"SAC" (space) message & send to 7575

لڑکیوں کی تعلیم اور ملالہ کا عزم

سوات میں طالبان یا انتہا پسندوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والی بہادر اور پرعزم ملالہ یوسف زئی اب عالمی دنیا میں ’’ تعلیم کے میدان ‘‘ میں ہماری بڑی سفیر بن کر سامنے آئی ہیں ۔ پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی ’’ یوتھ جنرل اسمبلی ‘‘ کے خصوصی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تعلیم اور بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم میں پائی جانے والی محرومیوں اور مسائل کاذکر کرکے خاصی توجہ حاصل کی ۔اس اہم تقریب میں دنیا کے 80ملکوں سے آئے ہوئے پانچ سو سے زائدبچوں اور نوجوانوںسمیت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور ان کے دیگر رفقا کے سامنے ملالہ یوسف زئی نے جس ہمت اور بہادری کے ساتھ تعلیمی جہاد کاذکر کیا وہ قابل تعریف ہے ۔ملالہ یوسف زئی کے بقول ’’ہمیں انتہا پسندی اور جہالت کے خلاف قلم اور کتاب کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا‘‘اور ایک طالب علم ، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب ہی ہماری دنیا کو بدلنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے‘‘ ۔ملالہ کے بقول میں ان معصوم بچیوں کی آواز ہوں جن کی آواز اس وقت دنیا میں کہیں نہیں سنی جارہی جو پرامن ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں ۔ملالہ کو تعلیم کے حصول میں عملی طور پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اب وہ اس دہشت گردی یا انتہا پسندی کے سامنے ایک مضبوط دیوار بن کر تعلیم کے میدان میں کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں جس کی ہر سطح پر پزیرائی کی جانی چاہیے۔اقوام متحدہ کے اس خصوصی اجلاس میں جو کچھ ملالہ نے کہا اس میں ہماری ریاست اور حکمران طبقات کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ وہ اپنی ترجیحات میں تعلیم کو کس درجہ پر رکھتے ہیں ۔ دراصل پاکستان میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی نعروں کی بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے ۔ کیونکہ بالادست طبقات زیادہ تر ذاتی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں غریب طلبہ اور بالخصوص لڑکیوں کو تعلیم جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔اگرچہ ہمارے حکمران تعلیمی میدان میںکامیابی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں ، لیکن عملی طور پر صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم شرح خواندگی کے حوالے سے قومی اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہی نہیںرہی۔حالانکہ تعلیم کا فروغ ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔پاکستان میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد آرٹیکل 25-Aکے تحت اب ریاست او رحکومت پابند ہیں کہ وہ تعلیم کے فروغ کو یقینی بنائیں، لیکن ہمارے یہاں صورتِ حال مایوس کن ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2012-13ء کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں شرح خواندگی 58فیصد ہے ، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح خواندگی بالترتیب 70اور47فیصد ہے۔ اس کے علاوہ شہروں اور دیہات میں بھی واضح تفریق پائی جاتی ہے ۔ شہروں میںعمومی شرح خواندگی 75فیصد اور لڑکوں اور لڑکیوں کی بالترتیب82اور68فیصد ہے ، لیکن دیہات میں شرح خواندگی49فیصداور لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح میں بالترتیب64اور35فیصد ہے ۔پنجاب، جہاں تعلیمی ترقی کے زیادہ دعوے کیے جاتے ہیں ۔ 40فیصد کے قریب لوگ ناخواندہ ہیں ،جبکہ شہروںمیں 25فیصداور دیہات میں 48فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ لڑکیوںکی سطح پر پنجاب کے شہری علاقوںمیں 30فیصد اور دیہی سطح پر 59فیصد بچیاں ناخواندہ ہیں۔ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بالترتیب 30اور 77فیصد لڑکیاں ناخواندہ ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں شہری اور دیہی علاقوں میں بالترتیب 49اور69فیصد لڑکیاں ناخواندہ ہیں۔ بلوچستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی شرح خواندگی بالترتیب 56اور84فیصد ناخواندہ ہیں ۔ لڑکیوں کی تعلیم میں کمی کی وجہ ہمارا فرسودہ سماجی ڈھانچہ بھی ہے ، جہاں قبائلی اور علاقائی رسم و رواج کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت نے ان فرسودہ روایات کو بدلنے کے لیے کچھ کیا؟ کیونکہ یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ وہی لوگ جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں حکمرانوں کے ساتھ یا ان کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں حالانکہ ریاست اور حکومت پابند ہیں کہ ہمیں2015ء تک جی ڈی پی کا7فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنا ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد جب صوبائی خود مختاری میں استحکام آیا تو اب صوبے بھی پابند ہیں کہ وہ جی ڈی پی کا 4فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کریں ۔ تاہم فی الحال ایم ڈی جی)ملینیم ڈویلپمنٹ اہداف(میں تعلیمی اہداف کے حوالے سے کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے،یعنی ہم مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اول تو تعلیم کے لیے مختص کیے گئے بجٹ کو پورا خرچ کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے ، دوئم اگر ہمیں ترقیاتی منصوبوں یا infrastructureکے لیے پیسے درکار ہوں تو ہم تعلیم یا کسی اورسماجی شعبہ کے بجٹ میں کٹوتی کرکے غیر اہم منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن تو بنالیا او راس پر اربو ں روپے بھی خرچ کرڈالے،جبکہ بنیادی اور پرائمری تعلیم کا کوئی مضبوط ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اس صورت میں پرائمری ایجوکیشن کمیشن کے مقابلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کچھ بھی نہیں کرسکے گا۔پاکستان میں تو پرائمری تعلیم کے حوالے سے بھی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے اور ہر لڑکی کے لیے سکول تک رسائی ممکن نہیں ۔ ایک طرف ہم ریاست اور حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ سب کو تعلیم مہیا کرے ، دوسری طرف حکومت تعلیم کی نج کاری میں پیش پیش نظر آتی ہے ۔اسی طرح ایک طرف ہماری حکومتیں بچوں کے داخلوں پر خصوصی توجہ دینے کی کوشش کرتی ہیں تو دوسری طرف حکومتی رویوں، غربت ،سہولتوں کی کمی اور فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے 50فیصد سے زیادہ بچے پرائمری تعلیم کے دوران ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی نے تعلیمی رکاوٹوں کا زیادہ تر ذمہ دار انتہاپسندی یا دہشت گردی کو ٹھہرایا ہے ، یقینا یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ طالبان فیم اسلام کے دعوے داروںنے لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیںلیکن ہمارے یہاں لڑکیوں کی تعلیم سے دور رہنے کی وجہ سماجی رکاوٹیں بھی ہیں جو مقامی قبائلی نظام ، برداری ،جہالت اور عورتوں یا لڑکیوں کے بارے میں سماجی تعصبات پر بھی مبنی ہیں۔ ان رکاوٹوں کے خلاف تو ہماری سیاسی جماعتوں ، مذہبی راہنمائوں اور اہلِ دانش نے کام کرنا تھا ، لیکن ان لوگوں کی ترجیحات میں لڑکیوں کی تعلیم بہت پیچھے ہے ۔ہماری سیاست ایسے ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتی ہے جو لوگوں کو تعمیر و مرمت کی صور ت میں نظر آئے ، جبکہ ایسے کام جو فکری بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل میں مدد کرتے ہیں وہ ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ اس لیے اگر واقعی ہم نے لڑکیوں کی تعلیم سمیت مجموعی طور پر تعلیم کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہے تو ہمیں پرائمری تعلیم میں واقعتاً تعلیمی ایمرجنسی یا ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ بجٹ تعلیم پر خرچ کرتے ہوئے نگرانی کے عمل کو مؤثر اور معیار ِتعلیم کو بلند تر بنائیں۔یہ کام تن تنہا حکومت نہیں کرسکے گی ، اس کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر اپنی قومی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔لیکن مقام افسوس ہے کہ جو بجٹ بھی تعلیم کی ترجیحات کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اہل اقتدار کو سمجھنا چاہیے کہ محض تعلیمی ڈے یا ملالہ ڈے منانے سے تعلیمی انقلاب نہیں آئے گا، اس کے لیے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ریاست اور معاشرے میں تعلیم کے حوالے سے ایک بڑی سماجی و سیاسی تحریک پیدا ہو، جو حکومت پر دبائو ڈالے اور تعلیمی پس ماندگی کے خاتمہ کا سبب بنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں