NNC (space) message & send to 7575

وزیرِ اعظم آرمی چیف ملاقات اور یومِ تشکر

پاکستان کی تاریخ میں 27 فروری 2019 کا دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس روز روایتی دشمن بھارت کو پاک فضائیہ کے شیر دل شاہینوں نے دندان شکن جواب دیا اور چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں بھارت کی طرف سے بالا کوٹ کے جنگلات میں رات کی تاریکی میں گرائے گئے دو چار بموں کا ایسا خوفناک جواب دیا کہ بھارت اپنی اس تاریخی شکست اور سبکی کی آج تک وضاحتیں پیش کر رہا ہے‘ لیکن دنیا اس کے جھوٹ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے نوخیز کپتانوں نے بھارت کے دو جنگی جہاز مار گرائے‘ ایک جہاز اور ایک پائلٹ بھارت میں گرا اور جہنم رسید ہوا جبکہ دوسرا جہاز پاکستان میں گرا اور انڈین فضائیہ کے سینئر موسٹ پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے اسے پاکستانی شہریوں کے غیظ و غضب سے بچایا‘ ورنہ ابھی نندن کی بوٹیاں ہو چکی ہوتیں۔ زخمی دشمن پائلٹ کا علاج کروایا‘ اسے بہترین چائے پلائی‘ اسے برانڈڈ تھری پیس سوٹ لے کر دیا اور اس کی وردی اور پستول‘ دونوں چیزیں قومی میوزیم میں رکھنے کے لئے محفوظ کر لی گئیں۔ ابھی نندن نے اپنی وردی اور پستول کی واپسی کی درخواست کی تھی‘ لیکن یہ درخواست تسلیم نہ کی گئی۔ ابھی نندن کا ایک طویل ویڈیو بیان ہمارے پاس محفوظ ہے جس کی بنیاد پر پاکستان جب چاہے بھارت کو دنیا بھر میں اس کا اصلی چہرہ دکھا سکتا ہے۔ پاک فوج کے شیر دل جانبازوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ٹھکانوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نشانہ بنایا۔ 27 فروری کے اس آپریشن سویفٹ ریٹارٹ (Operation Swift Retort) کے منصوبہ ساز پاک فضائیہ کے سربراہ مجاہد انور خان، موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا اور اُس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر تھے‘ جنہوں نے کم سے کم وقت میں بہترین حکمت عملی کے تحت زیرو رِسک پر ایسا جواب دیا کہ بھارت بوکھلا اٹھا‘ ایک اپنے ہی فوجی ہیلی کاپٹر کو تباہ کر دیا اور اپنے ہی افسروں اور جوانوں کو بھی مار دیا۔ 27 فروری کے کامیاب آپریشن کے بعد بھارت اور اس کے دو حواری ممالک بہت تلملائے اور انہوں نے جوابی کارروائی کا بھی سوچا‘ لیکن پاکستان کے دو ٹوک جواب اور غیر متزلزل ارادوں کو بھانپتے ہوئے ان کی ہمت نہ ہو سکی۔ یہ محض پروپیگنڈا یا فیک نیوز نہیں ہے کہ ایک حریت پسند کشمیری نوجوان نے پلوامہ میں بھارتی فوج کے ایک کانوائے کو نشانہ بنایا اور درجنوں بھارتی ریاستی دہشتگردوں اور درندوں کو موت کے گھاٹ اتارا تو اس کے بعد بھارت اور دیگر دو ممالک نے بالا کوٹ میں ایک بزدلانہ کارروائی کی۔ پلوامہ ڈرامہ کے بعد اُس وقت کے مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر نے اپنے امریکی ہم منصب سے فون پر رابطہ کیا لیکن دو تین بار ٹیلی فون کرنے اور پیغام چھوڑنے کے باوجود ان کی اپنے امریکی ہم منصب سے بات نہ ہو سکی۔ فون کرنے کا مقصد بھارت کو جارحیت سے باز رکھنا اور پاکستان کی پوزیشن بتانا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان بھارت کو ایڈونچر سے باز رکھنے کا کھلے عام کہہ چکے تھے اور بھارتی جارحیت کے جواب میں جوابی حملہ کرنے کا پوری دنیا کو بتا چکے تھے۔ پلوامہ ڈرامہ کے بعد واشنگٹن اور دہلی سے جاری ہونے والے بیانات کی زبان اور لب و لہجہ میں پائے جانے والی مماثلت صاف بتا رہی تھی کہ بھارت کوئی کارروائی کرنے والا ہے‘ جس کا مقصد خطے میں بھارت کی سپریمیسی قائم کرنا اور پاکستان کو دباؤ میں لانا تھا‘ جبکہ نریندر مودی اس ساری صورتحال سے فائدہ اٹھا کر الیکشن جیتنا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ بالا کوٹ میں بھارت کی طرف سے بم گرانے کے بعد امریکی جنرل کا فون اس صبح آتا ہے اور وہ جنرل زبیر کو کہتے ہیں کہ ہم صورتحال کو مانیٹر کر رہے ہیں‘ خطے میں کشیدگی سے مسائل پیدا ہوں گے ہم بھارت کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ بس اب پاکستان کوئی جوابی کارروائی نہ کرے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں فوجی جرنیلوں کے درمیان بات چیت مثبت طور پر اختتام پذیر نہیں ہوئی اور جنرل زبیر نے دو ٹوک بتایا کہ پاکستان ہر صورت میں جوابی کارروائی کرے گا‘ اور پھر پاکستان نے جو جواب دیا پوری دنیا نے دیکھا۔
27 فروری کو یومِ تشکر اور یومِ عزم کے طور پر منایا گیا۔ نئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں پاکستان کے عزم کا ارادہ کیا اور آئندہ بھی کسی بھی نوعیت کی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے لا محدود جنگ کا عندیہ دیا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ہر طرح کی تیاری مکمل ہے‘ کون سا آپشن اختیار کرنا ہے‘ اس کا فیصلہ حکومت یعنی سیاسی قیادت نے کرنا ہے۔ افواج پاکستان کے نئے ترجمان کی پریس بریفنگ 'ٹُو دی پوائنٹ اور لاؤڈ اینڈ کلیئر تھی‘ اور ان کی گفتگو صرف اور صرف اپنے پیشہ ورانہ امور تک محدود تھی۔ کُچھ سوالات ایسے کئے گئے جو ان سے متعلق نہیں تھے اگر چاہتے تو وہ جواب دے سکتے تھے لیکن انہوں نے صاف کہا کہ یہ ان کی ڈومین نہیں ہے اور سوال پاس کر دیا۔ اس سے نئی سوچ اور پالیسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یومِ عزم اور یومِ تشکر منانے کیلئے ایک روز قبل وزیر اعظم آفس میں ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا‘ جس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے اور غیر ملکی سفارت کاروں کی بڑی تعداد کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انہیں ایک دستاویزی فلم کے ذریعے پلوامہ بالاکوٹ اور پھر پاکستان کی جوابی کارروائی کے مناظر دکھائے گئے۔ یہ تقریب تقریباً چالیس منٹ تاخیر سے شروع ہوئی۔ آڈیٹوریم میں تمام ملکی‘ غیر ملکی مہمان تشریف فرما تھے۔ کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ صرف پہلی روئوں کی دو کرسیاں خالی تھیں جن پر سب کی نظر تھی۔ برادر ارشد شریف، چوہدری غلام حسین، سمیع ابراہیم‘ عامر الیاس رانا اور محمد عادل عقبی نشستوں پر براجمان تھے‘ اور حسب معمول تقریب مقررہ وقت پر شروع نہ کرنے پر کُڑھ رہے تھے اور وقت کی اہمیت کے موضوع پر زور دیا جا رہا تھا کہ معلوم ہوا‘ سب کو تقریب ہال میں بٹھا کر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی خاموشی سے ملاقات جاری ہے۔ یہ ملاقات تقریباً تیس منٹ سے زائد جاری رہی اور تمام امور پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ تقریباً چالیس منٹ کی تاخیر کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔ دونوں خاصے خوش و خرم اور ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ خوش و خرم اس لئے کہ دونوں کے چہروں سے مسکراہٹ امڈ رہی تھی اور وزیر اعظم کے چہرے پر کُچھ زیادہ۔
کورونا وائرس پاکستان پر حملہ آور ہو چکا ہے‘ جس سے محفوظ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وائرس پاکستان میں نہیں تھا۔ اگر احتیاط کی جاتی تو اس سے بچا جا سکتا تھا‘ لیکن روایتی انداز نے ایسا ممکن نہیں رہنے دیا اور ایران کے راستے دو مریض پاکستان میں پہنچ چکے ہیں۔ مریضوں کی تعداد میں اضافے کا اندیشہ موجود ہے۔ اس خطرناک وائرس سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے‘ ورنہ بے حس ذخیرہ اندوزوں نے تو ماسک ہی مارکیٹ سے غائب کر دیے ہیں اور منہ مانگے دام وصول کیے جا رہے ہیں۔ ان رویوں نے ہی ہمیں بحیثیت قوم اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا کر دیا ہے ورنہ ہمارا دین تو ایسی مصیبت میں تمام انسانوں کی مدد کا حکم دیتا ہے۔ اس موذی مرض کی وجہ سے طواف کعبہ‘ روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر سلام پیش کرنے اور عمرے جیسی مقدس عبادت تک سے ہم عارضی طور پر محروم ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں