"SAC" (space) message & send to 7575

علاقائی مسائل اورحکمت عملی

پاکستان کا سیاسی ، سماجی اور معاشی استحکام علاقائی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے،ہمارے حکمران دیگر ممالک سے تعلقات کی بحالی میں بڑے پرجوش نظر آتے ہیں،لیکن علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ان کا رویہ وہ نہیں جو قومی مفاد اور داخلی استحکام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔یہ معاملہ محض پاکستان کا نہیں،دیگر علاقائی ممالک کا طرز عمل بھی وہ نہیں،جو ہونا چاہیے تھا۔
پچھلے ہفتے مجھے کابل میں کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جو علاقائی امن اور میڈیا کے کردار کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔اس کانفرنس میں افغانستان ، پاکستان ، ترکمانستان اور تاجکستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔کانفرنس کے ایک سیشن میں مجھے بھی اظہار خیال کا موقع ملا۔کانفرنس میں یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ علاقائی ممالک کے درمیان موثر رابطہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے بارے میں کافی بدگمانیاں اور مسائل پائے جاتے ہیں۔بہت سے مسائل تو لوگوں کے انفرادی تعصبات اور غلط فہمی پر مبنی تصورات کی وجہ سے ہیں، جبکہ بعض مسائل حقائق پر مبنی ہیں۔افغان جنگ کے بعد پاکستان نے جو کچھ افغان عوام کے لیے کیا، وہ قابل قدر ہے لیکن وہاں لوگوں کا 
خیال ہے کہ افغانستان کی تباہی میں پاکستان بھی شریک ہے۔ یہ محسوس کیاگیا کہ ہمارے سفارت کار وہاں کے لوگوں کی شکایات کو موثر انداز میں دور نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس بھارت اپنی بہتر سفارت کاری اور میڈیا وار کی مدد سے اپنے لیے زیادہ بہتر مواقع پیدا کررہا ہے۔ وہاں کے اہل دانش اور میڈیا سے وابستہ افراد پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور ان کے بقول یہ پالیسی پشتون مفادات کے تحفظ تک محدود ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند سالوں سے ہمارے سفارت خانہ نے پشتونوں سے ہٹ کر دیگر فریقوں سے رابطے قائم کیے ہیں لیکن ابھی اس عمل کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔
اس خطے میں بعض مسائل ہم سب کے مشترکہ ہیں۔ان میں دہشت گردی، کمزور جمہوری نظام ، کمزور ادارے ، غربت، بری طرز حکمرانی اور معاشی بدحالی شامل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ہم نے کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع نہیں کی۔اسی وجہ سے باہمی تنازعات میں شدت اور ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی پیدا ہوئی۔مختلف علاقائی ممالک اپنے داخلی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے دوسرے ممالک پر ڈال کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔حالانکہ مشترکہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور تجربات کے تبادلے سے ہم خطے میں موجود سیاسی، سماجی اور معاشی محرومیوں کو کم کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان ، افغانستان اور بھارت کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے ختم نہیں ہوگا، بلکہ اس کے تدارک کے لیے مشترکہ طور پر ادارہ جاتی میکنزم کو مضبوط بنانا ہوگا۔خطے کی سیاست اور اس کے استحکام
میں ایک بڑا سوال ملکی مفاد کا ہوتا ہے۔یہ بجا ہے کہ ہر ملک کے لیے اپنے قومی مفادات اہم ہوتے ہیں لیکن یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ہمارا قومی مفاد خطے اور بین الاقوامی مفادات سے ٹکرائو کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اس لیے ہم اپنے قومی مفادات کا تعین کریں تو دیگر ملکوں کے مفادات کا تحفظ بھی پیش نظر رکھیں۔بھارت کیونکہ ایک بڑا جمہوری ملک ہے وہ جو راستہ اختیار کرے گا وہی راستہ دیگر ملک اپنانے پر مجبور ہوں گے۔چنانچہ بہتر یہی ہے کہ اس خطے کے ممالک اپنی اپنی ریاستوں کو سکیورٹی ریاستوں کی بجائے فلاحی ریاستیں بنانے کی جدوجہد کریں۔اس کے لیے خطے کے تمام ممالک کو یہ چاہیے کہ وہ ایک طے شدہ حد سے زیادہ دفاعی بجٹ نہ رکھیں۔ کیونکہ جب تک یہ ممالک عوام کی فلاح و بہبود پرسرمایہ کاری نہیں کریں گے یہاں کے لوگوں کی حالت زار کبھی نہیں بدل سکے گی۔ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی معاملات کو کم بجٹ رکھ کر خطے میں امن اور خوشحالی کی بجائے محرومی اور پس ماندگی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ان ممالک میں آمدورفت کو آسان بنانے کے لیے ویزہ پالیسی میں بھی نرمی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں باہمی تعاون صرف حکومتوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اس کا دائرہ کار صنعتکاروں ، تاجروں ، قلم کاروں اور سول سوسائٹی کے دیگر اداروں تک پھیلایا جائے۔کیونکہ ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات اور باہمی رابطے مسائل میں کمی پیدا کرنے کے دیگر امکانات پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح خطے کے معاملات کو بہتر انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ہمیں اپنی اپنی سطح پر جو سخت گیر موقف ہیں، ان میں کچھ نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ یہ سمجھنا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں یا بعض معاملات پر جو ہماری رائے ہے، وہی درست اور باقی سب غلط ہیں، معقول رویہ نہیں۔ اب نئے حالات و واقعات کی دوستی میں تمام ممالک کو اپنے اپنے موقف پر نظرثانی کرنا ہوگی۔کیونکہ یہ معاملات بنیادی تضاد کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔مکالمے اور بات چیت سے سدھار کی صورت نکلے گی اور اس کا طریق کار متعلقہ ممالک کو خود ہی طے کرنا ہوگا اور یہ عمل ان کے مفادات کو تقویت دے گا۔ بڑی طاقتوں پر انحصار کرنے اور ان کے دائرہ کار کو بہت زیادہ بڑھانے کی پالیسی خود خطہ کے ممالک اور ان کی سیاست کے حق میں نہیں ہے۔ یاد رہے کہ خطے کی سیاست اور حالات کوئی ایک ملک ٹھیک نہیں کرسکے گا،سب کو ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہماری ریاست ، حکومت اور سیاسی اشرافیہ کو اسی نقطہ کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں