"SUC" (space) message & send to 7575

جو موم کا پُتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا

سیاسی مجبوریاں بھی کیسی مجبوریاں ہوتی ہیں کہ حلیف جماعت کے اکثر رہنماؤں سے ناپسندیدگی بھی چھپائے نہ چھپتی ہو اور ہاتھ چھڑائے بھی نہ بنتی ہو۔ سلیم احمد کا شعر ہے :
ساتھ اس کے رہ سکے نہ بغیر اس کے رہ سکے
یہ ربط ہے چراغ کا کیسا ہوا کے ساتھ
بس یہی حال چودھری پرویز الٰہی کا آج کل ہے ۔ان کے دل سے اسمبلی تحلیل کرنے کا دکھ نہیں جاتا ۔ اس دکھ کو کسی چیز نے کچھ کم کیا ہے تو وہ فواد چودھری کی گرفتاری ہے۔ان کی آڈیو لیک میں جن الفاظ پر انہوں نے معذرت کی ہے ‘ وہ بہرحال ان کے دل کا حال بتاتے ہیں۔ اور فواد چودھری کو ناپسند کرنے میں وہ اکیلے ہیں بھی نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے جو مقربین ہمیشہ بدمزہ کرتے رہے ہیں ان میں یہ حضرت والا بھی شامل ہیں ۔ صرف بدمزہ ہی نہیں ‘ عمران خان نے ان کے ذریعے اپنی تصویر کو مسخ بھی کیا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ‘خود خان صاحب ہی ہیں ۔قریبی افرادکے یہ تو وہ معاملات ہیں جو اَب سالہا سال پر پھیلے ہوئے ہیں ۔اس پر طرہ‘ خان صاحب کی اپنی خود پسندی اور خود رائی ہے جس کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔قومی اسمبلی سے استعفے دینا اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔میں چودھری پرویز الٰہی کی رائے دانشمندانہ سمجھتا ہوں کہ اسمبلیاں تحلیل نہ کی جاتیں اور کچھ کام کرنے کا موقع مل جاتا۔تحریک انصاف کا تاثر عمران خان کی مقبولیت سے الگ ‘ کارکردگی کے حوالے سے بھی بنتا جو پونے چار سالہ دور میں صفر ہوچکا تھا۔ ویسے بھی انتخابات ہر صورت میں اس سال ہونے ہی ہیں ۔تو جہاں چند ماہ انتظار کرنا تھا وہاں کچھ ماہ اور گزرجاتے تو کیا فرق پڑتا۔ بلکہ فرق مثبت ہی پڑتا۔قاف لیگ کو بھی پنجاب میں اپنے کام کرنے اور تنظیم نو کرنے کا موقع مل جاتا۔پرویز الٰہی غلط نہیں کہتے کہ میں سمجھا سمجھا کر تھک گیا لیکن پی ٹی آئی نے بات نہیں مانی ۔ چودھری پرویز الٰہی سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں فواد چودھری کا بھی اصرار شامل تھا۔
فواد چودھری پی ٹی آئی کے جارحانہ انداز کے ترجمان تھے اسی لیے تحریک انصاف کے دور حکومت میں ان کی وزارتیں کئی بار تبدیل ہوئیں لیکن وزارت اطلاعات انہیں بار بار ملتی رہی ۔عمران خان سمجھتے ہیں کہ انہیں اسی طرح کا ترجمان چاہیے۔خان صاحب ‘جو مردم ناشناسی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ‘یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے ریاست ِمدینہ کے تصور سے ان کے دائیں بائیں چند لوگ‘ نہ دیکھنے میں مطابقت رکھتے ہیں ‘ نہ طرزِ گفتگو میں۔اگرچہ کسی بھی جماعت میں کوئی مثالی ترجمان مدت سے موجود نہیں لیکن تحریک انصاف کے ترجمان بہت سی حدود پھلانگ جانے میں معروف ہیں ۔
کھیل خان صاحب کے ہاتھوں سے پھسلتا محسوس ہورہا ہے ۔ اسمبلیوں سے استعفے دے کر‘اسمبلیاں تحلیل کرکے ‘اب صرف بیانات پر اکتفا کرنا ہوگا۔ اپنی پالیسیوں سے انہوں نے کئی طبقات اور کئی ادارے بیک وقت مخالف بنالیے ہیں ۔ان سب کا مقابلہ بھی کارکردگی سے نہیں بلکہ مقبولیت سے کیے جانے کا خواب لذیذ سہی‘ حقیقی نہیں ۔کے پی میں مسلسل ان کی حکومت رہی ہے ‘ پنجاب میں اب تک ان کی حکومت رہی ہے۔ کیا مضائقہ تھا اگر وہ ان صوبوں میں اپنی کارکردگی فخریہ انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرکے اپنی دیانت اور اہلیت ثابت کرتے۔کیا مضائقہ تھا اگر وہ پونے چار سال کی وفاقی حکومت میں اپنے کچھ کام ایسے پیش کردیتے جو ٹھوس بنیادوںپر کیے گئے ہوں۔یہ سلسلہ کب تک چلے گاکہ فلاں چور ہے ‘ فلاں ڈاکو ہے‘ فلاں ایجنٹ ہے اور فلاں کٹھ پتلی ہے ۔ اب مخالفین پر بھی ان بیانات کا اثر نہیں ہورہا اور غیر جانبداروں پر بھی ۔ اپنے اور اپنی جماعت کے لیے خا ن صاحب نے بہت بڑا مسئلہ یہ بنا دیا ہے کہ اب مقتدر حلقے انہیں ناقابلِ اعتماد سمجھتے ہیں ۔
ایک سوال کا جواب ضروری تو ہے لیکن جواب مبہم ہے ۔ اور وہ یہ کہ مقبولیت اہم ہوتی ہے یا گزشتہ کی کارکردگی ؟خان صاحب کے پاس مقبولیت ہے اور کارکردگی کے نام پر نہ ہونے کے برابرکام ہے۔ اگرچہ کراچی کے بلدیاتی انتخاب کے معاملات اور حرکیات قومی انتخاب سے جد ا ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس سے نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔اس لیے تحریک انصاف کو اس زعم سے باہر آجانا چاہیے کہ الیکشن میں وہ دو تہائی اکثریت باآسانی لے لے گی ۔ میرے خیال میں یہ جماعت اسلامی کے لیے بہتر موقع ہے کہ وہ عام پاکستانی کے مسائل میں اس کے ساتھ جڑ کر اس خلا کو پر کرسکتی ہے ۔جیسا کہ کراچی میںہوا بھی ہے ۔یہ جو ہمارے چہار سمت تماشا لگا ہوا ہے ‘اس تماشا گاہ میں جب تک مہر لگانے کا موسم نہ آ جائے اس وقت تک ہم عام لوگ اب کس مصرف کے ہیں ؟ کچھ کام تو طے ہیں۔ صبح اٹھ کر اسحاق ڈار صاحب کا بیان پڑھنا کہ یہ جو ڈالر 265 روپے پر پہنچ گیا ہے یہ سب گزشتہ پانچ سال کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ پھر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا بیان پڑھنا کہ لٹیرے ملک پر اپنے سہولت کاروں کی وجہ سے قابض ہوچکے ہیں اور ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔ پھر یہ پڑھنا کہ فواد چودھری کی گرفتاری جمہوریت کا قتلِ عام ہے ۔پھر مسلم لیگ نون کے لوگوں کا تبصرہ سننا کہ فواد چودھری کو ان سب انتقامی کاموں کی سزا مل رہی ہے جو ان کے زمانۂ اقتدار میں کیے گئے تھے۔پھر یہ خبر برداشت کرنا کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت کڑی ہیں اور ان کے بعد مہنگائی کا ایک نیا سیلاب ہمارا رخ کرے گا۔ان بیانات سے اگر کوئی بچ جائے تو آٹے‘مرغی کے گوشت اورپیاز کی قیمتیں ڈھیر کردیتی ہیں۔ یہ اعلانات اس پر مستزاد کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر آج اتنے اور کم ہو گئے۔ پہلے بھی اپنی رائے پیش کی تھی کہ خان صاحب کی خود پسندی اور خود رائی انہیں بھی لے کر ڈوب رہی ہے اور اس کا بوجھ اتنا ہے کہ پارٹی اور حلیف بھی ڈوب رہے ہیں ۔اب اس عمر میں نہ خان صاحب بدل سکتے ہیں ‘نہ وہ اس کی ذرہ برابر ضرورت سمجھتے ہیں۔ روز وہ کہانیاں سامنے آرہی ہیں جو خان صاحب کے خیر خواہوں کو منہ چھپانے پر مجبور کردیتی ہیں اور ان کہانیوں کی تردید بھی کبھی نہیں ہوتی ‘اس لیے انہیں کہانی کے درجے سے نکال کر حقائق ہی کہہ لینا چاہیے ۔ ان میں تازہ تر ایک معاصر کالم نگار کے وہ انکشافات ہیں جو انہوں نے عون چودھری کے حوالے سے کیے ہیں۔ مفتی سعید صاحب جو عمران خان کی شادی کے نکاح خوان ہیں‘ ان کے انکشافات اس پر مستزاد ہیں۔ ہمیں ذاتیات میں پڑنے کا شوق نہیں لیکن اس میں کیا شک ہے کہ ایک اتنے بڑے لیڈر کی ذاتی زندگی کے لیے اس کے فیصلے اس کی شخصیت اور مزاج کے عکاس ہوتے ہیں۔ہم نے زندگی میں بہت سے بت ٹوٹتے دیکھے ہیں ‘ ایک اور سہی ۔احسان دانش کا شعر یاد آتا ہے:
کل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں