"SAC" (space) message & send to 7575

ایک اہم تقرری

پاکستان کے آزمودہ اور تجربہ کار سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے نجم سیٹھی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ وہ بیک وقت ملکی اور بین الاقوامی مقتدر طبقوں کے ساتھ ساتھ اہل سیاست میں بھی کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب تقرری پر خوشی کا اظہار بھی کیا گیا اور اعتراضات بھی ۔بعض میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی زیربحث رہا کہ کیا میڈیا سے وابستہ کسی فرد کو اقتدار کا حصہ بننا بھی چاہیے کہ نہیں۔ یقینا سوال اہم ہے لیکن اس کا جواب متعلقہ فرد ہی دے سکتا ہے۔ تاہم اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ بطور نگران وزیراعلیٰ ان کا کردار کیا ہوگا اور وہ کس حد تک اس عہدے سے انصاف کرسکیں گے۔ اس بحث سے قطع نظر مرکز اور پنجاب میں نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے حوالے سے صدر زرداری نے کمال ہوشیاری سے نوازشریف کے لیے مشکل صورتحال پیدا کی ہے۔ اگرچہ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی تقرری میں پیپلزپارٹی اور چودھری برادران کے ساتھ ساتھ نوازشریف کی حمایت اہمیت کی حامل ہے۔ نوازشریف کی جانب سے ان کی حمایت پر ان کی اپنی جماعت اور حمایت یافتہ حلقوں میں کافی مایوسی پیدا ہوئی لیکن نوازشریف کا فیصلہ انہیں تسلیم کرنا پڑا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ نوازشریف کے مقابلے میں شہباز شریف اس تقرری پر زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ کی تقریب حلف برداری میں جانے سے گریز کیا، حالانکہ باقی صوبوں میں سابق وزرائے اعلیٰ نگران وزرائے اعلیٰ کی تقریب حلف برداری میں شریک تھے۔ شہباز شریف جسٹس (ر) عامر رضا خان پر انحصار کیے ہوئے تھے اوران کا خیال تھا کہ وہی نگران وزیراعلیٰ بنیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ مرکز سے بھی زیادہ مشکل تھا کیونکہ پنجاب کو مسلم لیگ (ن) کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین‘ جن میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف شامل ہیں‘ ہر صورت میں ایسا نگران وزیراعلیٰ چاہتی تھیں جو کسی بھی صورت میں مسلم لیگ)ن(کا حمایت یافتہ نہ ہو۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مرکز اور پنجاب میں نگران وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی تقرری پر صدر زرداری اور نواز شریف میں کچھ لو او رکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت ہوجائے گی لیکن یہ مفاہمت آسان نہیں تھی ۔ نگران وزیر اعظم کی تقرری کے بعد یہ خیال غالب تھا کہ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ مسلم لیگ )ن(کا پیش کردہ نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے کیمپ سے ہوگا۔مسلم لیگ)ن(کے سیاسی مخالفین کا خیال تھا کہ اگر نگران وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مرضی سے آئے گا تو وہ پنجاب کی انتظامی مشینری پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ہماری انتخابی سیاست میں نگرانوں کے حوالے سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں کس کے لیے حمایت اور مخالفت کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ۔کیونکہ یہاں ڈی سی او، ڈی پی او اور دیگر صوبائی و ضلعی انتظامیہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اگر انہیں ’’ اشارہ ‘‘ ملے تو وہ اپنا کھیل شروع کردیتے ہیں جو کسی کے لیے فائدہ مند او رکسی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔اس لحاظ سے یہ تقرری مسلم لیگ)ن(کے سیاسی مخالفین کے لیے زیادہ قابل قبول ہے ۔ پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ)ق(کے علاوہ عمران خان او رمنور حسن نے بھی ان کی تقرری کو خوش دلی سے قبول کیا ہے ۔نواز شریف کی جانب سے نجم سیٹھی کی حمایت نے مسلم لیگ )ن( میں ان کے مخالفین کوبھی فی الوقت خاموش کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی ،چودھری برادران اور عمران خان نے نگران وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتظامی بنیادوں پر بڑی تبدیلیوںکا مطالبہ کیا ہے ۔ ان کے بقول پنجاب میں اب بھی انتظامی مشینری میں بہت سے ایسے لوگ اہم عہدوں پر موجود ہیں جو مسلم لیگ ن کے حامی ہیں۔ چنانچہ پنجاب کی انتظامی مشینری میںتبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے اور آئندہ چند دنوں میں یہ عمل تیز تر ہونے کا امکان ہے ۔چیف سیکرٹری پنجاب کے لیے قمر زمان کی تقرری پر کہا جارہا ہے کہ انہوں نے خود اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ، حالانکہ ان کی تقرری پر نگران وزیر اعلیٰ کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کی تقرری کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے بقول قمرزمان کا تعلق ایک بااثر سیاسی شخصیت سے ہے جو انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور یہ بھی کہ چیف سیکرٹری ضرور تبدیل ہونا چاہیے، لیکن یہ تقرری ان کی مرضی اور مشاورت سے مشروط ہونی چاہیے۔عمران خان نے بھی انہیں قمرزمان کی تقرری پر اپنے تحفظات سے ْآگاہ کیا تھا کہ قمر زمان شریف برادران سے تعلقات کی وجہ سے انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ انتخابات میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے لیے بہت اہم ہیں۔ پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کئے ہیں۔ اس کا سہرا سیاستدانوں کو ہی جاتا ہے ۔ اگرچہ اس دوران میں ایسے کئی مواقع بھی آئے جب ایسا لگ رہا تھا کہ معاملہ آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ تاریخیں بھی دی جاتی رہیں اور مختلف حلقوں کی طرف سے یہ شبہ بھی ظاہر کیا جاتا رہا کہ سیٹ اپ ختم ہونے والا ہے لیکن ایسا نہ ہوا۔ دہشت گردی میں اضافے کی وجہ سے بھی حکومت کو مشکل کا سامنا رہا تاہم فوج نے ملک کے ہر محاذ کو سنبھالے رکھا۔ مہنگائی سابقہ دور سے کئی گنا بڑھ گئی جس کی وجہ سے عوام کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ پنجاب حکومت کی طرف سے عوامی اہمیت کے بہت سے اقدامات کئے گئے لیکن مجموعی طور پر صوبے کی صورتحال میں بہت زیادہ فرق نہ پڑا۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مرکز اور صوبوں کے درمیان کھچائو برقرار رہا۔ گیس کے بحران کی وجہ سے معیشت کی صورتحال بھی زیادہ اچھی نہ رہی۔ اس کے باوجود حکومت کا پانچ سال مکمل کر جانا سیاستدانوں کی کامیابی شمار کیا جائے گا۔ انتخابات میں پنجاب کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا صوبہ ہے۔ نو منتخب نگران وزیراعلیٰ منصفانہ اور شفاف انتخابات کو اپنی بنیادی ترجیح قرار دیتے ہیں، اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو پنجاب کا سیاسی میدان بہت سے سیاسی فریقوں کے لیے انتخابی نتائج کی غیر جانبداری کو قابل قبول بنانے میں مدد فراہم کرسکتا ہے ۔ان کے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ اچھے روابط ہیں اور وہ چاہیں گے کہ مستقبل میں بھی ان کے یہ روابط قائم رہیں ۔ اس لیے وہ براہ راست کسی بھی جماعت کی انتظامی و سیاسی حمایت یا مخالفت سے گریز کریں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں