NNC (space) message & send to 7575

حکومت کے دو سال اور اپوزیشن کی امیدیں

پاکستان تحریک ِانصاف کی حکومت کو دوسال ہونے کو ہیں۔ آج سے دو برس پہلے ان دنوں عام انتخابات کے نتائج آچکے تھے۔ بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں‘ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام‘ عوامی نیشنل پارٹی کو شکست ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف سنگل لارجیسٹ پارٹی کے طور پر سامنے آئی ۔تاہم یہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔اپوزیشن نے حسبِ معمول انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کے شورشرابے میں حکومت سازی کا عمل مکمل کیاگیا۔ پیپلزپارٹی مطمئن نظر آئی کہ اسے سندھ کی حکومت واپس مل گئی‘ البتہ انتخابی نتائج کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمان سسٹم سے باہر ہوگئے‘ جس کی وجہ سے ان کا غیظ غضب آج تک برس رہا ہے۔ مولانا نے دھرنے کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرانے کی ایک ناپختہ کوشش کی جو ناکام رہی‘کیونکہ عین وقت پر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے کانٹا بدل لیا اور اپنے لیے آسائشیں حاصل کرلیں ۔ تاہم مولانا آج تک چودھری صاحبان سے حکومت کو گھر بھیجنے کی یقین دہانیوں کو پورا کرنے کا تقاضا کرتے رہتے ہیں‘ لیکن چودھری شجاعت حسین بھی مولانا کو صبرو تحمل اور مفاہمت کا درس دے رہے ہیں ۔
حکومت کے دوسال پر نظر دوڑائی جائے تو یہ دور کم وبیش محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت( 1988-1990)سے مشابہ نظر آتا ہے‘ جس میں محترمہ کو پہلی بار اقتدار ملا اور انہیں گورننس کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور بیورکریسی نے بھی محترمہ کو گھما کررکھ دیا تھا۔ پنجاب میں نوازشریف کی حکومت تھی جس نے محترمہ کو ایک دن بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا اور ایوانِ صدر میں اسحاق خان جیسے سخت گیر ایڈمنسٹریٹر براجمان تھے جنہوں نے اٹھاون ٹو بی کے تحت قومی اسمبلی توڑ کر پی پی پی حکومت کا خاتمہ کردیااور اٹھارہ ماہ بعد ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کو گھر بھیج دیا گیا۔ اس اعتبار سے عمران خان اپنے دوسال پورے کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔اس دوسالہ دورِ اقتدار کو بہت کم لوگ اچھا کہہ رہے ہیں اور وہ بھی مایوس ہوچکے ہیں جو عمران خان کے حامی تھے۔ اگر صرف حکومت کا جائزہ لیں تو بے شک اس دور کو پی ٹی آئی کے نعروں اور دعوؤں کی روشنی میں مثالی نہیں کہہ سکتے اور لوگوں کو جس برق رفتار تبدیلی کا تصور پیش کیاگیا تھا‘ جو کہ عملًا ممکن بھی نہیں تھی‘ وہ خواب پورا نہ ہوسکا ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسال کے مختصر عرصے میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن بھی نہیں ہوسکتی ‘ سو ایسا ہی ہوا ۔ناتجربہ کاری نے بھی پی ٹی آئی کو امورِ مملکت سمجھنے میں مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔خراب معیشت اور پھر کورونا وبا نے بھی رنگ میں بھنگ ڈال دی‘یہ اور بات ہے کہ کورونا کی آمد حکومت کے لیے نیک شگون ہی ثابت ہوئی اور اس دوران اپوزیشن کا زور شور بھی ٹوٹا اور حکومت کو کروڑوں خاندانوں میں ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ امداد تقسیم کرنے کا موقع بھی ملا اور کورونا کو قابو کرنے میں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بہتر نتائج برآمد ہوئے‘ جس کا کریڈٹ عمران خان صاحب لیتے نظر آتے ہیں۔
خارجہ پالیسی میں کامیابی نظر آئی لیکن کشمیر پالیسی میں سکوت محسوس کیاگیا ۔جس انداز میں عمران خان صاحب نے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ابتدائی طور ٹھایا تھا وہ جذبہ بعد کے ایام میں بوجوہ نظر نہیں آیا۔ شاید اس کی وجہ کچھ ہمارے اندرونی اختلافات بھی تھے‘ جس کا پیغام لائن آف کنٹرول کے اُس پار اچھا نہیں گیا۔عام آدمی اور تنخواہ دار طبقے نے بھی اس دوران کوئی ریلیف محسوس نہیں کیا اور معاشی پالیسیاں بڑوں کے مفادات کے گرد ہی گھومتی رہی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اقتصادی ٹیم میں کوئی منتخب وزیر شامل نہیں ہے۔ ایک کام جو حکومت نے زورو شور سے جاری رکھا اور جس پر وہ فخر بھی محسوس کرتی نظر آتی ہے وہ احتساب کا عمل ہے جس میں آٹا‘ گندم‘ چینی‘ بجلی کے شعبوں میں تحقیقاتی کمیشنز کی رپورٹس کو منظرعام پر لانا بھی شامل ہے‘ لیکن اس کے باوجود مہنگائی میں کمی نہیں آ پارہی۔ لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ کورونا اور اشیائے ضرور یہ سمیت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو سب اچھا ہے کی رپورٹ بھیجی جاتی ہے ‘وہ عام آدمی کے مسائل سے کوسوں دور ہیں اور شاید ان کے وزیر‘ مشیر اور معاونین بھی زمینی حقائق سے وزیراعظم کو آگاہ نہیں کررہے‘ جس کی وجہ سے درمیانے درجے کا ووٹر اِن سے دور ہوتا جارہا ہے۔ وزیراعظم کی اقتصادی ٹیم کی سوچ میں توازن نہیں ہے جو چھوٹے بڑوں سب کا احساس اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائے۔ شاہراہوں‘ رابطہ سڑکوں اور چھوٹی سڑکوںکی دیکھ بھال بھی صحیح طور پر نہیں ہوپارہی۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر و مرمت سست روی کا شکار ہے‘ گزشتہ ہفتے اسلام آباد سے بہاولنگر اور پھر حویلی لکھا اور دیپا لپور کے گردو نواح میں جانے کا اتفاق ہوا‘ موٹروے پر ٹوٹ پھوٹ‘ جی ٹی روڈ ساہیوال سے عارف والہ‘ بہاولنگر روڈ منچن آباد سے حویلی‘ پاکپتن ‘دیپالپور روڈ اور اوکاڑہ تک کی رابطہ سڑکوں کا بْراحال ہے اور یہ سب شدید عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ بتائی گئی کہ ترقیاتی فنڈز کو روکا گیاہے۔ اگر یہی رویہ رہا تو مزید کچھ عرصے کے بعد یہ سڑکیں شاید نظر بھی نہ آئیں۔ یہ ساری صورتحال اپوزیشن اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت اچھی ہے‘ جو اسے آئندہ انتخابات میں اپنے حق میں بھرپورطریقے سے استعمال کرے گی۔ 
لیکن اس سب کے باوجود عمران خان صاحب کی حکومت کو فوری طور پر نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی منقسم اپوزیشن انہیں کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن )کے قائد میاں نواز شریف لندن میں پُر سکون نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت کے راز دانوں کو کہا ہے کہ چند ماہ خاموشی اختیار کریں اور صرف اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم رکھیں۔ فی الحال کوئی بڑا ایڈونچر کرنے سے انہوں نے منع کردیا ہے ‘خاص طور پر پی پی پی کو صرف لولی پاپ دیا جائے گا کیونکہ نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں عمران خان کو داخلی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ہے اور ٹرمپ حکومت کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان قدرے محفوظ ہیں اور بیرونی سطح پر بھی کسی کا مزاج نہیں بگڑا۔ اس کی وجہ شاید زلفی بخاری کی ٹرمپ کے داماد سے قریبی دوستی بتائی جاتی ہے‘ جس کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے باہر بھی ہمدرد موجود ہیں۔
گزشتہ امریکی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن پر سرمایہ لگایا تھا‘ لیکن انتخابات ٹرمپ جیت گئے۔ اب پھر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دوبارہ ڈیموکریٹس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ٹرمپ کی شکست کے منتظر ہیں۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ اپوزیشن کو نومبر کے امریکی انتخابات کاانتظار کرنا چاہیے ‘ اگر جوبائیڈن جیت جاتے ہیں تو پھر ایک ہی بار ہلہ بولا جائے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا خیال ہے کہ اوباما اور کلنٹن کے زمانے کے ڈیموکریٹس کے ساتھ ان کے مراسم اور تعلقات ہیں۔ اس سال نومبر میں اگر ڈیموکریٹس کامیاب ہوئے تو پاکستان کی سیاست میں بھی اس کے اثرات دکھائی دیں گے اور پاکستان میں ان کی افادیت اور ضرورت بڑھ جائے گی۔ اب تک کے اندازے اور سروے بتارہے ہیں کہ ٹرمپ کی مقبولیت دن بدن گر رہی ہے اور جوبائیڈن کا ووٹ بینک بڑھتا جارہا ہے۔ کورونا اور نسلی فسادات نے ٹرمپ کو اور بھی پیچھے دھکیل دیا ہے‘ لیکن اگر ٹرمپ کم بیک کرگئے تو پھر اپوزیشن کو کچھ اور سوچنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں