ترغیب دی گئی۔ جب امریکہ نے افغانستان میں پاکستان کے کردار ادا کرنے کے طفیل اپنے اہداف حاصل کر لیے تو بھارت نے بھی سرحدوں پر کشیدگی ختم کر دی۔
مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور بھارت کے حالیہ اقدامات بھی کچھ اسی طرح کی حکمت عملی لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دورۂ امریکہ کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدر ٹرمپ سے کشمیر کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے مسئلہ کشمیر کا تصور کلیئر کرنے کی کوشش کی۔ صدر ٹرمپ نے کھلے بندوں ثالثی کی پیشکش کی لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے‘ امریکہ سب سے بڑا سازشی اور طوطا چشم ملک ہے۔ اس سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اب امریکی تھنک ٹینک اور اسٹیبلشمنٹ کو ادراک ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے مؤثر کردار کے بغیر امریکی افواج کی باعزت واپسی ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں دانشور کچھ بھی سمجھیں لیکن امریکیوں کو معلوم ہے پاکستان افغانستان کے مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور بھارت کی کردار کو نہ ہونے کے برابر لانا چاہتا ہے۔ اسی لئے اس سازشی تھیوری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ اقدامات میں امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بھارتی قیادت نے آئینی ترمیم سے پہلے امریکہ، یورپی یونین، اسرائیل اور برطانیہ کو اعتماد میں لیا اور دہلی میں بھارتی دفتر خارجہ اس سلسلے میں کافی متحرک نظر آیا۔ چونکہ بھارت کے اقدام کا نشانہ پاکستان ہی نہیں چین بھی ہے‘ اس لئے اسلام آباد اور بیجنگ میں براہ راست غیر معمولی نوعیت کے رابطوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا دورۂ بیجنگ مثبت اور کامیاب رہا۔ اس کے برعکس بھارتی وزیر خارجہ کا دورۂ بیجنگ بری طرح ناکام ہوا۔ چین بہت کم بولتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے بھارتی اقدام پر اس کا غصہ دنیا کے سامنے عیاں ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو نیویارک ٹائمز ایڈیٹوریل بورڈ بھارتی اقدام کی مخالفت اور اس عمل کے مضمرات کا تفصیلی تذکرہ کر چکا ہے اور اس کی رائے میں یہ اقدام نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر آئینی بھی ہے اور بھارتی سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ دوسری جانب برطانوی اخبار گارجین کا ایڈیٹوریل تو اس سے کہیں زیادہ سخت تھا اور اقوام عالم کے تمام بظاہر مہذب ممالک کو اس نے ان کے دوغلے پن کے شکار چہرے اسی کے آئینے میں دکھائے ہیں۔ گارجین واضح طور پر مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے برعکس مودی حکومت نے کشمیر میں آگ لگائی ہے‘ ایک متنازعہ علاقے میں براہ راست دہلی کے ذریعے حکومت کرنے کا اقدام کیا ہے اور اس نیم خود مختار ریاست جموں و کشمیر کو‘ جس کی بھارتی آئین نے جمہوری آزادیوں کی ضمانت دی ہوئی ہے‘ بڑی بے رحمی سے ایک انتظامی حکم سے ختم کر دیا گیا ہے۔ گارجین بھارت کے اس اقدام کو بھارتی حکومت کی بغاوت کا نام دیتا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے اقدام کو مودی اور اس کے شدت پسند قوم پرستوں کا یکطرفہ اور غیر آئینی اقدام قرار دیتا ہے۔ گارجین مزید لکھتا ہے کہ مودی نے نہ تو بھارت نواز کشمیری قیادت سے مشورہ کیا اور نہ ہی اس کے پاس اس کا کوئی قانونی جواز تھا۔ مودی نے نہ صرف اپنے آئین کو پامال کیا بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی نفی بھی کی اور کشمیریوں کے خود ارادیت کے حق کو ختم کرتے ہوئے خود کو بڑے پیمانے پر غلطی میں ڈال دیا ہے۔ مودی کا کشمیر کو داخلی معاملہ کہنا 70 سال سے زیادہ عرصے سے جاری لڑائی کو نظرانداز کرنا ہے۔ گارجین لکھتا ہے کہ بھارت اور پاکستان ایٹمی قوت ہیں اور امریکہ، یورپی یونین نے دہلی کو خوش کرنے کے لیے کشمیر کو دوطرفہ معاملہ کہا جبکہ برطانیہ کا جواب بھی بہت کمزور تھا۔
گارجین نے طاقتور عالمی رہنماؤں کا نام لے کر انہیں (Dog eats dog world) کا نام دیتے ہوئے کا لکھا کہ یہ ایک لاقانونیت والی دنیا ہے جہاں اب اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا جہاں معاہدوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھاڑ دیا جاتا ہے۔ گارجین نے مودی کو بدصورت دنیا کا ایک شدت پسند ہندو اور مسلمانوں کا دشمن شخص قرار دیا اور مودی کے موقف کی نفی کرتے ہوئے لکھا کہ بھارتی اقدام سے کشمیریوں کی زندگیاں بہتر نہیں ہوں گی‘نہ ہی بھارت پر سکیورٹی کا بوجھ کم ہو گا۔ گارجین نے عمران خان کے کردار کی تعریف اور پاکستان کے اب تک کے صبروتحمل کے مظاہرے کو مستحسن اقدام قرار دیا لیکن گارجین لکھتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے سفارتی اور تجارتی پابندیاں عائد کرکے فوجی ردعمل کو سمجھ داری سے ٹال دیا ہے لیکن اس سے عوامی رائے مطمئن نہیں ہوسکتی۔ گارجین نے خبردار کیا ہے کہ عوام کا عدم اطمینان عسکریت پسندوں کو پہلے سے کہیں زیادہ جنگ کی طرف لے جا سکتا ہے اور یہ کہ مزید اشتعال انگیزیوں کو روکنے کے لئے مودی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کمزور اور زیادہ تنہا پاکستان زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو چین کی صورت میں ایک انتہائی قابل اعتماد دوست مل چکا ہے لیکن سول و عسکری قیادت کو کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھانا چاہیے کیونکہ عید قربان پر مقبوضہ کشمیر کی ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے لخت جگر بھارتی درندوں کے ہاتھ قربان ہونے کے لیے گھروں سے نکالے۔ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والی ایک کروڑ جیتے جاگتے حریت پسند پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہیں مایوس نہیں ہونے دینا ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔