سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی گوریلا جنگ میں دنیا بھر میں صرف دو نام ہی گونج رہے تھے: پاک فوج اور آئی ایس آئی۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی کمان جنرل اختر عبدالرحمن کے ہاتھ میں تھی۔ افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد 22 مارچ 1989ء کو واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ ''17 اگست 1988ء تک آئی ایس آئی تیسری دنیا کی سب سے مؤثر اور جدید ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا مرتبہ حاصل کر چکی تھی اور یہ مغربی سفارت کاروں اور عسکری مبصرین کی متفقہ راے ہے‘‘۔ آئی ایس آئی نے یہ پوزیشن کس طرح حاصل کی، اس کی کہانی جون 1979ء سے اگست 1988ء تک پھیلی ہوئی ہے۔
جون 1979ء میں آئی ایس آئی چیف محمد ریاض خان حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کرگئے تو نئے چیف کے لیے جنرل ضیاء الحق کی نگاہِ انتخاب جنرل اختر عبدالرحمن پر پڑی۔ ایک ایسے وقت میں یہ ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی جب پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بڑی مشکل صورتِ حال سے دوچار تھا۔ افغانستان عدم استحکام کا شکار تھا اور مہاجرین کا کوئی نہ کوئی قافلہ روزانہ پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ ایران میں ڈھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور امام خمینی کی قیادت میں ایرانی معاشرہ ایک انقلاب کے عمل سے گزر رہا تھا۔ پاکستان کے اندر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خلاف اپوزیشن متحد ہو چکی تھی۔ ان غیر واضح حالات میں پاکستان کے ازلی دشمن بھار ت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پوری طرح سے متحرک ہو چکی تھی۔
عسکری تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگیں خفیہ ایجنسیوں کے بل پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ جن لوگوں نے دنیا کے عظیم فاتحین کی داستانیں پڑھی ہیں ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ان کی جنگی فتوحات میں سب سے اہم فیکٹر ان کی خفیہ ایجنسیاں تھیں۔ بقول فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی‘ خفیہ ایجنسیاں فوج کی آنکھیں ہوتی ہیں جن سے وہ اپنے دشمن کو دیکھتی‘ اس کے خلاف حکمت عملی وضع کرتی اور فتح حاصل کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی دنیا کے سبھی ممالک اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوں کو لامحدود بجٹ فراہم کرتے ہیں، ان کو طاقتور سے طاقتور بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی ملکی سلامتی سے متعلق اہم قومی فیصلے کرتے ہیں۔
جنرل اختر عبدالرحمن نے آئی ایس آئی کی کمان سنبھالی تو اس وقت یہ ایک تدریجی عمل سے گزر رہی تھی؛ چنانچہ آئی ایس آئی چیف بنتے ہی جنرل اختر اسے ایک مؤثر خفیہ ایجنسی بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کر دیں۔ نئی اور بہترین افرادی قوت بھرتی کی۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جفاکش جوان اور ذہین افسر اکٹھے کیے۔ ان کو ہر طرح کے وسائل فراہم کیے۔ ان کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تربیت کی۔ اس طرح اپنی محنت، مہارت اور لگن سے کچھ ہی عرصہ میں آئی ایس آئی کو پیشہ ورانہ لحاظ سے ایک ایسی زبردست فورس میں تبدیل کر دیا جس پر ہر طرح کے حالات میں فوج انحصار کر سکتی تھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں اختر عبدالرحمن خان اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں برکی کے محاذ پر میجر کی حیثیت سے اختر عبدالرحمن خان کی رجمنٹ نے جو کردار ادا کیا‘ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے لکھتے ہیں ''1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے والے شہیدوں اور غازیوں نے عہدِ رفتہ کے مسلمان مجاہدوں کی یاد تازہ کر دی تھی اور ان میں اختر عبدالرحمن کا نام بھی شامل ہے‘‘۔ 23 ستمبر 1965ء کو جب جنگ ختم ہوئی تو اسی روز اختر عبدالرحمن کو میجر کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا جو جنگِ ستمبر میں ان کے بھرپور کردار کا اعتراف تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن اور آئی ایس آئی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قدرت کو ان سے کوئی بہت بڑا کام لینا مقصود ہے۔
یہ اندازہ اس وقت سچ ثابت ہوا جب دسمبر 1979ء میں افغانستان میں وہ میدان کارزار گرم ہوا جس کے لیے دستِ قدرت برسوں سے جنرل اختر کی پرورش کر رہا تھا۔ روسی فوجیں اپنے بکتر بند دستوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو گئیں اور ایک طرح سے اس کو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا۔ پاکستان کے پاس اب دو راستے تھے؛ پہلا یہ کہ خوف زدہ ہو کر چپ سادھ لی جائے، دوسرا یہ کہ روسی فوجوں کے خلاف افغان مزاحمت کا ساتھ دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی بطور آئی ایس آئی چیف رائے یہ تھی کہ روس کو اگر افغانستان میں نہ روکا گیا تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔ لیکن اس جنگ میں پاکستان کو بالواسطہ طور پر اپنا کردار ادا کرنا تھا، یعنی عملی طور پر یہ پراکسی وار لڑنا تھی۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے یہ جنگ کس طرح لڑی اور جیتی‘ دنیا کی جنگی تاریخ کا یہ ایک انتہائی ولولہ انگیز باب ہے۔ امریکہ کے عسکری امور کے ماہر بروس ریڈل نے افغانستان پر اپنی تحقیقی کتاب What we won: America's secret war in Afghanistan 1979-89 میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے: ''یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو لیڈرشپ، ٹریننگ اور سٹریٹیجی مہیا کی اور یہ افغان عوام اور پاکستان ہی تھے، جنہوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں‘‘۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ اور مغرب کے سیاسی دانشور اور عسکری ماہرین جنرل اختر عبدالرحمن کے افغان وژن کا برملا اعتراف کرتے ہیں بلکہ اکثر اس طرح کے سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں کہ اگر جنرل ضیا اور جنرل اختر زندہ رہتے تو خطے کی تاریخ کتنی مختلف ہو سکتی تھی۔ بروس ریڈل اس حوالے سے لکھتا ہے ''آج کچھ لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن زندہ رہتے تو 1989ء میں بے نظیر بھٹو حکومت کے برعکس‘ کابل پر حکومت کے لیے مجاہدین کی صفوں میں ہم آہنگی اور ڈسپلن پیدا کرتے، سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد جس کی مجاہدین کو اشد ضرورت تھی‘‘۔
جنرل اختر عبدالرحمن کی سربراہی میں انٹیلی جنس اداروں نے اندرونِ ملک بھی اپنی مہارت کا بھرپور ثبوت دیا۔ جولائی 1980ء کے پہلے ہفتے میں ایک دائیں بازو کی جماعت نے اسلام آباد میں عملی طور پر سول سیکرٹریٹ کا محاصرہ کر لیا، تمام دفاتر بند ہو گئے اور حکومتی مشینری مفلوج ہو گئی۔ جب وزارتِ داخلہ بھی بالکل بے بس ہو گئی تو صدر ضیا نے یہ مشن جنرل اختر کو سونپ دیا، جنہوں نے بغیر کسی خون خرابہ‘ انتہائی مہارت کے ساتھ اس مسئلے کو اس طرح حل کیا کہ مذکورہ جماعت نے محاصرہ ختم کر دیا اور مطمئن ہو کر گھر چلی گئی۔ اسی طرح جب کچھ افسروں نے یوم پاکستان کی پریڈ میں صدر ضیا کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو یہ منصوبہ بھی آئی ایس آئی ہی نے پکڑا اور ناکام بنایا تھا۔ اسی طرح جب اسلام آباد میں کچھ مشتعل مظاہرین نے عین اس وقت امریکی سنٹر کو آگ لگا دی جب اس کے اندر امریکی عملہ موجود تھا تو جنرل اختر عبدالرحمن ہی نے اس ریسکیو آپریشن کی نگرانی کی تھی اور امریکیوں کو بحفاظت باہر نکالا تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی نگرانی میں ہونے والی ایسی بہت ساری اندرونی اور بیرونی کارروائیاں ہیں۔ مارچ 1987ء میں جب جنرل اختر عبدالرحمن کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کرچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنایا گیا تو اس وقت پوری دنیا میں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے زیر کمان آئی ایس آئی کا یہ دور آج بھی دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔