پاکستان کو تنہا سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا …(کالم کا چوتھا حصہ)

پاکستان میں ماضی کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ سیاستدان تنہا زیادہ دیر تک کامیابی سے کارحکومت نہیں چلا سکے اور نہ ہی کوئی فوجی حکومت سیاستدانوں کی شرکت کے بغیر کامیابی سے ہمکنار ہو سکی ہے ۔ موجودہ دور میں دنیا میں کہیںبھی بالعموم اور پاکستان میںبالخصوص مارشل لاء پسندیدہ راستہ نہیں ہے ۔ اگر یہ تجزیہ کسی بھی حد تک درست ہے تو پھر پاکستان میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اپنی فتح و شکست کی موجودہ روش پراپنی ذمہ داریوں کے تناسب سے نظر ثانی کرنا ہو گی۔ اچھی قیادت موقع ملنے پر ادارے بناتی ہے اور اُنہیں اپنا دست و بازو سمجھتے ہوئے مضبوط کرتی ہے۔ باصلاحیت انتظامیہ اور ادارے حکومت اور حکمرانوں کی قوت اور ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اچھا سوار ہمیشہ اپنی سواری کو مضبوط اور توانا دیکھنا چاہے گا اور ساتھ ساتھ سواری کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرتاجائے گانہ کہ تازی گھوڑے کو مار مار کر ٹٹو بنا کر اپنے شا ہسوار ہونے کے شادیانے بجانا چاہے گا۔
پاکستان جس طرح جنوبی ایشیاء میں بے پناہ سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے اُسی تناسب سے اندرونی اور بیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ البتہ یہ پہلو بہت حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان کی مزاحمتی اور دفاعی صلاحیت میں بھی اُسی رفتار سے اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان کو دولخت کرنے اور دوقومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کے اندراگاندھی کے فاخرانہ اعلان پر چین کے عظیم انقلابی رہنما مائوزے تُنگ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے ایسا کر کے اپنے عدم استحکام کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت کسے معلوم تھا کہ آنے والے چند سالوں میں پاکستان دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن جائے گا۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت تو ایک معروف پہلو ہے لیکن اس کے کئی پہلوئوں پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی گاڑی ہے جو ماضی میں سالہا سال تک چند استثنائا ت کے علاوہ بغیر کسی اہل ڈرائیور کے اگر کامیابی سے چل کر یہاں تک پہنچ سکتی ہے تو کیا یہی اس کی بے پناہ قدرتی صلاحیتوں کا کافی ثبوت نہیں ہے اور خدا کرے اگر اس گاڑی کو چلانے والے باصلاحیت چند ڈرائیورز بھی دستیاب ہو جائیں تو کیوں کر ممکن نہیں کہ یہ گاڑی آنے والے طویل زمانوں تک کامیابی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے ۔
ملک میں رائج موجودہ نظام کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہو گا کہ چند بااصول اور صاحب کردار لوگوں کے علاوہ اس میں شامل لوگوں کا مقصدجائز و ناجائز ذرائع سے کسی نہ کسی طرح انتخاب جیتنا ہے اوراپنے حلقہ انتخاب کا چیف ایگزیکٹو یعنی حکمران /وزیر اعظم/ مختارِکُل بن کر رہنا ہے ۔ دستیاب مدت میں انتخابی اخراجات کو پورا کرنا آئندہ انتخاب کے لیے اسباب و وسائل جمع کرنا اور اپنے سیاسی مخالفین کو جینے کے حق سے محروم کرنے کے لیے سرکاری انتظامیہ کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا ہوتا ہے ۔اس سارے عمل میں ملک ، قوم ، نظریہ ، عقیدہ اور عوام کی فلاح و بہبود کی کہیں گنجائش ہی موجود نہیں ہوتی ۔ سیلاب ، زلزلے اور آفات سماوی کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امدادہمارے ہاں خالصتاً ذاتی ،گروہی اور جماعتی بنیادوں پر استعمال کی جاتی ہے بلکہ کئی مرتبہ تو انتظامی نااہلی کے باعث پوری طرح استعمال بھی نہیں ہو پاتی ۔ زلزلہ سے متاثرہ کچھ علاقے اور قحط زدہ تھر پارکراُس کی تازہ مثالیں ہیں۔
اس طرح کی کمزوریوں کی نشاندہی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہمارا نظام خدانخواستہ ناقابل اصلاح ہو چکا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کتنا جلد ہم اصلاح احوال کا آغاز کرتے ہیں۔یہ کام کسی خونی انقلاب کا انتظار کیے بغیر ہر شعبے میں اصلاح احوال کا آغاز کر کے بڑے اقدامات کے لیے جامع منصوبہ بندی پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ کارِ حکومت کا تعلق بنیادی طور پر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے ہونا چاہیے لیکن اُس صورت میں جب سیاسی جماعتیں اور سیاست دان جماعتی اور سیاسی سطح پر اولاً تو اپنے قومی مقاصد اور فرائض سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ اس کے مطابق منصوبہ بندی ہو، مطابقاً عمل درآمد اور پھر خود احتسابی یا جماعتی احتساب کا کوئی نظام موجود ہو ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بڑی حد تک کسی باضابطہ دستور اور منشور تک کی موجودگی بھی ایک مسئلہ ہے اور اُس پر کسی بھی سطح پر عمل درآمد کا تصور اب مفقود ہوتا جا رہا ہے ۔ حصول ِاقتدارکی خواہش اور شوق حکمرانی ہر دوسری چیز پر غالب دکھائی دیتی ہے جس کے باعث سیاسی کارکنوں کی مثبت اور قومی سوچ اور فکر پروان نہیں چڑھ سکتی ۔ ہمارا سیاسی نظام جائزاور ناجائز ذرائع سے حصول اقتدار کی خواہش میں تقریباً اندھا ہو چکا ہے۔
گویا کہ:۔
ساغر کے گرد گھومتی ہے ساری کائنات
بعض اچھے قوانین موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد ایک مسئلہ ہے ۔ انگریز کے زمانہ سے سڑکوں کے کنارے تعمیرات نہ کرنے پر پابندی عائد ہے ۔ جنگلات کے تحفظ کا قانون موجود ہے ۔ اینٹی کرپشن کے قوانین بالکل واضح ہیںلیکن جو ہو رہا ہے وہ اس کے بالکل برعکس ۔ یہ درست ہے کہ کئی قوانین اصلاح طلب ہیں اور کئی شعبہ جات کے لیے نئی قانون سازی بھی درکا ر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا سیاسی نظام اور سول گورننس کے اندر اتنی سکت و صلاحیت موجود ہے کہ تھوڑی سی تراش خراش سے کام چلایا جائے یا اُسے زیادہ کچھ کرنا درکار ہے؟ اسی ملک اور معاشرے میںمسلح افواج پاکستان کا اہم ترین قومی ادارہ کامیابی کے ساتھ چل سکتا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ باقی نظام حکومت بھی بہتری کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ ہمارے ہاں سرکاری سکول ، پرائیویٹ سکول اور آرمی پبلک سکولوں کا تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلا گا کہ پرائیویٹ اداروں میں باقاعدگی بھی ہے ، معیار تعلیم بھی بعض اداروں میں اچھا ہے لیکن نفع بخشی کا بڑا کاروباری پہلو بھی موجود ہے ۔اُس کے مقابلے میں سرکاری سکولوں میںسے کچھ ادارے جو محض سرکاری فائلوں اور کاغذات کی حد تک چل رہے ہیں اُن کا ذکر مقصود نہیں‘ جو موجود ہیں اور باقاعدہ چل رہے ہیں ما سوائے چند اچھے اداروں کے باقی ادارہ جات میںاساتذہ کی غیر حاضری ، تعلیم کا معیار اور اُس پر اٹھنے والے اخراجات کو سامنے رکھیں تو کسی بھی درد دل رکھنے والے محب وطن پر خوف طاری ہو جاتا ہے کہ کیا اس غریب ملک میں اس واہی تباہی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں کیا مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں انہی بستیوں اور علاقوں میں اِکا دُکا آرمی پبلک سکول بھی موجود ہیں۔ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی آرمی پبلک سکول میں بھی کسی اُستاد کے غیر حاضر ہونے کا کوئی تصور ہو سکتا ہے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کی عملی صورت کیا ہو لیکن تجویز کے طور پر کہتا ہوں کہ جہاں جہاں سرکاری اداروں کے نہ چلنے کی، غیر حاضری کی اور اس طرح کی دیگر شکایات موجود ہیں اُن میں سے کچھ اداروں کو تجرباتی طور پر آرمی پبلک سکول (APS)کے ساتھ منسلک کر دیا جائے اور رفتہ رفتہ ان اداروں کا نظم و نسق بھی بہتر کیا جائے تو اس میں جمہوریت یا سیاست کی کیا اور کتنی بے ادبی ہو گی مجھے اُس کا کوئی خاص اندازہ نہیں۔ البتہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک ہی تعلیمی سال کے اندر اے پی ایس کے زیر انتظام چلنے والے سرکاری اداروں پر لوگوں کا اعتماد بھی بڑھے گا اور معیار تعلیم میں بہتری کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور طلبہ کی حاضری میں کمی بھی پوری ہوتی جائے گی اور اس طرح سرکاری تعلیمی اداروں کا وجود ایک سوالیہ نشان بن کر رہنے کے بجائے نئی نسل کے امیدوں کا مرکز بن سکتا ہے ۔ دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقوں میں فوج کے زیر انتظام چلنے والی صحت کی سہولتیںڈسپنسریز، MDSاور CMH کئی قسم کی مشکلات کے باوجود ہمہ وقت اپنی بساط کے مطابق خدمات سر انجام دے رہے ہیںلیکن سول حکومتوں کے زیر انتظام موجود اداروں کی صورت حال انتہائی نا گفتہ بہ ہے ۔سول ہسپتالوں کے جنریٹرز، موٹر سائیکلز ،بعض گاڑیاں اورفرنیچر تک جب سرکاری سرپرستی میں گھروں میں منتقل کر دئیے جائیں تو عام غریب آدمی کا علاج کیا خاک ہونا ہے ۔ تعلیم ، صحت ، انتظامی امور، تعمیر و ترقی اور دیگر شعبہ جات کی دیگر تفصیلات کو سرِدست آئندہ کے لیے چھوڑ تے ہیںالبتہ نظام زیر بحث کے خدوخال اگلے کالم میں پیش کیے جائیں گے۔
(انشاء اللہ باقی آئندہ جمعہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں