"SAC" (space) message & send to 7575

پنجاب کا نیا نظام اور مقامی حکومتیں

حکومت پنجاب کا پیش کردہ بلدیاتی نظام 2013ء مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانے ، لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے اور حکمرانی کے نظام کو موثر بنانے کے عمل کی نفی کرتا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اب دنیا میں موثر حکمرانی کا دارو مدار نچلی سطح تک زیادہ سے زیادہ اختیارات کی منتقلی اور مضبوط مقامی نظام حکومت پر ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک حکمرانی کے نظام کو موثر بنانے کی طرف گامزن ہیں ، جبکہ ہم ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے انہی غلطیوں کو دہراکرمسائل میں اضافہ کرتے جاتے ہیں ۔ مسلم لیگ )ن(کی حکومت نے صوبہ پنجاب میں مقامی حکومتوں سے متعلق ’’ نیا بلدیاتی ایکٹ2013ء ‘‘کابینہ سے منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگرچہ اس نئے نظام کو2013ء کا نام دیا گیا ہے ، لیکن عملی طور پر یہ 1979ء کے بلدیاتی نظام سے مماثل ہے ۔یہ نظام مقامی حکومتوں کی بجائے بلدیاتی اداروں کو فوقیت دیتا ہے۔ بلدیاتی اداروں میں مقامی حکومتوں کے مقابلے میں سیاسی، انتظامی ا و رمالی اختیارات ضلعی سطح کی بجائے صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں ، جس سے اس نظام کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے ۔پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا مجوزہ نظام 1973ء کے دستور کی شق 140-Aکے بھی خلاف اور متصادم ہے ،کیونکہ آئین کی شق 140-Aکے تحت ’’ تمام صوبے پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کی تشکیل کو یقینی بنا تے ہوئے سیاسی، انتظامی او ر مالی اختیارات کو عوام کے منتخب مقامی نمائندوں کو منتقل کریں گے۔‘‘اسی طرح آئین کی شق 32کے تحت ریاست پابند ہے کہ مقامی حکومتوں کے اداروں کو منتخب نمائندوں کے ذریعے چلائیں اور ان میں بالخصوص کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں اور عورتوں کی نمائندگی کو یقینی بنائیں ۔ 15مئی 2006ء کومیثاق جمہوریت جیسے سیاسی معاہدے میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ)ن(اور پیپلز پارٹی نے مقامی حکومتوں کے نظام پر جو اتفاق کیا تھا ، وہ بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ میشاق جمہوریت کی شق 10میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد’’مقامی حکومتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرکے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان اداروں کو مکمل طور پر خود مختاری دی جائے ۔‘‘ اب پنجاب میں جو نظام سامنے لایا جارہا ہے وہ 1973ء کے آئین سمیت میثاق جمہوریت میں کی گئی سیاسی و قانونی کمٹمنٹ کے برعکس ہے۔ میثاق جمہوریت کی شق 10میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہر صورت جماعتی بنیادوں پر ہونگے، تاکہ مقامی سطح پر برادریوں اور گروہی طبقات کے مقابلے میں سیاسی جماعتیں اور جمہوری ادارے مضبوط ہوسکیں ۔لیکن اب پنجاب کی صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یونین اور وارڈ کی سطح پر کونسلرز کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونگے ، جبکہ تحصیل، ٹائون، میونسپل کمیٹی، ضلع کونسل کا چیئرمین، لارڈ میئر،میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔جمہوری قوتوں کا جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے گریز عملی طور پراپنے ہی طے کردہ اصولوں کے خلاف غیر جمہوری فیصلہ ہے ۔غیر جماعتی انتخابات کی ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ اس عمل سے مقامی سطح پرتشدد کے عمل کو روکا جاسکتا ہے ۔ یہ دلیل بہت زیادہ وزنی نہیں ، کیونکہ غیر جماعتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں برداری یا دھڑے بندی کی سیاست کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف ہم غیر جماعتی انتخابات کا فیصلہ کرتے ہیں تو دوسری طر ف انتخابات عملی طو رپر جماعتی بنیادوں پر کرائے جاتے ہیں ۔یہ فیصلہ کہ یونین اور وارڈ کے برعکس دیگر عہدوں پر انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے، منفی سیاست کا حصہ ہے ۔ کیونکہ خدشہ ہے کہ غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والے کونسلرز کوحکمران چیئرمین، میئریا ڈپٹی میئرکے انتخابات میں ہتھیار کے طو رپر استعمال کریں گے۔ مجوزہ نظام میں 2000-01ء میں ختم کی جانے والی دیہی و شہری تقسیم کو دوبارہ بحال کردیا گیا ہے ۔پانچ سے پچیس لاکھ آبادی والے شہروں میں میونسپل کمیٹی ہو گی۔پچیس سے پچاس لاکھ آبادی والے شہروں میں میونسپل کارپویشن قائم ہوں گی۔پچاس لاکھ سے زائد آبادی والوں شہروں میں میٹرو پولٹیین سسٹم ہو گا۔میٹرو پولٹین سسٹم میں میئر جبکہ کارپوزیشن اور میونسپل کمیٹی میں چیئرمین منتخب ہوں گے ۔شہروں میں موجود 2001ء کے نظام میں موجود یونین کونسل اور ناظم اور نائب ناظم کو ختم کرکے وارڈ کی بنیاد پر کونسلرز کا نظام متعارف کروایا جائے گا۔ہمارا دعوی یہ ہوتا ہے کہ ہم اختیارات کو مقامی سطح پر منتقل کرکے مقامی نظام کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن جب نظام بنایا جاتا ہے تو ہم شہروں میں یونین کی سطح پر کونسل او راس کے سربراہ کی اہمیت کو نظر انداز کرکے اختیارات کی مرکزیت کو مضبوط بناتے ہیں ۔شہروں کی سطح پر وارڈ کا نظام عورتوں، مزدوروں، کسانوں اور اقلیتوں کی نمائندگی سمیت شہریوں کی موثر شراکت کو بھی کم کرنے کا باعث بنے گا۔جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ وارڈ یا یونین کی سطح پر منتخب لوگ خود نظام چلا ئیں، لوگوں کے مسائل کو حل کریں ۔ نئے نظام میں ضلعی سطح پر تعلیم اور صحت کے لیے خود مختار اتھارٹیاں بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ، ان ضلعی کمیٹیوں میں تین ارکان اسمبلی اور ایک ممبر اپوزیشن سے ہوگا۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کو خو د مختار بنایا جائے گا تو پھر ان خود مختار ضلعی حکومتوںمیں اتھارٹیوں کے قیام کی ضرورت کیا تھی ۔ خدشہ یہ ہے کہ اس طرز کی اتھارٹیوں کا مقصد ان اداروں کو اپنی پسند کے سیاسی افراد کی مدد سے چلایا جائے گا۔ حالانکہ مقامی حکومتوں میں تعلیم اور صحت کی ذمہ داری بھی اتھارٹیوں کے مقابلے میں مقامی منتخب حکومتوں کے سپرد ہونی چاہیے۔ نئے تجویز کردہ نظام میں بہت زیادہ اختیارات مقامی حکومتوں کو دینے کی بجائے صوبائی حکومتوں کو دیے گئے ہیں جس سے حقیقی طور پر ’’مقامی حکومت ‘‘ کے اصولوں کی نفی ہوتی ہے ۔ملک میں18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اچھا فیصلہ یہ ہوا کہ مرکز نے اپنے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کیے ۔ اسی 18ویں ترمیم کی رو سے ضروری تھا کہ اب صوبے اپنے اختیارات ضلعی اور نچلی سطح پر منتقل کرتے، لیکن عملاپنجاب سمیت دیگر صوبوں میں موجود حکومتیںاختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی بجائے مرکزیت کے نظام کی حامی ہیں۔ اس نئے نظام میں عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں جس میں امن وامان کی ذمہ داری بھی منتخب نمائندوں کے بجائے انتظامی افسروں کے پاس ہوگی۔خدشہ یہ ہے کہ پہلے صوبائی حکومتیں مرکز کے خلاف اختیارات کی مرکزیت پر واویلا کرتی تھیں، اب ضلع کی سطح پر یہ آوازیں اٹھیں گی کہ صوبے ان کے اختیارات کو سلب کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں ہماری سیاسی قوتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سمیت وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کی برطرفی میں صدارتی اختیارات 58ٹوبی کے خلاف تھیں، جو اب 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوگیا ہے ۔ 58ٹو بی ملک میں فرد واحد کومنتخب حکومت کو برطرف کرنے کا اختیا ر دیتا تھا، جو جمہوری اصولوں کے برعکس تھا ۔ لیکن پنجاب کی حکومت کا یہ نیا نظام وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دیتاہے کہ وہ عوام کے منتخب چیئرمین، میئر اور لارڈ میئرکو کسی بھی الزام کے تحت معطل کرسکتا ہے ۔یہ عمل چیئرمین ، میئر، لارڈ میئر کو صوبائی حکومت یا وزیر اعلیٰ کے دبائو میں رکھے گا کہ وہ ایسا کوئی بھی عمل نہ کریں جو صوبائی حکومت یا وزیر اعلیٰ کی خواہش کے برعکس ہو۔مقامی نظام حکومت کو مضبوط نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ترقیاتی بجٹ ہے۔ اصولی طورپر یہ بجٹ مقامی حکومتوں کے تحت خرچ ہونے چاہئیں، لیکن قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی توجہ بھی ترقیاتی بجٹ اور وسائل پر ہوتی ہے ۔ چنانچہ صوبائی او رمقامی حکومتوں کے درمیان ٹکرائو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ارکان اسمبلی اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ صوبے کی جمہوری قوتوں کو پنجاب کے مجوزہ بلدیاتی نظام پر آواز اٹھانی چاہیے،کیونکہ یہ نظام ملک میں طرز حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کی بجائے اور زیادہ بگاڑ کا سبب بنے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں