ایک عمر کے بعد یہ سنا گیا کہ جماعت اسلامی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ خواہ وہ مقامی حکومتوں کے ہی انتخابات تھے۔ یہ تو نہیں کہ جماعت نے کراچی میں پہلی بار شہر کی قیادت سنبھالی ہو۔ جناب نعمت اللہ خان اعلیٰ خدمت کی ایک روشن مثال چلے آتے ہیں۔ اسی طرح جناب عبد الستار افغانی کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے۔ اس لیے کراچی جماعت اسلامی کے لیے نیا ہے نہ جماعت اسلامی کراچی کے لیے۔ لیکن کراچی کا نظام گزشتہ چند سال سے جس طرح چلایا جا رہا تھا اُس سے یہی لگتا تھا کہ کراچی کی بہتری کا زمانہ قبل از تاریخ رہا ہوگا۔ ایسے میں جماعت اسلامی کا نمایاں حیثیت سے جیت جانا خواب جیسا لگتا ہے۔ ویسے اس بار توقع یہی کی جارہی تھی کہ جماعت اسلامی کے مسلسل فلاحی کاموں کی وجہ سے اس کی طرف ووٹرز کا رجحان ہے‘ اس لیے وہ کافی تعداد میں نشستیں لے گی۔ اور یہ توقع بڑی حد تک پوری ہوئی۔
الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نتائج کے بعد بھی نتیجوں میں مسلسل تبدیلی ہوتی نظر آ رہی ہے اور بظاہر ایک دو دن یہ سلسلہ مزید جاری رہے گا۔ ابتدائی نتائج کے بعد جب جماعت اسلامی کی 86 اور پیپلز پارٹی کی 93 نشستیں بتائی گئیں‘ تین یونین کونسلز سے مزید یہ خبر آ گئی کہ وہاں جماعت کا امیدوار کامیاب ہوگیا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کو دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا۔ اس طرح یہ نشستیں بالترتیب 89 اور 90 بتائی جارہی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جماعت کے پاس 94 حلقوں کے فارم 11 موجود ہیں جن کے مطابق یہاں ان کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اور مزید کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی گئی ہیں جن میں جماعت کی کامیابی کا امکان ہے۔ جس اعتماد سے یہ بات کہی جارہی ہے اور جو قرائن پہلے سے موجود تھے‘ ان کی روشنی میں یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو جماعت اسلامی پہلے اور پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر کامیاب جماعتیں قرار پاتی ہیں۔ جناب سراج الحق کہتے ہیں کہ اپنا مینڈیٹ چرانے کی اجازت نہیں دیں گے اور ایسی صورت میں پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔ بہرحال آئندہ ایک دو دن میں بلدیاتی نظام میں جماعتی ترتیب واضح ہو جائے گی۔ میں ذاتی طور پر جماعت کی کامیابی سے بہت خوش ہوا ہوں‘ اس کی وجہ حافظ نعیم الرحمن صاحب کی گزشتہ برسوں میں اَنتھک محنت ہے۔ وہ کراچی اور اہلِ کراچی کے مسائل پر سب سے آگے کھڑے نظر آئے جبکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت‘ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کہیں نظر نہیں آتی تھیں۔ اس مسلسل محنت کا اہلِ کراچی پر اثر ہونا ہی تھا اور اس کا صلہ ملنا بھی چاہیے تھا۔
لیکن پیپلز پارٹی کو اتنی نشستیں ملنا حیرت انگیز ہے۔ اتنے سال سے حکومت میں ہونے اور کراچی کو نظر انداز کیے رکھنے کے بعد ووٹر کو پیپلز پارٹی میں کیا کشش نظر آئی؟ کوئی ایک وجہ تو ہونی چاہیے۔ میرا انتخابات کے روز کراچی کے دوستوں سے رابطہ رہا۔ ایک تو یہ بات سب نے کہی کہ ٹرن آؤٹ خاصا کم تھا۔ دوسری یہ بات بھی کہی گئی کہ شہر کے وسطی علاقوں میں بھی ملحقہ گوٹھوں اور گاؤں کی آبادی پولنگ سٹیشنوں میں بھری ہوئی تھی اور یہ سب پیپلز پارٹی کے ووٹرز تھے۔ گوٹھ کے بڑے نے جب یہ کہہ دیا کہ ووٹ فلاں نشان کو ڈالنا ہے تو اب یہ طے ہے کہ سارا گوٹھ اسی پر نشان لگائے گا۔ اس سے غرض نہیں کہ سابقہ ادوار میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی کیا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ حامی ان کاموں کی تفصیل بھی پیش کرتے ہیں جو گزشتہ ایک دو سالوں میں کیے گئے ہیں لیکن یہ محض الیکشن جیتنے کی کارروائیاں لگتی ہیں اور کراچی کی اکثریت اس پر اعتبار نہیں کر رہی۔ ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کی اس جیت میں دو میں سے ایک ہی بات ہو سکتی ہے۔ یا تو دھاندلی اور جعلی ووٹ۔ یا پھر ان کیے ہوئے کاموں کا ووٹرز پر اثر۔ ہم اسی دوسری بات کو درست سمجھ لیتے ہیں‘ تو اس کا ایک واضح پیغام پیپلز پارٹی قیادت کے لیے یہ بنتا ہے کہ اگر وہ واقعی کراچی کی بہتری کے لیے کام کرے تو کراچی اس کا ہو سکتا ہے۔ وہ کراچی میں اپنے قدم دوبارہ جما سکتی ہے۔ ہمارا ووٹر بہت کمزور حافظہ رکھتا ہے اور اس کی دور کی یادداشت عموماً کام نہیں کرتی۔ اس لیے کراچی کے لیے خلوص سے کچھ کام کر لیے جائیں تو پیپلز پارٹی کراچی میں گھر کر سکتی ہے کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات اسی سال ہونے ہیں۔
لیکن پیپلز پارٹی سے زیادہ قابلِ توجہ معاملہ پی ٹی آئی کا ہے۔ سال ہا سال پی ٹی آئی کا حامی رہنے کے باوجود‘ اور اب تک عمران خان کو بہت حوالوں سے بہترجاننے کے باوجود‘ کہنے دیجئے کہ مجھے اس کے تیسرے نمبر پر رہنے کی خوشی ہوئی ہے۔ جس طرح خان صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں کراچی کو نظر انداز کیا تھا‘ اہلِ کراچی کی پی ٹی آئی کے لیے قربانیوں کے لیے قدر نہیں کی تھی‘ اس کے بعد کراچی والوں نے انہیں 40سیٹیں دے دیں تو بہت فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں اہلِ کراچی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ انہیں اس سے نصف نشستیں بھی مل جاتیں تو یہ اہلِ کراچی کی فراخ دلی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد خان صاحب نے کراچی کا دورہ بھی نہیں کیا تھا‘ جبکہ حلف اٹھانے کے بعد مزارِ قائد پر حاضری روایت میں چلی آتی تھی۔ وہ کراچی جس کے باسیوں نے راتوں کو جاگ کر خان صاحب کے لیے دھرنے اور مظاہرے کیے‘ جہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جانیں دیں‘ اقتدار میں وہ شہر ان کے لیے کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ میں خان صاحب کا اس وقت سے معترف تھا جب انہوں نے کراچی کو یرغمال بنا لینے والوں کو اُس وقت کھل کر للکارا تھا جب دیگر سیاست دان ان کے سامنے گھگھیائے رہتے تھے۔ یہ صرف خان صاحب ہی کر سکتے تھے۔ اور جب اقتدار میں انہوں نے کراچی کو جیسے پہچاننا ہی چھوڑ دیا تو اندازہ ہوا کہ یہ کام بھی صرف خان صاحب ہی کر سکتے ہیں۔
خان صاحب کو یقینا کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دھچکا لگا ہوگا۔ لیکن یہ شاید انہیں اپنی غلطیاں سدھارنے پر قائل کرے۔ صوبائی اور قومی انتخابات سر پر ہیں۔ اگر خان صاحب اور اُن کی جماعت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ اس آئینے میں آئندہ کے نتائج دیکھ سکتے ہیں جو اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کراچی کے بلدیاتی نتائج کے بعد تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن نے بھی کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ یہ دونوں فطری حلیف بنتے ہیں اور دونوں کرپشن کے خلاف اعلانِ جہاد بھی کیے ہوئے ہیں۔ شاید ایک دو دن میں اس کا اعلان بھی ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اس اتحاد کی راہ میں یقینا رکاوٹیں ڈالے گی‘ اس لیے کام کرنے کے لیے بہتر ہوتا کہ پیپلز پارٹی اور جماعت کا اتحاد ہوتا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی نیک نامی بہت بری طرح متاثر بھی ہوتی اور کام پھر بھی ہونا یقینی نہیں تھا۔ کراچی ایک مدت سے جن حالات اور ابتری کے دور سے گزر رہا ہے‘ اس کے لیے بہت تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا نے حافظ نعیم الرحمن کو یہ موقع عطا کردیا ہے۔ مجھے تو ان سے اس حد تک توقع ہے کہ وہ کراچی شہر میں کام کرکے پورے ملک میں وہ لہر پیدا کر سکتے ہیں جو آئندہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جماعت کو بھرپور نشستیں دلا سکے۔ ہر جماعت سے مایوس ہونے کے بعد اب ہمارے پاس اس کے علاوہ راستہ بچا کون سا ہے۔ کیا ہے اور کوئی راستہ؟